کتاب کی موت، حکومت کی خاموشی

ان دنوں پورے پاکستان کے کتاب دوست اپنے ایک محسن کی موت پر نہایت غم زدہ ہیں۔میں بات کر رہا ہوں بک ہوم کے مالک رانا عبدالرحمن کی۔وہ چند روز قبل صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے۔ اگلی صبح تک گھر واپس نہیں آئے تو ان کے بیٹے نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی گمشدگی کی اطلاع عام کر دی۔پولیس کو بھی ان کی گم شدگی کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ اسی رات رانا عبدالرحمن کی لاش فیصل آباد کے نواح میں واقع ایک گاوں سے گزرنے والی نہر سے مل گئی۔پہلی بات تو یہ کہ یہ ہر گز اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ان کی لاش اسی گاوں کی نہر سے ملی جو ان کا آبائی گاوں ہے۔یقیننا" یہاں ان کے رشتے دار اور پرانے دوست احباب رہتے ہوں گے۔ممکن ہے کہ وہ ان میں سے کسی سے اچانک ملنے آئے ہوں اور کسی دیرینہ حل طلب مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہوں۔جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ رانا عبدالرحمن نے خود کشی کی ہے، وہ صد فی صد غلط ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ رانا صاحب زندگی سے بھرپور آدمی تھے۔ان کی ساری زندگی جدوجہد، کوشش اور کاوش سے عبارت ہے۔انھوں نے ایک بڑے پبلشر کی ملازمت ترک کر کے اپنا اشاعتی ادارہ بہت محنت سے کھڑا کیا تھا۔ایک ایک تنکا جمع کیا تو یہ آشیانہ وجود میں آیا جسے انھوں نے بک ہوم کا نام دیا تھا۔شہر کے سارے ادبی پنچھی وقت، موسم اور مصروفیات کی پروا کیے بغیر یہاں بسیرا کیا کرتے تھے۔یوں کہیے کہ جو پرندے آنکھ رکھتے تھے وہ سب کے سب رانا صاحب کی محبت کے اسیر تھے۔جس شخص کو اتنے اچھے احباب میسر ہوں وہ بھلا خود کشی کا کس طرح سوچ سکتا ہے؟ دوسری بات یہ کہ اگر انھیں خودکشی کرنا ہی تھی تو فیصل آباد جانے کی کیا ضرورت تھی؟
پہلے رانا صاحب کی گم شدگی اور پھر ان کی موت کی خبر پر ساری ادبی برادری کا جتنا اور جیسا رد عمل سامنے آیا، اتنا اور ایسا ردعمل میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔سبب اس کا یہ تھا کہ جب کوئی شخص رانا صاحب کے ادارے میں کوئی کتاب خریدنے جاتا تو وہ اسے اپنے گاہک سے زیادہ اپنا دوست سمجھتے تھے۔کوئی ان جان اور نیا آدمی ان کے شوروم میں جاتا گاہک بن کر اور باہر نکلتا تو وہ رانا صاحب کے حلقہء_ احباب میں شامل ہو چکا ہوتا تھا۔کتابوں کے خریداروں سے ان کا رویہ عام دکان داروں کا سا نہیں ہوتا تھا۔وہ انھیں بٹھاتے۔چائے پلاتے۔ کھانا کھلاتے۔زیادہ سے زیادہ رعایت دیتے۔ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ ایک آدھ کتاب مفت بھی دے دیا کرتے تھے۔کتاب میلا کہیں بھی ہوتا۔اس میں ضرور شریک ہوتے اور کتاب خریدنے والوں کو سب سے زیادہ رعایت دیتے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ رانا صاحب فقط کتابوں کے تاجر نہیں تھے بلکہ وہ روشن خیالی کے علم بردار تھے۔ادب برائے زندگی اور انقلاب کے داعی تھے۔وہ بیش تر ایسی کتابیں چھاپتے تھے جن کو پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھنے لگتے ہیں۔آج کل ہمارے ہاں کچھ ابن الوقت قسم کے پبلشر آگئے ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ملک رہنے والے دو نمبر ادیبوں شاعروں کی نہایت غیرمعیاری کتابیں چھاپ کر کروڑ پتی ہو چکے ہیں۔انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کتاب میں کیا ہے؟ انھیں غرض ہے تو صرف روپوں اور ڈالروں سے۔یہ لوگ پہلے خود ہی غیرمعیاری کتابیں چھاپتے ہیں پھر گلہ بھی کرتے ہیں کہ کتاب فروخت نہیں ہوتی۔رانا صاحب پیسے لے کر کبھی کوئی غیرمعیاری کتاب نہیں چھاپتے تھے۔مسودہ انھیں یا ان کی مشاورتی کمیٹی کو پسند آجاتا تو وہ کتاب مفت ہی چھاپ دیا کرتے تھے۔استغنا اور صبر ان کی ذات کا خاصا تھا۔کتاب چھاپنے کے بعد وہ اس کی مناسب شہرت کا بندوبست کرتے۔یوں اس کتاب کے شائقین خود بخود ان کے شوروم کی طرف آنے لگتے۔یہاں تک لکھ چکا تو میرے فون کی گھنٹی بجی۔کال اوکے کی تو دوسری طرف اردو کی نام ور شاعرہ نوشی گیلانی تھیں جو ان دنوں آسٹریلیا کے شہر پرزبن میں رہتی ہیں۔وہ رانا عبدالرحمن کی تعزیت کرنا چاہتی تھیں۔انھیں ان کی موت کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔میں نے اوپر لکھا تھا کہ جتنا اور جیسا ردعمل رانا صاحب کی موت پر ادبی برادری کی طرف سے آیا ہے اتنا اور ایسا ردعمل میں نے کم ہی دیکھا ہے۔ہزاروں میل دور بیٹھی ایک نوشی گیلانی ہی نہیں دنیا بھر کے بے شمار ملکوں میں رہنے والے اردو پڑھنے اور لکھنے والے سیکڑوں لوگ رانا صاحب کے لیے غم زدہ ہیں۔
رانا صاحب کی موت پر دنیا بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔لیکن ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی۔انھیں شاید کتابیں لکھنے،چھاپنے،خریدنے، بیچنے اور پڑھنے والے لوگ شاید دیوانے یا پاگل لگتے ہیں اسی لیے اب تک وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے کوئی ٹھوس ردعمل سامنے آیا ہے نہ پنجاب کی وزیراعلی' مریم نواز کی طرف سے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ مریم نواز کے ساتھ ہر وقت موجود رہنے والے سابق کامریڈ پرویز رشید نے انھیں بک ہوم کی گم شدگی اور موت کی خبر نہ دی ہو۔اسلام آباد کے بڑے سرکاری ادبی ادارے اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاونڈیشن بھی منقار زیر پر ہیں۔انھیں تو کم از کم اپنی حکومت کی توجہ اس واقعے کی طرف مبذول کرانا چاہیے تھی۔رانا عبدالرحمن کی موت کن حالات میں ہوئی؟انھیں کسی نے دانستہ قتل کیا یا ان کی موت حادثاتی طور پر واقع ہوئی؟سب کچھ سامنے آنا چاہیے۔
مجھے تو یوں لگتا ہے کہ رانا عبدالرحمن کی موت سے کتاب کی موت کا سفر تیز تر ہو گیا ہے۔رانا صاحب کی موت کتاب کی موت ہے۔