پائپ لائن منصوبہ: خود مختاری کا امتحان

پائپ لائن منصوبہ: خود مختاری کا امتحان
پائپ لائن منصوبہ: خود مختاری کا امتحان

  

گزشتہ سال ہماری قومی قباامریکہ مخالف جذبات کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی، جبکہ قومی سلامتی کے تحفظ کے نعروں سے وطن ِ عزیز کے درودیوار گونج رہے تھے ۔ لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد یکے بعد دیگر پیش آنے والے دو واقعات.... ایبٹ آباد میں بن لادن کے ٹھکانے پر امریکی کمانڈوز کی کارروائی اور سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے فوجیوںکی شہادت.... کے بعد گفتار کے غازی، حصہ بقدر جثہ، حب الوطنی کی شمشیر برہنہ ہاتھ میںلئے ہر ٹاک شو کو پانی پت بنائے ہوئے تھے، جبکہ ہراول دستے کے طور پر ہمارے دفاعی اداروںکی من پسند تنظیم ”دفاع ِ پاکستان کونسل“ کے شعلہ بیان مقررین فضا کو گرما رہے تھے۔ ایسالگتا تھا کہ بیچاری تنہا (واحد) رہ جانے والی سپر پاور اب کھیت رہے گی۔

حب الوطنی کے جذ بات سرآنکھوں پر، لیکن جائے حیرت ہے کہ اب جب قومی مفاد کے لئے اقامت کا وقت آیا تو بیشتر مجاہدین سجود میں گم ہیں۔ امریکہ پاک ایران گیس پائپ لائن، جو ہمارے لئے بے حد اہمیت کی حامل ہے، کے حوالے سے ہم پر دباﺅ ڈال رہا ہے، لیکن آج حب الوطنی کے میدان ِ کارزار میں بلند ہونے والے سب ترانے خاموش ہیں۔ آج یہ سکوت ِ مرگ کیوں طاری ہے ؟امریکہ کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرنے والے دائیں بازو کے خطیبان ِ عظام نے آج چپ کا روزہ کیوں رکھ لیا ہے؟ دفاع پاکستان کونسل والے اور حب الوطنی کی تبلیغ میں رات دن ایک کرنے والے بریگیڈ کہیں دکھائی کیوں نہیں دیتے ہیں؟ سب کو کون ساسانپ سونگھ گیا ہے؟ کس ساحر نے ان کی لب بندی کر دی ہے؟کیا وہ امریکہ کے ڈر سے خاموش ہیں؟ہر گزنہیں، یہ جری جوان” باطل“ سے دبنے والے ہر گزنہیں، وہ فاٹا اور افغانستان میں طالبان کی عظمت کے گن گاتے ہوئے اس معروضے کی تصدیق کرتے رہتے ہیں، اس لئے اگرانہیں امریکی ڈر نہیں ہے تو پھریہ آگے بڑھ کر ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اسے امریکی دباﺅ براشت کرنے کی ہمت عطا کیوں نہیںکرتے؟کیااس سکوت کی وجہ یہ تو نہیں کہ گیس ایران سے درآمد کی جانی ہے اور ایران ایک شیعہ ملک ہے ؟اگر یہ معاملہ واقعی ایسا ہی ہے، جو مجھے شک ہے کہ ایسا ہی ہے، تو پھر آئیے اے اہل وطن اس بدقسمتی پر ”مل کے کریں آہ و زاریاں“ .... ٹھیک ہے کہ ہم مذہب کے نام پر خونریزی کے ماہر ہو چکے ہیں اور ہم نے فرقہ پرستی کے نام پر بہت بھیانک افعی پالے ہوئے ہیں، لیکن آج معاملات اس قدر زہر آلود ہو چکے ہیں کہ قومی اہمیت کے معاملات کو بھی ہم مسلک کے متعصبانہ ترازو میں ہی تولنے لگے ہیں۔

اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے دو دوست ممالک .... امریکہ اورسعودی عرب.... ایران کے ساتھ مسائل رکھتے ہیں.... امریکہ سیاسی، جبکہ سعودی عرب نظریاتی لحاظ سے ، لیکن یہ مسائل ہمارے لئے درد ِ سر کیوں بن گئے ؟ہمارے لئے سعودی عرب کی دوستی بھی اہم ہے اور امریکہ کی بھی، لیکن قوموں کی دوستی کو مسلکی بنیادوں پر استوار کرنا کہاں تک روا ہے؟ پھر ایران بھی ہمارا دوست ملک ہے اور یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے کہ ہم ایران سے کیا تجارت کرتے ہیں؟.... بالکل جس طرح یورپ کو روس سے گیس لینے کی ضرورت ہے، ہمیں ایران سے گیس لینے کی ضرورت ہے۔ کیا توانائی کا بحران ہمارا قومی مسئلہ نہیںہے؟ اگر ہے تو پھر اس کے حل کے لئے قومی کوشش درکار ہے۔ یہ گیس پائپ لائن اس ضمن میں ایک اہم قدم ہے، چنانچہ سیاسی اورمذہبی سطحوںسے بالا تر ہو کر ہمیں اس کے لئے حکومت کی حمایت کرنی ہے تاکہ وہ ہر قسم کا دباﺅ برداشت کر سکے۔

امریکہ کی ایران پر پابندیاں ایٹمی تجربات کی وجہ سے ہیں اور اس کے اپنے سیاسی مسائل ہیں، جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایران ایٹمی طاقت حاصل کرے یا نہ کرے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ اگر امریکہ کسی اپنی خودساختہ منطق کے مطابق پاکستان کو آنکھیں دکھائے یا دھمکی دے تو حکومت اور عوام کو ایک صف میں کھڑے ہو کراس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ضروری نہیںکہ ہم خطیبانہ انداز اپنائیں، بلکہ اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے ہو کرامریکی دباﺅ کا مقابلہ کریں اور دلیل اور منطق سے بات کریں۔ اگر ہمارے دوست ہمارا موقف سمجھنے کی زحمت نہ کریں تو پھر دبے لفظوں میں اُن سے معذرت کرلیں ۔

یہ بھی درست ہے کہ ہم امریکی پابندیوں کے متحمل نہیںہو سکتے، لیکن یہ بھی غلط نہیںہے کہ ہمیں بطور قوم کسی کی دھمیکوں سے مرغوب ہونے کی پالیسی بدلنا ہوگی۔ کیا یہ ضروری ہے کہ امریکہ کی ہر بات دانشمندی کے مطابق ہے؟تاریخی شواہد، جن سے ویت نام سے لے کر عراق ، افغانستان اور اسرائیل کی بلاچون وچراں حمایت کے ابواب رقم ہیں، امریکی دانائی کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ نے ہمارے ایٹمی پروگرام کی بھی پوری شد ومد سے مخالفت کی تھی اور پاکستان کو صرف پابندیوں کی دھمکی ہی نہیں، پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور انواع واقسام کی پابندیوں کی زد میں آنے میں دنیا میںہمارا حریف کوئی نہیںہے، تاہم ہم نے ایٹمی پروگرام پر ثابت قدمی دکھائی، کیونکہ تمام ملک میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا تھاکہ قومی سلامتی کے لئے ایٹمی ڈیٹرنس کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہمیں قومی محاذوں پر بہت سی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا،لیکن اس محاذ پرہم نے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کر دیا۔

ایٹمی طاقت کے حصول کے بعد گیس پائپ لائن ہمارے لئے ایک اور سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، امریکہ یا سعودی عرب اس پر چاہے جتنے بھی اعتراضات اٹھائیںیا اس کی مخالفت کریں، ہمیں اسے حاصل کرنا ہے۔ چونکہ توانائی کا بحران ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے، اس لئے ہمیں نہ صرف ایران، بلکہ قطر ، یا جہاںسے بھی دستیاب ہو، گیس کا حصول ممکن بنانا ہے۔ جہاں تک قطر کا تعلق ہے، سعودی دوست الجزیرہ کو بہت زیادہ پسند نہیںکرتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی بھی، جن کی جمہوریت کے لئے ترجیحات کا پیمانہ ان کے اپنے مفاد کے خطوط سے وضع پاتا ہے، اس کے لئے دوستانہ جذبات نہیں رکھتے ہیں، لیکن قطرکے امیر اپنے نظریات پر قائم رہنے والے انسان ہیں، چنانچہ سعودی عرب کوبھی ان کے ساتھ نباہ کرنا پڑتا ہے اور امریکہ کو بھی۔

اگرچہ افغان جنگ کے آغاز میں امریکی فضائیہ نے کابل میں الجزیرہ ٹی وی چینل کو نشانہ بنایا تھا۔ اس دوران ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ قطر میں بہت بڑی تعداد میں امریکی فوج موجود ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خارجہ پالیسی کوئی دوٹوک معاملہ نہیں،بلکہ لچک دار رویوں کی مظہرہوتی ہے، چنانچہ آج ہماری خارجہ پالیسی کا بھی امتحان ہے ایران سے گیس، چین سے دوستی، سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ تعلقات، بھارت کے ساتھ معتدل رویے، اسی دوران امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلق۔خارجہ پالیسی کسی دوٹوک فارمولے کی بنیاد پر نہیںہوتی ، سوائے اس کے ہمیں اپنے قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے اور تمام ممالک کے ساتھ مختلف جہتوں میں تعلقات قائم رکھنے ہیں۔ کیا کوئی پاکستانی حکمران جنرل ضیا الحق، جو بڑی حد تک پاکستان میں فرقہ ورانہ جذبات کو سیاست کے میدان میںلانے کے ذمہ دار تھے، سے زیادہ سنی عقیدے کا حامل تھا؟اگرچہ ضیا ءالحق کو سعودی عرب کی سیاسی اور مالی حمایت حاصل تھی، پھر بھی اُن کے ایران سے گہرے تعلقات تھے۔ اُن کے جنازے میں بہت سے سربراہان ِ مملکت نہیںآئے تھے، لیکن ایرانی صدر ضرور موجود تھے۔

اس میںکوئی شک نہیںہے کہ گیس پائپ لائن منصوبے پر سب سے بڑا اور بجا اعتراض یہ ہے کہ اس کی پیش رفت میں بہت دیر کر دی گئی ہے اور اسے اُس وقت بنایا گیا ہے، جب یہ حکومت چند ساعتوںکی مہمان ہے۔ اس کے بہت سے جواز پیش کئے جا سکتے ہیں ، مگر یہاں اُن کی ضرورت نہیںہے۔ ہمیں اپنی تاریخ میں بہت سی چیزیں بروقت کر نی چاہیے تھیں، مگر ہم نے تاخیر کر دی۔ دراصل ہم تاریخی طور پر ایسی قوم ہیں جو اُس وقت تک آمادہ ¿ عمل نہیںہوتی، جب تک خطرے کی سرخ لائٹ نہ جل اٹھے۔ ہم انتظار کرتے رہتے ہیںکہ کب پانی سر سے گزرے اور ہم کشتی بنانے کا قصد کریں، چنانچہ یہی کچھ ہمارے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ باقی معاملات کو چھوڑیں، سڑکوں کی تعمیر میںتو کوئی عالمی طاقت مانع نہیںہوتی، پھر بھی اگر اسلام آباد، جو حکومتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، سے پشاور کشمیر ہائی وے کی توسیع گزشتہ تیس برسوںسے جاری ہے، جبکہ اسلام آباد سے روات کی سڑک کی تعمیرمیں (اگر میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے)بیس سال لگ گئے ہیںتو ایک ملک سے دوسرے ملک تک گیس پائپ لائن بچھانا تویقینا پیچیدہ منصوبہ ہوتا ہے۔

ہمارے امریکی دوستوں کی بابت توقع ہے کہ وہ ایران سے گیس لینے کے معاملے پر آپے سے باہر ہوجائیںگے۔ وہ ہمیں بہت سے لالی پاپ دینے کی کوشش بھی کریںگے۔ ہمیں غیر جذباتی ہوئے بغیر ان کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی دوران ہمارے دفترِ خارجہ کے افسران کو چاہیے کہ وہ امریکی سفیر مسٹر اولسن (Olson) کے ساتھ اعتماد سے بات کریں۔ اس سلسلے میں اگر مزید بات چیت کی ضرورت ہو تو امریکی دفتر ِ خارجہ سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اُ ن کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ ایک سمجھ دار خاتون ہیں۔ ایک دوسرا اعتراض، جو پہلے اعتراض سے بھی بڑا ہے، وہ یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری، جن پر بہت سے الزامات ہیں، کا نام اس منصوبے میں شامل ہے۔ اس سے بہت سے رجائیت پسند لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی، تاہم معاملہ یہ ہے کہ اُن کی صدارتی مدت اس سال کے اختتام تک چلے گی اور اگر انتخابی نتائج نے موجودہ سیٹ اَپ کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ برقرا ر رکھا تو اُ ن کی مدت ِ صدارت ابھی دیر تک چلے گی۔ یہ صورت ِ حال امریکی پابندیوںسے بھی زیادہ خراب ہو گی۔اگر ہماری قسمت مزید خراب نہ ہوئی تو وہ خاموشی سے گھر چلے جائیںگے۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں، ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹم بم کا منصوبہ بنایا، مگر کریڈٹ کسی اور نے لیا۔ یہاںبھی گیس پائپ لائن کا منصوبہ آصف علی زرداری بنا رہے ہیں اور؟

بہرحا ل یہ ہماری قومی سلامتی کی آزمائش ہے۔ جذباتی نعرے، جو ہم نے گزشتہ سال سنے تھے، وہ کھوکھلے غبارے تھے، لیکن اصل امتحان یہ ہے ۔کیا ہمارے دفاع پاکستان کونسل کے دوست اپنے حب الوطنی کے میناروںسے ایران سے گیس درآمد کرتے ہوئے امریکی دباﺅ کو مسترد کرنے کی حمایت کریںگے ؟ قسمت ہمیں اُس مقام پر لے آئی ہے، جب ہمیں فرقہ واریت اور قومی مفاد میں سے کسی ایک راہ کا انتخاب کرنا ہے۔

مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔

نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -