وہ  قبیلہ جہاں بچے بھی خطرناک سانپوں سے زہر نکالنے کا فن جانتے ہیں

وہ  قبیلہ جہاں بچے بھی خطرناک سانپوں سے زہر نکالنے کا فن جانتے ہیں
وہ  قبیلہ جہاں بچے بھی خطرناک سانپوں سے زہر نکالنے کا فن جانتے ہیں
سورس: NeedPix

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) جنوبی ہندوستان کے ایرولا قبیلے نے سانپ پکڑنے اور ان کے زہر نکالنے کے قدیم فن کو اپنی روزی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو میں پھیلا ہوا یہ قبیلہ صدیوں سے سانپوں کو قابو میں کرنے کی مہارت رکھتا ہے اور ان کے زہر سے اینٹی وینم تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جو ہر سال ہزاروں افراد کی جان بچاتا ہے۔
عام طور پر سانپ کا سامنا ہوتے ہی لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں، لیکن ایرولا قبیلے کے لیے یہ مخلوق خوف کا سبب نہیں بلکہ ان کی ثقافت اور روزگار کا لازمی جزو ہے۔ دنیا کے تقریباً 70 فیصد سانپ غیر زہریلے ہوتے ہیں لیکن باقی 30 فیصد میں کچھ انتہائی خطرناک اقسام شامل ہیں، جن کے کاٹنے سے چند گھنٹوں میں موت واقع ہو سکتی ہے۔
ایرولا قبیلے کے افراد جن میں مرد، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، بچپن سے ہی زہریلے اور غیر زہریلے سانپوں کی شناخت، انہیں پکڑنے اور ان سے زہر نکالنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس مہارت کی وجہ سے وہ دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب سانپ پکڑنے والے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔

ایرولا قبیلے کے افراد چار انتہائی زہریلے سانپوں کے زہر نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں:

کنگ کوبرا
کریٹ
رسل وائپر
انڈین سا سکیلڈ وائپر
یہ سانپ اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ ان کے زہر کی ایک بوند بھی انسان کی جان لینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ زہر نکالنے کا عمل نہایت احتیاط سے کیا جاتا ہے، جس میں سانپ کو گردن سے پکڑ کر اس کے منہ کو کھولا جاتا ہے اور ایک مخصوص جار میں دانت گاڑنے دیا جاتا ہے۔ دباؤ پڑنے پر سانپ کے دانتوں سے زہر نکل کر برتن میں ٹپکنے لگتا ہے۔ نیوز 18 کے مطابق یہ زہر دوا ساز کمپنیوں کو فروخت کیا جاتا ہے جہاں اسے اینٹی وینم انجیکشن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہر سال تقریباً 50 ہزار افراد سانپ کے کاٹنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اینٹی وینم کی مانگ بہت زیادہ ہے۔
ایرولا قبیلے نے 1978 میں اپنی سرگرمیوں کو باضابطہ طور پر ایک کوآپریٹو سوسائٹی میں تبدیل کیا، جسے امریکی ماہر حیوانات رومیلس وٹاکر نے قائم کیا۔ اس سوسائٹی نے ایرولا قبیلے کو قانونی تحفظ فراہم کیا اور ان کے لیے پائیدار ذریعہ معاش یقینی بنایا، کیونکہ 1972 کے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت سانپوں کے شکار پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس سے قبل ایرولا قبیلے کے لوگ سانپوں کا شکار کر کے ان کی کھال فروخت کرتے تھے، خاص طور پر برطانوی دور میں سانپ کی کھال سے مہنگی اشیاء تیار کی جاتی تھیں۔ مگر جب شکار پر پابندی لگی تو قبیلے کے لیے روزگار کا بحران پیدا ہو گیا۔ وٹاکر نے ان کی مہارت کو ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہوئے انہیں سانپوں کے قاتل سے ان کے محافظ میں تبدیل کر دیا۔
آج ایرولا سنیک کیچرز انڈسٹریل کوآپریٹو سوسائٹی کے 100 سے زائد رجسٹرڈ ممبران ہیں جنہیں سالانہ  13 ہزار سانپ پکڑ کر ان سے زہر نکالنے کا حکومتی لائسنس حاصل ہے۔ زہر کے کاروبار سے قبیلے کو تقریباً 25 کروڑ روپے (تقریباً 3 ملین ڈالر) سالانہ آمدنی حاصل ہوتی ہے۔
ہندوستان میں سانپوں سے زہر نکالنے کا عمل سخت قوانین کے تحت کیا جاتا ہے۔ ایرولا قبیلے کو صرف چار مخصوص اقسام کے سانپوں سے زہر نکالنے کی اجازت ہے۔ ہر سانپ کو ایک مٹی کے برتن میں رکھا جاتا ہے، جس پر کپڑے کی تہہ ڈالی جاتی ہے، اور 21 دن تک اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس دوران اس سے چار بار زہر نکالا جاتا ہے، جس کے بعد اسے دوبارہ جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ پورا عمل اس طرح انجام دیا جاتا ہے کہ سانپوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ زہر نکالنے کے بعد انہیں ان کے قدرتی ماحول میں واپس چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رہے اور یہ کام پائیدار بنیادوں پر جاری رہ سکے۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -