طلال بگٹی کے ساتھ ایک عہد ختم ہوگیا

نواب اکبربگٹی سے دوستانہ سیاسی تعقات تھے۔ بعض دفعہ ان سے ذاتی معاملات پر بھی گفتگو ہوتی اور وہ اس کو بیان کرتے تھے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ آپ کی شادی کس عمر میں ہوئی تو انہوں نے بتلایا کہ میں 9 ویں جماعت میں تھا کہ والد صاحب نے میری شادی کروائی یہ شادی ان کے اپنے قبیلے میں ہوئی اور ان کے چار بیٹے بلوچ ماں سے ہوئے۔ سلیم بگٹی‘ طلال بگٹی‘ ریحان بگٹی اور سلال بگٹی۔ نواب بگٹی سے جب سیاسی روابط ہوئے تو نواب بگٹی اپنے سب سے چھوٹے بیٹے سلال کی طرف بہت زیادہ توجہ دیتے تھے یوں وہ اس کی تربیت کررہے تھے اور ان کے ذہن میں اپنے جانشین کا نقشہ بن رہا تھاوہ سلال بگٹی کو اپنے بعد نواب بنانا چاہتے تھے اور اس کی تربیت کررہے تھے جب اپنے کمرے سے کوئی چیز منگوانا چاہتے تو سلال سے منگواتے تھے یوں وہ اپنے والد کی چیزوں سے آگاہ تھا اور شام کوجب نواب صاحب کی محفل جمتی تو سلال کو بعض دفعہ ان میں شریک کرتے تاکہ اسے نواب کے دوستوں سے شناسائی ہو اور سلال نواب صاحب کے قریبی ساتھیوں سے آشنا ہوتے گئے۔
ایک دن وہ میرے قریب بیٹھے ہوئے تھے ان سے کہا سلال سیاست میں آنے کا ارادہ ہے تو اس نے کہاکہ نہیں پہلے میں وسائل پیدا کروں گا پھر سیاست میں آؤں گا۔ خالی جیب سیاست نہیں کرنی ہے لیکن وقت کا فیصلہ کچھ اور تھا سلال کو دشمنوں نے قتل کردیا۔ اور نواب کا خواب ادھورا رہ گیا۔ نواب صاحب اور ان کے خاندان کے لئے یہ سب سے شدید صدمہ تھا نواب صاحب ڈیرہ بگٹی سے لوٹے تو ان کی کمر جھک چکی تھی نواب اندر سے ٹوٹ چکے تھے اور اس قتل کے ساتھ ہی نواب بگٹی اندرونی اور بیرونی کشمکش میں گھرگئے یا انہیں اس جال میں پھنسادیا گیا اور وہ اس ان دیکھی کشمکش سے نکل نہ سکے سلال بگٹی کے حادثہ کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے ریحان کے بیٹے کی طرف نگاہ کی اور یوں نوابزادہ براہمداغ بگٹی ان کی نگاہوں میں جانشین کے طور پر سما گیا اور اس کی تربیت شروع کردی اور اپنے نقشہ کے مطابق اس کی طرف بڑھنے لگے لیکن نواب صاحب کا نقشہ ان کی نگاہوں کے سامنے بکھرگیا اور قبیلہ نے ان کی دستبرداری کو رد کردیا اور نواب کو ہی نواب کے طور پر رہنے دیا۔ نواب حیران ہوگیا کہ قبیلہ ان کی سیاست اور مستقبل کے نقشہ کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ نواب بگٹی یہ تمام نقشہ اشاروں اشاروں میں ترتیب دیتے رہے تھے قبیلہ کے وڈیرے اس کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے جو روایات نواب بگٹی کے قبیلے کی تھی وہ سلیم بگٹی کی موجودگی میں براہمداغ کو کسی طرح بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے اور سلیم بگٹی بھی حائل ہوگیا۔
ایک موقع پر سلیم بگٹی نے اپنے والد سے کھل کرکہا کہ اگر میں بطور جانشین اور نواب کے قبول نہیں ہوں تو پھر روایات کے حوالے سے میرا بیٹا عالی حقدار ہے۔ براہمداغ نہیں۔ اس جواب نے ایک طاقتور نواب کو لاجواب اور بے بس کردیا۔ اور نواب بگٹی نے خاموشی اختیار کرلی اور پھر وقت کی گردش نے بگٹی قبیلہ کے نواب کو گھیر لیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے اور ہم سب اس سے واقف ہیں سلیم بگٹی کی موت اس کے بعد میراحمد نواز کی موت نے ایک باب کو مکمل کردیا اور اس کے بعد تاریخی کشمکش اور تصادم سے نواب کی زندگی کا خاتمہ ہوگیایوں تاریخ نے ایک دور مکمل کرلیا۔ نواب کی زندگی میں اس کی نگاہوں کے سامنے تین بیٹے موت کی آغوش میں چلے گئے اس کے بعد نواب بھی گئے اور بگٹی قبیلہ کاایک دور تاریخ کا حصہ بن گیا۔ بگٹی ہاؤس کی وہ جگمگاتی راتیں اور وہ محفلیں ختم ہوگئیں طلال نے بگٹی ہاؤس کو سنبھالا، مگر طلال نواب کے دوستوں سے زیادہ شناسائی نہیں رکھتا تھا صرف اس نے سنا تھا کہ فلاں فلاں نواب کے قریب تھے اس سے زیادہ وہ نہیں جانتے تھے۔ نواب کی موت کے کچھ عرصہ بعد قبیلہ نے سلیم بگٹی کے بڑے بیٹے عالی کو نواب تسلیم کرلیا اور اس کے سر پر نواب کی پگڑی رکھ دی اور وڈیروں نے تمام قبائلی رسم ورواج کو مکمل کرلیا۔
قارئین محترم! یہ نواب کی جانشینی رسم ورواج کی گرفت میں تھی اس لئے یہ نوابی نہ جمیل بگٹی کو مل سکتی تھی اور نہ طلال بگٹی کو، جمیل بگٹی کی والدہ بلوچ نہ تھی اسلئے وہ اس کھیل سے باہر ہی کھڑے رہ سکے۔ جمیل بگٹی کو دیکھیں تو نواب بگٹی کا روپ نظر آتا ہے لیکن قبیلہ کے رسم ورواج نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا وہ بیان کی حد تک ہی جاسکے۔ آگے ان کے لئے تمام راستے بند نظرآئے۔ سیاسی سوچ کے حوالے سے وہ نواب بگٹی کے جانشین لگتے ہیں طلال بگٹی نے والد کی موت کے بعد بگٹی ہاؤس کا رخ کیا۔ انہوں نے کسی حد تک ان روایات کو سنبھالنے کی کوشش کی، مگر جو مقام نواب اکبر خان کا تھا وہ انہی کے پاس رہا اسے کوئی اور سنبھال نہ سکا۔
نوابزادہ طلال بگٹی سے میری صرف دو ملاقاتیں تھیں جو لیاقت بلوچ یا جناب منور حسن کے ساتھ ہوئی تھیں علیحدہ ملاقات نہیں تھی ،خواہش تھی کہ ان سے ملاقات ہو لیکن وقت حائل رہا۔ ایک بار فون پر بات ہوئی تو کہا کہ آپ ملنے آئیں اور فون کریں ایک بار دل میں آیا کہ ان سے ملاقات کرلوں لیکن یہ خواہش ادھوری رہ گئی اور وہ اس دنیا فانی سے چلے گئے۔ یوں طلال بگٹی کے ساتھ نواب بگٹی کے بیٹوں کا دور مکمل ہوگیا اب نواب کے دو بیٹے جمیل بگٹی اور ایک بیٹا جو ایرانی نژاد بلوچ ماں سے ہے وہ موجود ہے یوں نواب کے دو بیٹے ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔نوابزادہ طلال بگٹی کی شادی میں نواب کے قریبی دوست شریک تھے اور نواب بگٹی نے ایک فوکر جہاز چارٹرڈ کیا تھا اور یہ میری زندگی کا پہلا ہوائی سفر تھا نواب کی پوری فیملی سفر کررہی تھی اس دعوت میں ضیاء الدین ضیائی(مرحوم)‘ ملک انور کاسی مرحوم‘ ملک عثمان کاسی مرحوم‘ جناب سیف الرحمان مزاری مرحوم‘ ڈاکٹر غلام محمد بنگالی مرحوم‘ سندھی صحافی لغاری مرحوم‘ عزیز بھٹی مرحوم‘ غلام طاہر مرحوم ودیگر شریک تھے۔ نواب اور ان کا خاندان انٹر کانٹیٹل ہوٹل میں رہائش پذیر تھے۔ اور ہم فلیش مین ہوٹل میں جو کبھی خان قلات کی ملکیت تھی اور نکاح اسی ہوٹل میں تھا۔ *