ریلوے نے چند کارآمد انجن بچا کر رکھے ہوئے ہیں، جب کبھی سیاحتی گاڑیوں کا باقاعدہ آغاز ہو گا تو سفر کو ڈرامائی رنگ دینے کے لیے باہر لے آیا کریں گے

ریلوے نے چند کارآمد انجن بچا کر رکھے ہوئے ہیں، جب کبھی سیاحتی گاڑیوں کا ...
ریلوے نے چند کارآمد انجن بچا کر رکھے ہوئے ہیں، جب کبھی سیاحتی گاڑیوں کا باقاعدہ آغاز ہو گا تو سفر کو ڈرامائی رنگ دینے کے لیے باہر لے آیا کریں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:41
پاکستان کے محکمہ ریلوے نے اب بھی ان میں سے چند کارآمد انجن بْرے وقت کے لیے بچا کر رکھے ہوئے ہیں، وہ بھی اس آس پر کہ جب کبھی سیاحتی گاڑیوں کا باقاعدہ آغاز ہو گا تو وہ اس سفر کو ڈرامائی رنگ دینے کے لیے کبھی کبھار اس انجن کو بھی باہر لے آیا کریں گے۔ اور متجسس لوگوں کو اس کی کہانی سنا کر، اسے چلا کر اور اس کی سیٹیاں بجا کر محظوظ کیا کریں گے۔ اس کام کے لیے انھوں نے پرانے وقتوں کے ڈرائیوروں کی خدمات بھی سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔
پہلے تو ایسے ہی2 انجن، ایک سفاری گاڑی میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو لے کر درہ خیبر گھمانے لے جایا کرتے تھے، جب وہ لائن تباہ و برباد ہوئی اور ناقابل استعمال قرار پائی تو ادھر کا راستہ بند ہوا۔ اب یہ انجن ویسی ہی ایک گاڑی کو مہینے میں چند بار پشاور سے دریائے سندھ پر واقع پنجاب کے خوبصورت اسٹیشن اٹک خورد تک لے کر جاتا ہے۔ اور سیاح وہاں چائے پانی پی کر اور مستیاں کرکے لوٹ آتے ہیں۔
ڈیزل انجن
بیسویں صدی کے آغاز میں میں جب برطانیہ کے سائنس دان اور انجینئر بھاپ کے انجن کی رفتار اور کارکردگی پر اپنا دھیان مرکوز کیے ہوئے تھے تو امریکہ اور یورپ کے کئی شہروں میں اس کے متبادل کی طور پر ڈیزل اور برقی انجنوں کی تیاری پر کام ہو رہا تھا۔ ڈیزل انجن کی ابتدائی شکل تو 1892ء میں ہی جرمنی میں سامنے آ گئی تھی، جب رڈولف ڈیزل نامی ایک سائنسدان نے ڈیزل انجن سے ریل گاڑی چلانے کی کوشش کی، تاہم اسے کوئی خاص کامیابی نہ ملی۔ پھربھی وہ چْپکا نہیں بیٹھا اور کام میں جْتا رہا، آخر کار اس کی محنت رنگ لائی اور 1912ء میں سوئٹزرلینڈ میں اس نے ڈیزل انجن سے پہلی پسنجر گاڑی چلائی۔ لیکن یہ تجربہ بھی ناکام ہی رہا۔ کام بہر حال اس پر ہوتا ہی رہا۔پھراسی انجینئر، یعنی رڈولف ڈیزل کے نام پر ہی اس انجن کا نام بھی ڈیزل انجن رکھ دیا گیا۔ دوسرے ملکوں نے اس کی تحقیق اورتجربے کی روشنی میں ڈیزل انجن پر اپنی تحقیق جاری رکھی، یہ محنت رنگ لائی اور 1920ء تک امریکہ میں کچھ برانچ لائنوں پر ڈیزل انجن سے گاڑیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد اس کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل تجربات ہوتے رہے۔ اس کو لمبے سفر کے لیے کار آمد پایا گیا یہ اوسطاً 130 کلومیٹر کی رفتار سے مسلسل2ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرلیتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی رفتار اور طاقت میں بھی اضافہ ہوتاگیا۔
جرمنی سب سے پہلا ملک تھا جس نے اپنے بڑے شہروں کے لیے ڈیزل انجن سے چلنے والی گاڑیاں چلائیں۔ پھردوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر تو گویا یہ ساری دْنیا میں چھا گیا۔ سب سے مزیدار بات یہ تھی کہ امریکہ نے27 ہزارکے قریب نئے ڈیزل انجن بنا کر چلا دئیے اور پھران کی کارکردگی جانچنے کیلیے بڑا تفصیلی سروے کیا گیا اور اس کے حاصل کردہ  اہداف کا تجزیہ کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ان 27ہزار انجنوں کی کارگردگی، 40ہزار اسٹیم انجنوں کے برابر تھی۔ لہٰذا بڑا فیصلہ کر لیا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسٹیم انجنوں کو مستقل طور پر خیر آباد کہہ کر ان کے فرائض نئے آنے والے ڈیزل انجنوں کو سونپ دئیے جائیں۔
برطانیہ نے 1930ء میں کچھ علاقوں میں ڈیزل انجن چلائے،لیکن وہ دوسری جنگ عظیم  کے خاتمے کے کافی عرصے بعد تک بھی اسٹیم انجن کو اپنی دھرتی سے مکمل طور پر دیس نکالا نہ دے سکا۔ شاید جنگ کی وجہ سے کچھ مالی مسائل آڑے آئے ہوں۔ پھر1968ء میں برطانیہ نے  نئے اسٹیم انجنوں کی تیاری اور مرمت پر مکمل پابندی لگا دی اور ان کی جگہ بتدریج ڈیزل انجن چلانے کی منظوری دیدی گئی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -