میڈیا کے منصور

خالی سپریم میں ہی ایسے منصور و منیب نہیں ہیں، میڈیا میں بھی ایسے کئی منصور و منیب موجود ہیں جو عمران خان کو سیاست میں زندہ رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ تبھی تو جہاں ایک طرف عدلیہ کے حوالے سے حکومت ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے رہی ہے تو دوسری جانب میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنے کے لئے پیکا قانون میں تبدیلیوں کی بدنامی مول لے رہی ہے۔ اس سب کے باوجود ہر صبح عدالتوں سے اور ہر شام ٹی وی باکسروں سے عمران عمران کی پکار سنائی دیتی ہے جن کے نام لیوا سب صرف خیبر پختونخوا میں ہی رہ گئے ہیں۔
یوں تو میڈیا کے وہ جغادری جو ننگے ہو کر عمران خان کو مرشد مان کر ان کی پبلسٹی میں لگے ہوئے تھے، اب ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور جن کو یہ موقع نہیں ملا، خاموشی کی چادر اوڑھے کونوں کھدروں میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر اوورسیز پاکستانیوں کے ڈالر اب ادھر بھی اپنا کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں جدھر سمجھا جاتا تھا کہ سنجیدہ صحافت کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ادھر عمران خان کے نام پر ایک فرضی خط کا شور مچایا جاتا ہے، ادھر یہ خواتین و حضرات شام ڈھلتے ہی شام غریباں سجا لیتے ہیں اور رات بارہ بجے تک وہ ہا ہا کار مچاتے ہیں کہ لوگ ٹی وی چینلوں سے ہی بیزار ہو گئے ہیں کیونکہ اگر عمران خان پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اتنے ہی پاپولر ہوتے تو آج حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال کی سیاست چلمن کے پیچھے نہ چھپی ہوتی۔ مگر ہمارے ٹی وی ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا زمین پر کوئی وجود نہیں ہے بلکہ سچ پوچھئے تو عمران خان عوام میں سیاسی طور پر اتنے مقبول نہیں رہے، جتنے آن ٹی وی اینکروں میں محسوس ہوتے ہیں، جس کا ضرور کوئی نہ کوئی سبب ہو گا۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ہمارے میڈیا نے عمران خان کا عدالتی حکم پر ویسے ہی نام لینا چھوڑ دیا ہوتا جیسے نواز شریف کے کیس میں کیا تھا اور عمران خان کے خلاف کرپٹ کرپٹ کی آوازیں ویسے ہی لگا رہے ہوتے جیسے نواز شریف کے خلاف چور چور کی آوازیں لگاتے تھے تو آج کیا صورت حال ہوتی۔ اس کے برعکس ہماری عدلیہ اور میڈیا جس بری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پس پردہ قوتوں نے کیسے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہو گا۔
دیکھا جائے تو یہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی آپسی لڑائی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کو انتشار و تفریق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل مشرف کی باقیات نے عمران خان کا سیاسی بت بنا کر جو کھیل کھیلنے کی کوشش کی تھی، اس کو سنبھالتے سنبھالتے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی سانسیں پھول رہی ہیں کیونکہ خالی عدلیہ اور میڈیا ہی نہیں، زندگی کے دیگر طبقوں میں بھی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اپنے مالی فائدے کے لئے ملک کی عزت و آبرو کو خاک آلود کرنے سے بھی نہیں چوکتیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے۔ ایسے میں عوام کا خاموش رہنا بنتا نہیں ہے۔ آپ اب چاہے اندرون پنجاب چلے جائیے، سندھ یا بلوچستان چلے جائیے یا پھر کے پی اور گلگت بلتستان چلے جائیے، آپ کو عوام میں اطمینان و بشاشت کی واضح جھلک ملتی ہے۔ لوگ اب مریم نواز کے کارناموں کو گنتے ہیں اور شہباز شریف کی جانب سے ملکی معیشت کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کے حوالے سے کی جانے والی کاوشوں کا تذکرہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ کل ہی ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والا ایک ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ اس کے علاقے میں دوبارہ سے ترقیاتی کاموں کا آغاز ہو گیا ہے، اس سے قبل بلوچستان کی بزنس کمیونٹی کے چیدہ چیدہ افراد سے بات چیت ہوئی تو بتانے لگے کہ انہوں نے چیف منسٹر بلوچستان سے صاف صاف کہا ہے کہ اگر پنجاب میں نوجوانوں کو کاروبار شروع کرنے کے لئے بلا سود قرضے مل سکتے ہیں تو بلوچستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا، اسی طرح بزنس مینوں کی ایک محفل میں جانے کا موقع بنا تو ان کی زبانی سننے کو ملا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کاروبار دوبارہ سے چل پڑا ہے وگرنہ 2022 میں تو سنا جا رہا تھا کہ ٹیکسٹائل مشینوں کو کباڑ کے بھاؤ بیچا جا رہا ہے۔
لیکن کیا کریں کہ میڈیا کے منصور و منیب کو نہ تو یہ باتیں سنائی دے رہیں نہ ملک کی بدلتی ہوئی صورت حال دکھائی دے رہی ہے، صبح و شام ان کے منہ پر ایک ہی نام ہوتا ہے اور وہ عمران خان کا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام تو عمران خان کو بطور سیاست دان بھولنا چاہتے ہیں مگر میڈیا کے منصور و منیب نہیں بھولنے دے رہے۔
اس صورت حال کا حل یہ ہے کہ حکومت نے جس طرح عدلیہ میں موجود پی ٹی آئی کی پراکسیوں کو ایکسپوز کیا ہے، اسی طرح میڈیا کے عمراڈونز کو ایکسپوز کرے کیونکہ ان کی وجہ سے باقی کے میڈیا کی عزت بھی خاک میں ملتی جا رہی ہے۔ ان کی وجہ سے عوام کا میڈیا سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ میڈیا کا کام پراپیگنڈہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ سچائی کو پراپیگنڈہ سے الگ کر کے دکھانا ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے اور سچائی میں پراپیگنڈہ کی آمیزش کر کے معاشرے میں بے چینی اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ میڈیا کے ان منصوروں اور منیبوں کی نالش لی جائے اور پاکستان کو ترقی کرنے، پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو پراپیگنڈے کے گرداب سے نکالا جائے۔ ملکی کے سنجیدہ اور محب وطن طبقوں کو آپس میں مل کر ان انتشاری قوتوں کو شکست دینی چاہیئے جو ملک کو دوبارہ سے عمرانی فاشزم کا شکار بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو کمزور کرنے کا جھوٹا خواب بن رہے ہیں۔