مسلم لیگ نون کیا سوچ رہی ہے؟

اتوار کی سرد دوپہر میں گرماگرم لاہوری برنچ سے سجی ہوئی محفل میں طعام اور کلام دونوں ہی اعلیٰ معیار کے تھے، صحافی اور تجزیہ کار بھی تھے اور مسلم لیگ نون کے ذمہ دار بھی،موضوع سیاست تھی جو اس وقت پاناما لیکس کے مقدمے میں پھنسی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ نون کا خیال ہے کہ اس مقدمے میں وزیراعظم نواز شریف کو سزا نہیں دی جا سکتی، ان کا نام پانامہ لیکس میں شامل نہیں اور عدالتیں آئین، قانون اور ضابطہ کار کے مطابق ہی چلتی ہیں۔ ایک صحافی دوست کا خیال تھا کہ سب کے لئے قابل قبول فیصلہ آسکتا ہے، عدالت کا وقار اور عزت بھی بحال رہے، میاں نواز شریف بھی اپنے عہدے پر موجود رہیں اور عمران خان بھی اسے گھاٹے کا سودا نہ سمجھیں۔ تشریح میں گئے تو کہا گیا کہ یہ فیصلہ مریم نواز شریف، حسین نواز شریف اور حسن نواز کے خلاف ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب تھا کہ مقدمہ سیدھا سادا ہے ، بنیادی الزام منی لانڈرنگ کا ہے جسے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان کے شہری اگر بیرون ملک دولت کماتے اور وہاں ہی خرچ کرتے ہیں تو ان ممالک کو، جہاں ٹیکس کا نظام ہم سے بہت زیادہ بہتر ہے، اعتراض نہیں توہم اس کو جرم کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ دوسرے اگر میاں نوا زشریف کو کلین چٹ دے دی جائے مگر ان کے بچوں کو مجرم قرار دے دیا جائے تو یہ بھی میاں نواز شریف پر ہی الزام لگانے کے مترادف ہے۔ عمران خان اور ان کے وکلا کو علم ہو چکا ہے کہ وہ قانون کی عدالت میں مقدمہ ہار چکے ہیں لہٰذا اب وہ اپنا مقدمہ سیاسی عدالت میں پیش کر رہے ہیں جہاں قانون اور ثبوت نہیں محض پروپیگنڈہ چلتا ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار منجھے ہوئے تھے مگر کوئی بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کہ فیصلہ کیا ہو سکتا ہے ، ایک آپشن تو بیان ہو چکا کہ ایسا فیصلہ آجائے جو سب کے لئے قابل قبول ہو مگر وہ کیا ہو سکتا ہے اس بارے کچھ حتمی نہیں کہا جا سکتا، یہاں دو بڑے اہم آپشن ابھی باقی ہیں، ایک یہ کہ فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آجائے جیسا کہ اس سے پہلے انتخابی دھاندلی کے مقدمے میں ہوا تو پی ٹی آئی کی قیادت کیا کچھ کر سکتی ہے۔ جواب یہی ہے کہ وہ فیصلہ تسلیم کرے گی مگر بہت زیادہ شور مچانے کے ساتھ، وہ اس شور کو آئندہ انتخابات تک لے جائے گی اور ایک طرف میاں نواز شریف کا مقدمہ ترقی اور خوشحالی کا ہو گا تو عمران خان کرپشن اور احتساب کے نعرے کے ساتھ میدان میں موجود ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ میدان پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں لگے گا۔ تیسرا اور سب سے اہم ( یا خطرناک) آپشن یہ ہے کہ مقدمے کی بظاہر مضبوطی کے باوجودحکمران خاندان کے خلاف فیصلہ آجائے ،جس طرح وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کر دیا گیا اسی طرح وزیراعظم محمد نواز شریف کو گھر بھیج دیا جائے۔ یہاں سوال تھا کہ پھر وزیراعظم کسے بنایاجائے گاجیسے پیپلزپارٹی نے راجا پرویز اشرف کا انتخاب کر لیا تھا۔یہاں اسحاق ڈار، شہباز شریف اور مریم نواز شریف سمیت بہت سارے نام لئے جا سکتے ہیں مگر یہ نام پیش کرنے والے مسلم لیگ نون کی بلکہ میاں نواز شریف کی نوے کی دہائی میں ہی تبدیل ہوئی سوچ کو بھول جاتے ہیں ، اس بدلی ہو ئی سوچ کے تحت وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ فرینڈلی نظر نہیں آتے۔ ایک سوال ہوا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اب بھی مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف ہے تو اس کا جواب تھا کہ پرانی نہ سہی مگر اب ایک نئی اسٹیبلشمنٹ ابھر رہی ہے اور اس سے انتظامی امور متاثر ہو رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی یہی کہا کرتی تھی۔ مسلم لیگ نون کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں نے عدلیہ بحالی کی مہم چلائی تھی مگر اس کے نتائج وہ نہیں نکلے جو تصور کئے جا رہے تھے، نتائج کچھ افراد کے رویوں کی وجہ سے کچھ مختلف رہے۔
مسلم لیگ نون میں جہاں بہت ساری فاختائیں ہیں وہاں بہت سارے عقاب بھی ہیں جو عدیم ہاشمی کے اس شعر کی تفسیر بنے پھرتے ہیں جس کا دوسرا مصرعہ ہے،’ میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے‘۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ جو ماضی کے عقاب تھے وہ بھی جمہوریت کی بقا اور تحفظ کے لئے فاختائیں بنے پھرتے ہیں۔ یہاں مسلم لیگ نون کے عقاب ہوں یا فاختائیں، انہوں نے اتباع اسی حکمت عملی کا کرنا ہے جو نواز شریف کی طرف سے آئے گی اور اس کے بارے میں پہلے ہی واضح کر چکا ہوں کہ مسلم لیگ نون پر اسٹیبلشمنٹ سے دوستی کا الزام اب ایک لطیفہ بن چکا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ دیوار کو ٹکر نہیں ماری جاتی، گاڑی کے سامنے نہیں لیٹا جاتا اور زہر خود نہیں پھانکا جاتا مگر جس نواز شریف نے بارہ اکتوبر ننانوے کو استعفیٰ دینے سے یعنی سرنڈر کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اب ان سے ایسی امید کوئی کم عقل اور کم فہم ہی رکھ سکتا ہے لہٰذا خیال ہے کہ ایسی صورت میں کوئی متبادل نام سامنے لانے کی بجائے مسلم لیگ نون کو ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہونا چاہئے ،کہہ دینا چاہئے کہ جو ملک کو اس طریقے سے چلانا چاہتا ہے ، وہ چلا کے دیکھ لے۔ میں واضح کر دوں کہ اس فقرے کا مطلب سرنڈر کرجانا نہیں بلکہ مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا ہے۔ شہباز شریف کو دوبارہ حبیب جالب کو پڑھنا پڑ سکتا ہے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں
مانتا۔قیادتوں پر کرپشن کے الزامات ساٹھ اور ستر کی دہائی سے ہی لگتے چلے آ رہے ہیں اور ان الزامات نے متعدد بار حکومتوں کو رخصت بھی کیا ہے۔ اب اکیسویں صدی میں تو ایسا ہونا چاہئے کہ الزامات کی بجائے سیاست خدمت اور ڈیویلپمنٹ کی بنیاد پر ہو اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اتنی زیادہ کرپشن ہو رہی ہے جس نے خدمت او رترقی کا راستہ بھی روکا ہوا ہے جیسا کہ یہ تصور پیپلز پارٹی کی حکومت کے بارے میں پورے زور وشور کے ساتھ پیش کیا گیا تو پھر وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے جوکہ پچھلے پانچ، دس برسوں میں استعمال کیا گیا یعنی مقدمہ عوام کی عدالت میں پیش کر دیا جائے۔
اس بات سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے الزامات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ وہ مسلم لیگ نون کی قیادت کو عدالت تک میں لے آئے ہیں۔ اس وقت پورے ملک کی نظریں اسی مقدمے پر لگی ہوئی ہیں مگر اس بات سے بھی کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان انتخابی دھاندلی کے بعد منی لانڈرنگ کے الزامات کو ثابت کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ان کے پاس ثبوت نہیں ہیں مگر الزامات کو اتنے تواتر سے دہرا رہے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت خود انہیں حقیقت اور سچ سمجھنے لگے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر عدالت ان کے الزامات کو نہیں مانتی تو وہ حقیقت اور سچ کو ٹھکراتی ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی سٹیٹ آف مائینڈ ہے جہاں قوانین اور ثبوتوں کی بجائے تصورات حاوی ہوجاتے ہیں۔یہاں اگرآپ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کی نااہلی کو ایک ہی وزن دیتے ہیں تو میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنا بہت بڑا بریک تھرو ہو گا، ایسا فیصلہ پورے سسٹم کے سامنے ایک گڑھا کھود دے گا اور سیاسی جماعتوں کو اس گڑھے کو اپنی حکمت اور تدبر کے ساتھ طے کرنا ہو گا اور پھر یہاں ایک نئی سیاسی تاریخ لکھی جائے گی۔ مسلم لیگ نون کے دوست اس تحریر کو پڑھتے ہوئے یہ شعر بھی گنگنا سکتے ہیں کہ ’مگس کو باغ میں جانے نہ دیجوکہ ناحق خون پروانے کا ہوگا‘ اوروہ اسے دور کی کوڑی سمجھ سکتے ہیں مگر فیصلے کے اس امکان کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہم نے یہاں ایسی ایسی محیر العقول باتیں ہوتی دیکھی ہیں کہ اب ہمیں بہت کچھ ممکن لگتا ہے۔ موسم کی سردی میں سیاست کی گرمی بڑھتی چلی جا رہی ہے نجانے آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت کہاں تک جا پہنچے۔ منیر نیازی مرحوم کے شعر کے مصداق ہماری سیاست نے بہت سارے دریا عبور کئے ہیں مگر ہر دریا عبور کرنے پرایک نئے دریا کا سامنا ہوتا ہے۔ سامنے لاہوری ناشتہ تھا، اندرون شہر کی نہاری تھی، حلوہ پوڑی تھی، قیمے والے پوڑے تھے اورہم سب دھرنوں کے اس دریا کی بھی بات کر رہے تھے جس میں چھپے ہوئے خونخوار مگرمچھ بے چاری منحنی سی جمہوریت کی ٹانگیں دبوچنے کو تیار بیٹھے تھے مگرسیانوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہر کسی کو اس کے مقدر کا ہی ملتا ہے اور یہ کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔