مبارک ہو آپکا بیٹا بیٹی بن گیا ہے

مبارک ہو آپکا بیٹا بیٹی بن گیا ہے
مبارک ہو آپکا بیٹا بیٹی بن گیا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ڈاکٹر ماجد خان

خواجہ سرا یا مخنث ایک قابل توجہ اور قابل رحم جنس ہے۔ کیونکہ ان کی تخلیق میں ان کا اپنا کوئی کردار نہیں وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور غور کیا جاۓ تو اس لحاظ سے بدقسمت ہیں کہ انکی پیدائش کے بعد سے ہی ان پر گھر والوں کی محبتوں اور توجہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔آج کل خواجہ سراؤں کے حقوق پر بہت  سے لوگ محو غل ہیں ۔ ٹرانس جینڈر ایک مغربی اصطلاح ہے اور یہ ایک پوری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس تہذیب کا نام ہے LGBT یعنی لزبین  گے  بائی سیکسوئیلی اور ٹرانس جینڈر۔اور ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ یعنی خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ بل‘‘ جو کہ بظاہر تو خواجہ سراؤں کے تحفظ کا بل ہے، مگر اس کے پیچھے مبینہ طور پر لیسبین، گیز، بائے سیکسوئل ٹرانس جینڈر یعنی ایل جی بی ٹی نامی مغربی تنظیم ہے۔ ایک مکمل جنسی آوارگی اور بے راہ روی سے اس کلچر کو خواجہ سراؤں سے کوئی ہمدردی نہیں وہ انہیں بھی ایک سیکس گروپ کے طور پر لیتے ہیں۔
 2018ء میں قومی اسمبلی میں پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ پیش ہوا۔ اس ایکٹ کے تحت  جہاں  خواجہ سراؤں کو ڈرائیونگ لائسنس بنانے اور ہراسانی سے تحفظ کی سہولت ملی اور ان سے بھیک منگوانے والے پر پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا بھی متعین کی گئی وہیں اس ایکٹ میں  رکھی گئی کلاز کی وجہ سے  اس قانون کے اصل مقاصد پس منظر میں چلے گئے اور خواجہ سراؤں کے بجائے یہ قانون ہم جنس پرستوں کے تحفظ کا قانون بن گیا۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے
"
Surat No 7 : سورة الأعراف - Ayat No 80 

ترجمہ:'' اور ہم نے لوط  ( علیہ السلام )  کو بھیجا  جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا" ۔
یہاں پر اسی فحش کام کا ذکر ہو رہا ہے جو اس وقت پوری دنیا سمیت ملک پاکستان جسکو اسلام کے نام پر لیا گیا تھا وہاں پر بھی عام ہو چکا ہے اور باقاعدہ اسکے حوالے سے ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کو پاس بھی کیا جا چکا ہے تاکہ ایک لڑکا ایک لڑکے کے ساتھ اور ایک لڑکی ایک لڑکی کے ساتھ با آسانی اپنی سیکشوئل زندگی گزار سکے ۔۔
آپ شاید پریشان ہو رہے ہونگے کہ یہ میں کیسی بات کر رہا ہو، کیونکہ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ اس ایکٹ میں کسی بھی فرد کو اپنی جنس تبدیل کروانے کا اختیار دے دیا گیا یعنی اسکا خواجہ سرا ہونا ضروری نہیں بلکہ یعنی کوئی بھی مرد نادرا کو درخواست دے کر اپنی جنس عورت کرا سکتا ہے اور کوئی سی عورت مرد بن کر اپنا نادرا کارڈ بنوا سکتی ہےایکٹ میں جنس کے تعین یا جنس کی تبدیلی کا اختیار خود فرد کو دے دیا گیا ہے اس میں خواجہ سرا کی قید بھی نہیں۔ یعنی کوئی بھی مرد نادرا کو درخواست دے کر اپنی جنس عورت کرا سکتا ہے اور کوئی سی عورت مرد بن کر اپنا نادرا کارڈ بنوا سکتی ہے اسی سلسلے میں 2018ء کے بعد سے 3 سال میں نادرا کو جنس تبدیلی کی قریباً 29 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں اور اب تک تقریباً 27 ہزار 713 لوگوں نے اپنی جنس تبدیل کروا لی ہے، ان اعداد و شمار کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے دنیا بھر کے گیز اور لیسبین اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب پاکستان میں یہ ایکٹ پاس ہو اور ہم اپنی آزادی حاصل کر سکیں مگر بد قسمتی سے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے قوم لوط کا کیا حشر کیا تھا ۔
Surat No 11 : سورة هود - Ayat No 82 

ترجمہ: ''پھر جب ہمارا حکم آپہنچا  ہم نے اس بستی کو زیرو زبر کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے ۔،،

یو کے میں 2004 میں جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازمی کیا گیا ہے جب کہ پاکستان جینڈر ایکٹ 2018 کے لحاظ سے کسی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننے اور تبدیلی جنس کا آپریشن کرانے کی کھلی چھٹی ہے۔ اس کے نقصانات واضح ہیں، مگر میں کچھ اہم نقصانات کی طرف آپ لوگوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
اس ایکٹ کے بعد سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش آنے والا ہے اس میں سر فہرست ہے وراثت ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وراثت کے متعلق ہمارے دین میں بہت ہی واضح حکم ہے،
Surat No 4 : سورة النساء - Ayat No 11 

ترجمہ:'' اللہ تعالٰی تمہیں تمہاری  اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصّہ 2لڑکیوں کے برابر ہے  اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور 2 سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا  اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میّت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصّہ ہے  ، اگر اس  ( میّت  ) کی اولاد ہو   ، اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصّہ ہے   ، ہاں اگر میّت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصّہ ہے   ۔ یہ حصّے اس  وصیّت  ( کی تکمیل )  کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد  ، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے   ، یہ حصّے اللہ تعالٰی کی طرف سے مقررکردہ ہیں بے شک اللہ تعالٰیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے ۔،،

اب اس ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے بعد جب ایک لڑکی چاہے اپنی جنس تبدیل کروا کر وراثت میں وہ حصہ مانگنے کی حقدار ہوجائے گی جو اسکے لیے مقرر نہیں بلکہ وہ کسی اور کا حصہ تھا۔
اسی طرح ایک اور بہت ہی بڑا مسئلہ جو جنم لینے والا ہے وہ ہے عدت کا معاملہ ، جیسا کہ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ طلاق کے بعد یا شوہر کی وفات کے بعد خواتین کو عدت کا وقت گزارنا ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ،

Surat No 2 : سورة البقرة - Ayat No 234 

ترجمہ:'' تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ،  وہ عورتیں اپنے آپ کو 4مہینے اور 10 دن عدت میں رکھیں  پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں  اور اللہ تعالٰی تمہارے ہر عمل سے خبردار ہے ۔،،

اب اس ایکٹ کے بعد جیسے ہی کسی عورت کا شوہر وفات ہوگا تو اسکو یاد آئے گا کہ اوہ میں تو عورت نہیں ہوں میں تو مرد ہوں اور نادرا جاکر اپنی شناخت، اپنی جنس تبدیل کروا کر اس عدت جیسے معاملے سے بھی اپنی جان چھڑوا لی جائے گی ۔۔
اس ایکٹ کا صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بہت سارے مرد حضرات بھی ناجائز استعمال کریں گے جس میں سر فہرست جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ہم جنس سے پسند کی قانونی شادی کرنا، کچھ عرصے کے بعد کیا ہوگا ذرا اس ایک مثال سے تصور کریں۔۔۔
2لڑکے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں مگر ملک کا قانون کہتا ہے کہ 2 لڑکے شادی نہیں کر سکتے ، ہاں البتہ اس ملک کے قانون نے آپ جیسوں کیلے ایک آسان راستہ ضرور بنایا ہے ، جائے ایک لڑکا اپنی شناخت تبدیل کروا لے اور ان میں سے ایک لڑکا اٹھے گا جائے گا اپنی شناخت اپنی جنس تبدیل کروا کر شادی کیلے تیار ہوجائے گا اب شادی کا کارڈ چھپے گا آپ کو اور مجھے انویٹیشن آئے گا ہم اس شادی میں شریک ہونگے مولوی صاحب نکاح پڑھائیں گے اور ہم سب مزے سے اس شادی کا بہترین کھانا کھا کر مبارکباد دیکر واپس آجائیں گے۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان کو خراج تحسین کہ انہوں نے اس ایکٹ کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایکٹ میں ترامیم کا ایک پرائیویٹ ممبر بل جمع کرایا ۔ انھوں نے 15نومبر 2021کو ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں ایک قانونی ترمیم کا مسودہ پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اپنی جنسی اور صنفی شناخت کو تبدیل کرنے کے خواہش مند لوگوں کا طبی معائنہ لازمی قرار دیا جائے اور ڈاکٹروں کی تصدیق اور اجازت کے بغیر نہ تو ان لوگوں کے شناختی کارڈ پر ان کی جنس تبدیل کی جائے اور نہ ہی انہیں سرجری یا دوسرے طبی طریقے استعمال کر کے اپنی جسمانی ساخت بدلنے کی اجازت دی جائے۔ مجوزہ ترمیم میں ان کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہونا چاہیے جو جسمانی اعتبار سے نہ عورت ہوں اور نہ  ہی مرد، کیونکہ اسلام صرف ایسے لوگوں کو ہی مخنث مانتا ہے .
بدقسمتی سے سینیٹر مشتاق احمد خان طبی معائنے کی اس  برانصاف اور بہترین تجویز اور ترمیم کے لیے اکیلے ہی یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔یہاں وارثان منبر و محراب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترمیمی بل کو منظور کرنے اور طبی معائنے کو لازمی کرنے کے لیے حکومت، ممبران پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر زور دیں کہ اس تہذیبی شب خون کا راستہ روکیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ پہلے مرحلے میں اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرے۔ جماعت اسلامی نے اپنے منشور میں خواجہ سراؤں کے لیے انڈسٹریل زون بنانے کی تجویز رکھی ہے جہاں خواجہ سرا کام کریں اور ان کی اسی زون میں کالونی، تعلیمی ادارے اور علاج گاہیں وغیرہ ہوں تاکہ انہیں معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بنایا جا سکے۔
آخر میں ایک بہت اہم نقطے کی طرف بھی آپ دوستوں کی توجہ دلاتا چلو ں کہ دنیا میں کچھ ایسی طاقتیں موجود ہیں جو دنیا کی آبادی کو کم سے کم سطح پر لیکر جانا چاہتی ہیں  کیونکہ جتنی کم آبادی ہوگی اتنا ہی کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے ، اپنی بات منوانا آسان ہوتا ہے ، ڈرانا آسان ہوتا ہے اور اپنے قوانین نافذ کروانا آسان ہوتا ہے ، اس حوالے سے دنیا بھر میں وقتاً فوقتاً بہت سارے اقدامات کئے جاتے رہے ہیں اور اس وقت پوری دنیا میں LGBT تنظیم کو بہت زیادہ فروغ دینا بھی اسی پلان کا حصہ ہے اور اسی پلان کے تحت ڈائرکٹ تو نہیں مگر ان ڈائریکٹ طریقوں سے مسلمان ممالک پر بھی حملے کئے جا رہے ہیں جن میں سے ایک ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 ہے ۔ اس ایکٹ کے پاس ہونے پر دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ میں اور آپ آج تک اس سے بے خبر رہے اور اس سے بھی زیادہ دکھ ان علماء کرام اور باقی مسلمانوں پر ہوتا ہے جو اس ایکٹ کے متعلق جانتے ہوئےبھی اسکے خلاف نہ تو پہلے کوئی آواز اٹھائی بلکہ اب بھی خاموشی سے اپنے اپنے حجروں میں آرام سے بیٹھے ہیں ، اور ساتھ میں ہمیں ان علما ءکرام اور عام لوگوں ، سیاستدانوں کو داد بھی دینی چاہیے جنھوں نے وقتاً فوقتاً اس ایکٹ کے خلاف آواز اٹھائی ۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -