کسی جماعت کو واضح اکثریت کیوں نہیں ملتی؟
اگلے روز مَیں ایک ٹی وی چینل پر عوامی سروے دیکھ رہا تھا۔ ٹی وی نمائندہ عوام سے ایک سوال کا جواب مانگ رہا تھا کہ آپ کے نزدیک عمران خان کے عہد ِ وزارت میں کرپشن کم ہوئی یا بڑھی ہے؟66فیصد لوگوں کی رائے تھی کہ کرپشن بڑھی ہے اور25فیصد کا خیال تھا کہ کم ہوئی ہے۔ باقیوں کا جواب ملا جلا تھا۔ البتہ مہنگائی کا رونا ہر جواب دینے والے نے رویا تھا۔ بعض نے تو بڑھتی ہوئی مہنگائی ہی کو کرپشن کا سبب قرار دیا تھا۔بعض کی رائے تھی عمران خان تو ایماندار آدمی ہے، مگر اس کی ٹیم ٹھیک کام نہیں کر رہی۔
مجھے عوام کی سادہ لوحی پر بہت تعجب ہوا کہ 72برس کی ٹھوکروں کے بعد بھی ان کے سیاسی شعور نے ترقی نہیں کی۔وہ اِس لئے کہ کسی شخص نے بھی سسٹم کی بات نہیں کی جو مسائل و مشکلات کی اصل جڑ ہے اور جسے کوئی حکمران بھی بدلنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ ہمارے عوام ابھی تک بادشاہی دور کی اپروچ سے نہیں نکلے۔ صدیوں سے عوام کے دُکھوں اور مسرتوں کا سرچشمہ بادشاہ کی ذات ہی سمجھی جاتی رہی ہے۔اگر بادشاہ نیک اور رحم دِل ہوتا تو سمجھا جاتا کہ عوام سکھی ہیں اور اگر ان کی نیت میں فتور ہو تو اس کا اثر عوام پر پڑتا ہے، ان کے حالات خراب ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے میں دور قدیم کے ایرانی شہنشاہ نوشیر واں عادل کی مثال دی جاتی ہے۔ ایک دفعہ وہ جنگل میں شکار کرتا ہوا اپنے ہمراہی وزیروں، امیروں سے دُور نکل گیا۔ایک باغ میں پہنچا،جہاں اس کی باغبان سے ملاقات ہوئی اور اس نے پیاس بجھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ باغبان نے فوراً ایک درخت سے انار اتارا اور اس کا رس نچوڑا۔ صرف ایک ہی انار سے گلاس بھر گیا تو بادشاہ نے سوچا انار تو یہاں بہت رسدار ہوتے ہیں،کیوں نہ ان پر ٹیکس بڑھا دیا جائے۔تھوڑی دیر بعد بادشاہ نے دوبارہ اپنی پیاس کا ذکرکیا تو بمشکل تین چار اناروں کے رس سے گلاس بھر سکا۔ بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا۔اس نے سوال کیا، یہ کیا ہوا ہے؟ باغبان نے جواب دیا، باغ بھی یہی ہے، انار بھی اسی باغ کے ہیں،معلوم نہیں کیا معمہ ہے۔ ممکن ہے بادشاہ وقت کی نیت میں فتور آ گیا ہو، کیونکہ اس کی نیت کے فتور ہی سے پیداوار میں بے برکتی پڑ سکتی ہے؟
ہمارے عوام نے سیاست میں عمران خان کی صورت میں نیا چہرہ دیکھا تو سمجھے شاید وہ ان کے دُکھوں کا مداوا کر دے گا۔ اس کرپٹ نظام کے محافظوں نے بھی بڑی حکمت ِ عملی سے عمران خان کے لئے راستہ ہموار کیا۔انتخابی مہم میں عمران کی تقریروں کا مرکزی مضمون کرپشن کا خاتمہ ہوتا تھا۔ اب لگتا ہے وہ محض تقریریں ہی تھیں، کیونکہ عمل کا وقت آیا تو ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود ان سے کچھ بھی نہیں بن سکا،بلکہ ہر طلوع ہونے والا دن عوام کی کمر دوہری کرتا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں کا مؤقف قدرے حقیقت پسندانہ تھا جن کا جواب یہ تھا کہ جوں جوں مہنگائی بڑھتی ہے کرپشن میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے،جس حکومت نے تبدیلی کے لئے کوئی بڑا اقدام اٹھانا تھا وہ اتحادیوں کی ناراضیوں اور دھمکیوں سے ہر لمحہ لرزہ براندام دکھائی دے رہی ہے۔جب ڈور ہاتھوں سے نکلتی معلوم ہو گی، تو حکمران جماعت کہے گی ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے،اس کے بعد الزام کا دائرہ کسی عالمی سازش تک پھیل جائے گا۔کم ہی اس طرف توجہ دی جائے گی کہ جب تک سسٹم کو بنیادوں سے ٹھیک نہیں کیا جاتا، کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
انتخابات کے نتیجے میں جب کوئی جماعت اکیلی حکومت بنا نہیں پاتی تو ہمارے عوام اسے محض اتفاق سمجھتے ہیں،حالانکہ ہماری بالا دست اور مفاد پرست قوتوں نے بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہوتا ہے، مثلاً ظفراللہ جمالی محض ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بن سکے، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی پارٹیاں بھی دوسری چھوٹی جماعتوں کی حمایت ہی سے تشکیل پا سکیں۔ دراصل محمد خان جونیجو اور نواز شریف کو کچھ بھاری مینڈیٹ ملا تو نتیجے میں اوپر والی قوتیں قدرے پریشان ہو گئیں۔لگتا ہے اس کے بعد یہ سبق سیکھ لیا گیا کہ کبھی کسی پارٹی کو اتنی اکثریت حاصل نہ کرنے دو کہ کل وہ من مرضی کے فیصلے کر سکے۔ ہمارے سیاسی نظام کی دوسری بڑی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ جماعت جسے عنانِ اقتدار سنبھالنا ہوتی ہے اسے مالی وسائل سے حصہ ہی اتنا کم ملتا ہے کہ اس سے عوام کے مفاد میں بہت کم کام ہو پاتے ہیں۔بجٹ کا بڑا حصہ کہاں چلا جاتا ہے؟ اور عوامی نمائندے اس سوال کو دلیری کے ساتھ کیوں اٹھا نہیں سکتے؟یہ نہایت اہم باتیں ہیں جن پر ہماری جماعتوں کو غور و خوض کرنا چاہئے، بلکہ اپنے کارکنوں کی اس حوالے سے ذہنی تربیت کرنا چاہئے۔ جب تک جماعتوں کے کارکنوں کی نظام کے داخلی معاملات تک نگاہ نہیں پہنچے گی،وہ اپنی قیادتوں کو بھی بڑے فیصلے کرنے کے لئے توانائی مہیا نہیں کر سکیں گے۔
ہمارے ہاں رواج یہ فروغ پا گیا ہے کہ سیاست کے کھیل میں جب نظر آنے لگتا ہے کہ اب فلاں جماعت کو اوپر سے سرپرستی مل رہی ہے تو سیاسی کھلاڑی ہزاروں ساتھیوں سمیت اس جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کرنے لگتے ہیں۔پھر اس جماعت کو اوپر والوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ عالمی قرضے دینے والی ایجنسیوں سے بھی خفیہ طور پر مفاہمت کرنا پڑتی ہے۔اس کے بعد ہی انتخابی مہم چلتی ہے اور اپنے نتائج سامنے لاتی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں،موجودہ عمران حکومت ہی کے معاملات کو اگر ہم ذرا گہری نظر سے دیکھیں تو بہت کچھ سمجھ آ جاتا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس مخلوط حکومت سے بھی بالآخر عوام کے مفاد میں کوئی بڑا قدم اٹھایا نہیں جائے گا، خود اس کے اندر کے مفاد پرست عناصر اتحادیوں کے لئے مشکل حالات پیدا کریں گے(کیونکہ وہ اندر اور باہر کی قوتوں کی گڈ بکس میں ہوتے ہیں) اور سمجھا یہ جائے گا کہ عمران چونکہ سیاست کی ایچ پیچ کا ادراک نہیں رکھتے تھے اس لئے ناکام ہو گئے۔ اس کے بعد اسی حکمران جماعت کے کرتا دھرتا دوسری کسی جماعت کا رُخ کریں گے اور عنانِ اقتدار نئے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ عوام کے لئے حالات مزید تنگ ہو جائیں گے اور وہ کسی نئے چہرے سے اپنی امیدیں وابستہ کر لیں گے۔ دوبارہ امیدیں پھر دم توڑ جائیں گی اور سیاست کا گندا چکر اسی طرح اُنہیں چکرائے رکھے گا!