مظلومُو! شہباز شریف آرہا ہے

مظلومُو! شہباز شریف آرہا ہے
 مظلومُو! شہباز شریف آرہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سابقہ صدی کے آخری کوارٹر کے قریباً نصف میں جلو موڑ سے شمالاً واقع معروف گاؤں بھسین میں بحق ایک کمزور اورمظلوم طبقے اوربرخلاف ایک معروف اور استحصالی طبقے کے لئے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے نہ صرف اس کمزور اور مظلوم طبقے کو انصاف دلوانے کا اعلان کردیا، بلکہ ایک دن اپنی اسلامی کمک لے کر وہاں پہنچ بھی گئے، لیکن بوجہ مداخلت سرکاری اہلکاران بیچ بچاؤ ہوگیا۔ بعدازاں امیر جماعت اسلامی نے کہیں بھی کسی کمزور طبقے کے استحصال پر اپنی اسلامک کمک لے کر پہنچنے کا تو ارادہ ملتوی کردیا، لیکن اخباروں میں اپنی اشتہاراتی مہم شروع کردی کہ ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ اورآخر کار وہ اخباری اشتہاری مہم بھی لطیفوں کے لبادے اوڑھتی اوڑھتی لمبی تان کر سو گئی۔ سابقہ صدی ہی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے عین اوائل میں ڈسٹرکٹ خانیوال کے نواحی گاؤں شانتی نگر کے بدست مسلمانان گرد و نواح جلا دیئے جانے پر خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نہ صرف بروقت وہاں پہنچے، بلکہ مابین مسلم ملاؤں اورعیسائی پادریوں کے صلح صفائی والا ماحول بھی پیدا کرنے میں کامیاب رہے اوران مسلم ملاؤں میں نہ قاضی حسین احمد، نہ ہی مولانا فضل الرحمن اور نہ ہی طاہر القادری وغیرہ شامل کار تھے، بلکہ متذکرہ بالا صاحبان کے بھی وہاں پہنچنے پر اس جلے ہوئے سیاہ شانتی نگر گاؤں کے درودیوار بہت جلد اپنا اصل رنگ روپ اختیار کرلیتے۔


کچھ مدت بعد اور ڈسٹرکٹ خانیوال کے قریب ہی مہر شاہ ریلوے سٹیشن پر کراچی ایکسپریس کے خوفناک حادثے پر بھی خادم اعلٰی پنجاب نہ صرف جلد از جلد وہاں پہنچے، بلکہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ایک بے سہارا مجروح بچی کو گلے لگا کر کچھ اس انداز سے روئے کہ ماحول پہ سکتہ طاری ہوگیا اورخادم اعلٰی کے اندر کے درد مند انسان کی انسانیت سوزی بھی عیاں ہوگئی، پھر تو ان کا معمول بن گیا کہ صوبہ پنجاب میں جہاں کہیں بھی کسی بھی قسم کا جبرواستحصال، ظلم اورگینگ ریپ وغیرہ کے وقوعہ جات کے متعلق جیسے ہی با خبر ہوتے، فی الفور وہاں پہنچ جاتے اورتحقیقاتی احکامات پر عمل درآمدگی بھی شروع کروادیتے اورپولیس مطلوب مفرور اوراشتہاری قاتلوں ،ڈکیتوں کے گرد تو انہوں نے ایسا آہنی شکنجہ کس دیا تھا کہ ماسوائے قبرستان ان کی کوئی جائے پناہ ہی نہیں رہی تھی۔ چارہ کترنے والی ٹوکہ مشین یا پھر گندم تھریشنگ مشین میں ایک یا دونوں ہاتھ بازو کٹے کئی ایک انسانوں سے میں نے بھی وجوہات دریافت کی ہیں اور مَیں نے تو نہ کہیں کے لئے کوئی مسافت طے کی اورنہ ہی کسی قسم کا کوئی خرچہ ہوا، لیکن میاں محمد شہباز شریف نے تو جیسے ہی حافظ آباد میں جورا گاؤں کے رہائشی اورغریب نوجوان کے دونوں ہاتھ چارہ مشین میں کٹ جانے یا کاٹ دیئے جانے سے باخبر ہوتے ہی نہ صرف اس کے سرہانے جا بیٹھے، بلکہ اس سرہانے تلے دس لاکھ کا چیک رکھ کر خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف ہی ثابت ہوئے ہیں، پھر ایسے ویسے وقوعہ جات تو پورے ملک میں ہی وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، لیکن کسی دوسرے تیسرے یا پھر چوتھے صوبے کے وزرائے اعلیٰ یہی اختیارات رکھتے ہوئے وہ سب کچھ کرنے سے یکسر عاری اور بے توفیق ہیں جس سے خادم اعلیٰ پنجاب کی نیندیں بھی اختصار اور ایثار پسندی کی عادی ہو چکی ہیں۔


نیندیں تو وزیر اعظم اورآرمی چیف کی بھی پوری نہیں ہوتی ہوں گی، مگر خادم اعلیٰ پنجاب کے چہرے کی Study کی جائے تو وہ ایک ایسے جفا کش اور مہم جو لگتے ہیں پنجاب جن کی کمزوری ہو اورپنجاب کے دل لاہور کو وہ بین الایشیائی شہر کی حیثیت سے دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہوں، پھر ایسے انتھک محنتی اور درد مند انسان اورعہدیدار کو بھی اگر حزب اختلاف کرپٹ کہے تو اس کی عقل کا کیا علاج ہو سکتا ہے ۔کوئی نہیں، کیونکہ جب تک وہ حزبِ اختلاف کے بینچوں پر بیٹھے رہنے پر مجبور ہیں، الزامات کی فائیلیں کھولے ہی رکھیں گے اورلاہور کو جدید ترقیاتی منصوبوں کی مناسبت سے تختِ لاہور کہہ کر پنجاب بھر کی بے جا فنڈنگ کے ڈھول بھی پیٹتے رہیں گے، حالانکہ لاہور کے دونوں بڑے پراجیکٹس تو بیرون ممالک سے لئے گئے قرضوں سے پایۂ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں اوراگر پراجیکٹس میں سریا اتفاق کا استعمال ہو رہا ہے تو بقول خادم اعلیٰ اتفاق تو بند پڑی ہے اور اگر چل بھی رہی ہوتی تو بھی کیا حرج تھا۔


میرے عمر، تعلیم اور تجربے کے مطابق جو شخص 24گھنٹے کام کرنے کا عادی ہوتے ہوئے نہ خود نیند پوری کرے، نہ کسی اور کی پوری ہونے دے اورپنجاب کی مانگ سدھارنے کو اپنے دل ودماغ کا بوجھ اورردگ بنالے تو ایسا شخص نہ تو خود کرپٹ ہوسکتا ہے اورنہ ہی کرپشن برداشت کرسکتا ہے دراصل انسانی عینک جس رنگ کے شیشوں اورعدسوں سے مُزین ہوگی، ویسا ہی دکھائی دے گا۔ لہٰذا خادم اعلیٰ کے معترضین کو چاہیے کہ اپنی عینک بدلیں تاکہ انہیں دور نزدیک صاف اور شفاف دکھائی دے، پھر یک طرفہ اور بے جا تنقید سے یک طرفہ اور بے جا تکلیف میں مبتلا بھی نہ رہیں۔ معروف آرٹسٹ عثمان پیرزادہ وہ جو کہ خادم اعلیٰ کے جی سی کلاس فیلو ہیں، ان سے میں نے ایک بار خادم اعلیٰ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا ، ہنوز خادم اعلیٰ سے نہیں مل سکا۔میرے مطابق آئندہ پولیٹیکل Temure میں پرائم منسٹر شپ کے امیدوار اور حقدار عمران خان ہیں جو یقیناًانصاف کو آس مند کی دہلیز تک لے آئیں گے اوراگر وہ نہیں تو پھر خادم اعلیٰ ہی ہیں جو کہ آج تک تواز خود چل کر آس مندوں کی دہلیز تک جاتے رہے ہیں پھر نہ صرف انصاف آس مند کی دہلیز پر ہوگا بلکہ نعرۂ ہذا بھی چہار سو گونجے گا کہ’’ مظلومو! شہباز شریف آرہا ہے‘‘۔ حال ہی میں 27 کلو میٹر لمبے اورنج لائن ریلوے پراجیکٹ کے سب سے پہلے متاثرین کے جلوس پریس کلب تک پہنچے پھر مخالفین کے بیانات اخباروں میں آئے اورآخر میں پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید صاحب احتجاج کرتے ہوئے سو ڈیڑھ سو افراد کے ہمراہ جی پی او چوک تک آئے جس کے جواب میں جلد بعد ہی خادم اعلٰی پنجاب نے انجینئرنگ یونیورسٹی کی بینک برانچ سے بذات خود اپنے ہاتھ سے متاثرین کو معاوضوں کے چیک تقسیم کئے اور باقی متاثرین کے لئے شہر بھر کے مختلف مقامات پر ون ونڈو سسٹم کے تحت بیس ارب روپے کی تقسیم کار ی شروع کردی تھی۔

مزید :

کالم -