امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 4
لاہور میں سفر کرتے ہوئے مجھے ٹریفک جام کا بھی خیال رکھنا ہوتا تھا ۔ ان چند سالوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی کشیدگی آئی تھی۔ اس لئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں ، خاص طور پر ایسے امریکوں کو کس قدر مشکل صورت حال کا سامنا تھا جن کا تعلق سفارت خانے سے تھایا وہ سفارت خانے کے لئے کام کرتے تھے ۔ یہاں ایسے واقعات بھی پیش آ چکے تھے کہ سفارتی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو چیک پوائنٹ پر روک کر بدسلوکی کی گئی ۔ ایسی صورت میں جب پولیس اہلکار ہمیں روکتے تو وہ فوراًہمیں گاڑی سے باہر آنے کے لئے دباؤ ڈالتے لیکن ہم ہر بار ان کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیتے تھے ۔ عراق میں ہونے والے کئی واقعات نے ہمیں باور کرا دیا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی وردی میں دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں اس لئے ہم کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لیتے تھے۔ایسی صورت میں پولیس ہماری گاڑی کو وہیں سڑک کنارے ٹھہرا لیتی اور ہم گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ریجنل سکیورٹی آفیسر کے انتظار میں اس گاڑی میں بند رہ کر گزارتے تھے ۔
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریجنل سکیورٹی آفیسر سینئر قانون دان بھی ہوتا ہے جو ہر امریکی سفارت خانے میں تعینات ہوتا ہے ۔ وہ آ کر ہمیں وہاں سے بحفاظت لیے جاتا تھا۔ پاکستانی پولیس نے تو ایک ایسی بزرگ خاتون کو بھی گرفتار کر لیا تھا جو کسی کی دادی اماں جیسی تھی ۔ اس کو ایک جاسوس کے طور پر پیش کیا گیا ۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس سے جاسوسی کے آلات اور ایک کلاشنکوف برآمد ہوئی ہے ۔ جاسوسی کے آلات بعد میں ایک کیمرے میں تبدیل ہو گئے اور کلاشنکوف والی بات تو مکمل جھوٹ تھی ۔ بہرحال پولیس نے برآمدگی ڈال کر مقدمہ درج کر لیا لیکن جب پولیس کسی قسم کے شواہد پیش نہ کر پائی تو لاہور ہائی کورٹ نے یہ مقدمہ خارج کر دیا ا اور اس خاتون کو رہا کر دیا گیا ۔
بہرحال میں جب شہر میں نکلتا تو ٹریفک کے راستوں پر خاص توجہ دیتا تھا ، میں خاص طور پر یہ بات نوٹ کرتا تھا کہ کسی جگہ پھنسنے کی صورت میں کس کس راستے سے باہر نکل سکتا ہوں ۔ اس روز جب میں رضا کارانہ طور پر سفید سڈان استعمال کر رہا تھا تب ٹریفک معمول کے مطابق تھی ۔ میں جیل روڈ پر تھا جہاں تین لائن ایک سمت میں جاتی تھیں اور درمیان میں گھاس کا فٹ پاتھ تھا ۔ یہ سڑک اسی طرح فیروزپور روڈ سے جا ملتی تھی ۔ پاکستان میں بڑے چوراھے کو چوک کہتے ہیں ۔ میرے سامنے مزنگ چوک تھا جو بس سٹاپ ، مختلف بنک اور ریسٹورنٹس کی وجہ سے کافی مشہور چوک ہے ۔ٹریفک کی وجہ سے اس چوک پر آتے ہی میری رفتار کم ہونا شروع ہو گئی ، یہاں تک کہ مجھے مکمل طور پر رکنا پڑا ۔ مجھے ایک ٹریفک اہلکار نظر آیا جو اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا۔وہاں نیلی وردی میں ملبوس یہ اہلکار جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔ پاکستان میں ٹریفک اہلکار کے پاس پستول نہیں ہوتی ۔ ان کا کام ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لئے لوگوں کی راہنمائی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ان کا چالان کرنا ہے۔ کسی قسم کی ہنگامی صورت حال میں یہ مقابلے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ۔
جب میں چوک پر پہنچا تو تین رویہ سڑک کے درمیان میں تھا ۔ مجھے سے آگے لگ بھگ دس کاریں تھیں ۔ میرے دائیں بائیں دونوں جانب کی لائنیں گاڑیوں سے بھر گئی تھیں اور ان کاروں کے درمیان کی جگہ موٹرسائیکلوں ، سائیکلوں اور رکشوں سے بھری ہوئی تھی ۔ یہاں تین پہیوں پر مشتمل بہت سے موٹر سائیکل رکشے’’چنگ چی ‘‘ بھی تھے ۔ یہاں اس قدر موٹر سائیکلیں تھیں کہ مجھے لگ رہا تھا میری کار موٹر سائیکلوں کی ریس کے میدان میں ہے۔ ان کے درمیان ایک ایسا عجیب پاکستانی بھی تھا جس نے ایک موٹر سائیکل پر سات افراد کو بٹھایا ہوا تھا ۔یہاں بھی میں مسلسل اپنے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا ۔
بظاہر سب ٹھیک تھا اور میں صورت حال سے مکمل طور پر مطمئن تھا ۔ مجھے یہاں رکے دو منٹ ہوئے ہوں گے جب سیاہ رنگ کی ایک موٹر سائیکل میرے سامنے آ کر رکی ۔ اس پر دو نوجوان سوار تھے ۔ موٹر سائیکل کے ڈرائیور نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ۔ اس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نام فیضان حیدر تھا ۔ اس کے پیچھے سوار دوسرے نوجوان کا نام محمد فہیم تھا جو ڈرائیور کے عین پیچھے بیٹھا ہوا تھا لیکن اس کے جسم کا رخ میری جانب تھا ۔ مجھے اس کے ہاتھ میں واضح طور پر پستول نظر آ رہا تھا ۔(جاری ہے)
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں