مرض بڑھتا گیا

مرض بڑھتا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارا حال تو اس مریض جیسا ہو چکا ہے، جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا ہم نے تو آمریت کے مرض سے جان چھڑوانے کے لئے جمہوریت کے نعرے لگانے والوں کو ووٹ دیے تاکہ اس بیماری سے خلاصی ہو جو ہماری بنیادوں کو کمزور کررہی ہے ایسی کرپشن ،چور بازاری ،لوٹ مار اور دنگا فساد والی سیاست سے نکل کر ہم بھی خوشحالی کی طرف قدم بڑھا سکیں، مگر جیسے جیسے ہم نے آمریت کے مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے قربانیاں دیں، ماریں کھائیں جیلوں میں پابند سلاسل ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے، مگر ہر آنے والے جمہوری نما آمر نے ہمیں پہلے سے زیادہ ٹیکے لگا ئے ہماری رگوں میں رہا سہا خون بھی کھینچنے کی کوشش کی ہماری کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھا اُٹھا کر ہمیں ایک ایسے لاعلاج مرض میں مبتلا کر کے بستر مرگ پر اوندھے مُنہ لٹا دیا کہ اب جسکا علاج دنوں ،مہینوں اور برسوں میں ممکن نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے پوری ایک صدی درکار ہو گی، کیونکہ ان لوٹنے والوں نے ہمارے ضمیر کو بھی لوٹ لیا ہے اور ہم انسان ہوتے ہوئے بھی انسانوں جیسی زندگی نہیں گزار رہے نہ کہیں نظم وضبط ہے اور نہ ہی کہیں شعور کی پختگی نظر آتی ہے اور نہ ہی ہم میں صبراور برداشت کا مادہ پایا جاتا ہے ہر طرف اوپر سے لے کر نیچے تک لوٹ مار کا سماں ہے، جس کے ہاتھ میں جو آ رہا ہے و ہی اسے مال غنیمت سمجھ کر فرار ہورہا ہے۔

ہمارے سب سے کم درجے کے کاروباری حضرات سڑکوں پر پھل فروٹ بیچنے والے رہڑی والے حضرات ہیں،جو صبح سے شام تک اچھی چیزیں دکھا کر خراب فروخت کردیتے ہیں اور ان سے بھتہ وصول کرنے والے ہمارے بلدیاتی ملازم ہر ماہ ان رہڑی والوں اور غیر قانونی تھڑے لگانے والوں سے بھتہ وصول کرلیتے ہیں اس کے بعد ان بھتہ خوروں سے ان کے اعلیٰ افسران ،کچھ بدمعاش قسم کے سابق عوامی نمائندے اور رہی سہی کسر کچھ صحافی حضرات بھی پوری کرکے اپنا اپنا حصہ وصول کرلیتے ہیں،رہڑھی والے سے شروع ہونے والاکرپشن اور چور بازاری کا سلسلہ ا وپر تک پہنچ جاتاہے اور جن کو ہم اپنے ووٹ دیکر اپنی تقدیر بدلنے کے لئے اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں وہ اپنے اوپر بکنے والے گھوڑوں کی چھاپ لگوا کر واپس آجاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم میں سے ہر فرد بکنے کے لئے تیار بیٹھا ہوا ہے یہ اب خریدار کی مرضی ہے کہ وہ اپنا دست شفقت رکھ کر کسے اپنا ساتھی بنالیتا ہے اور جو بکنے کی کوشش تو کرتا ہے اور خریدار نہیں ملتاتو وہ پھر ڈنڈا سوٹا لے کر اپنا حصہ لینے کے لئے ان پر چڑھائی شروع کردیتا ہے، پھر جس کے باس جتنی طاقت ہوتی ہے وہ اپنا حصہ اتنا ہی زیادہ وصول کرلیتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے، جہاں اس جمہوری ملک کے جمہوری وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کا گھر ہے اور انہی کے چھوٹے بھائی پنجاب کے اس دارالحکومت لاہور میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلاتے ہیں انہی کے احکامات اور افسران کی سفارش پر تعینات ہونے والے اکثر پولیس کے ایس ایچ اوز اپنے اپنے علاقوں میں لوٹ مار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے یہ حال صرف لاہور ہی کا نہیں ہے، بلکہ پورے پاکستان میں جہاں آپ کا دل کرے چلے جائیں وہاں پر آپ کو جواری ،نوسر باز ،نشہ باز ،چرسی ،شرابی اور فراڈیوں کی ایک لمبی لائن مل جائے گی۔


آپ صرف ٹیلی فون کریں شراب ،چرس اور افیون آپ کی دہلیز پر پہنچا دی جاتی ہے آپ صرف ایک ٹیلی فون پر کرکٹ میچ پر جوا بُک کروا سکتے ہیں ہر چھوٹے درجے کا کاروباری خاص کر روزانہ کما کر کھانے والے ہمارے پاکستانی بھائی راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں جوا کھیل کر اپنے بچوں کے لئے کمائی ہوئی ایک وقت کی روٹی بھی ہار جاتے ہیں کیا یہ سب کچھ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپ کرہورہا ہے بالکل نہیں، بلکہ ہمارے ہر حکمران نے ہمیں کچھ نہ کچھ برائی تحفے میں ضرور دی آج عوام ، حکمران اور بیوروکریسی کے درمیان اتنا فرق پیدا ہوچکا ہے کہ جسے ٹھیک کرنے میں ایک دو سال کا وقت نہیں لگے گا ،کیونکہ انسان کا ضمیر جب ختم ہوجائے، تو پھر اس خالی جگہ میں د وبارہ ضمیر پیدا کرنے میں بہت لمبا عرصہ لگے گا ہاں اگر کوئی جادوئی اثر رکھنے والا فرد حکمران بن جائے، جو قانون پر عمل کروا سکے چور کو چور اور قاتل کو قاتل بنا کر فوری سزا دیدے، تو پھر اس ملک میں پھیلی گندگی کو صاف کیا جاسکتا ہے، مگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ سے وفا نہ کرنے والے اب ہم سے کیا وفا کریں گے۔

مزید :

کالم -