میثاق، نیا میثاق۔ میثاق۔میثاق۔۔ سیاستدان آخر کیا چاہتے ہیں؟

   میثاق، نیا میثاق۔ میثاق۔میثاق۔۔ سیاستدان آخر کیا چاہتے ہیں؟
   میثاق، نیا میثاق۔ میثاق۔میثاق۔۔ سیاستدان آخر کیا چاہتے ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی اسمبلی میں گزشتہ ایک ہفتے سے جو کچھ سنائی دے رہا ہے،جو کچھ کہا جا رہا ہے، اس کے بعد سمجھ  نہیں آتی کہ ”ہم“ آخر چاہتے کیا ہیں۔ ہم سے مراد 24 کروڑ پاکستانی نہیں،بلکہ ہمارے چنے ہوئے نمائندے ہیں، جنہیں ہم نے اسمبلیوں میں بھیجا ہے، یہ وہ نمائندے ہیں جن میں سے بیشتر پاکستان کے تیسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جناب جنرل ضیاء الحق کے ”غیر جماعتی انتخابات“ کے نتیجے میں اسمبلیوں میں پہنچے، یعنی وہ لوگ جو آزاد جیت کر آئے تھے،  اسمبلیوں میں ”پہنچا“ کر ان کو ایک جماعت یعنی تاریخی مسلم لیگ کی شکل دی گئی اور وہ مسلم لیگ آج بھی موجود ہے۔ بس ذرا اس میں ”نواز“ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ دوسری جماعت ہماری پرانی تاریخی پیپلز پارٹی، یعنی ”عوام کی جماعت“ ہے اس جماعت کو 1967ء میں پاکستان کے سب سے بڑے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں عوام کو آمریت سے نجات دلانے کے لئے میدان میں ”لایا گیا“، مگر سب سے اہم بات جو عوام بھول گئے کہ اس جماعت کو بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو کا عام عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ  بڑے جاگیردار تھے، ذوالفقار علی بھٹو خود بھی کسی جمہوری راستے سے سیاست میں نہیں آئے تھے، لہٰذا ان کی جماعت کے اندر وہ مارشل لائی اثر آج تک برقرار ہے، ان کی شہادت کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو پھر ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر ان کے نواسے بلاول بھٹو کو ان کی بنائی جماعت کے چیئرمین بنے۔ جمہوریت میں موروثیت نہیں ہوتی۔ اب دوسری طرف اس جماعت کے بعد جنم لینے والی (جنرل ضیا الحق کی مسلم لیگ) دراصل قائد اعظم کی مسلم لیگ کا موجودہ ایڈیشن ہے۔ مسلم لیگ نواز بھی اسی موروثیت پہ چل رہی ہے۔ ضیاء  الحق کی بنائی گئی اس مسلم لیگ کو شروع میں جناب محمد خان جونیجو کے حوالے کیا گیا اور ان کے بعد آپس کی لڑائی سے گزر کر یہ میاں نواز شریف صاحب کے ہاتھ میں پہنچی اور آج بھی وہیں ہے، اس وقت بھی وہی اس کے ”کرتا دھرتا“ ہیں، سربراہ ہیں، کچھ عرصے پہلے بھائی کو بنایا گیا، لیکن وہ بھی برداشت نہ ہو سکا اور ایک بار پھر صدارت ماڈل ٹاؤن سے واپس ”جاتی عمرہ“ لے جائی گئی۔ اسی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان 1988ء سے لے کر 12اکتوبر 1999ء تک 11 سال میں چار حکومتیں اقتدار کے ایوانوں سے ”نکالی گئیں“۔ الیکشن کے ذریعے نہیں، ووٹ کے ذریعے نہیں، بلکہ 58 ٹو بی اور پھر آخرکار مارشل لا کے  ذریعے۔ بے نظیر بھٹو تو اس برے دن (12 اکتوبر) کے آنے سے پہلے ہی خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر چکی تھیں ان کے شوہر اور ہمارے موجودہ صدر جناب آصف علی زرداری ”نکل نہیں پائے“ تھے۔لہٰذا جیل میں رہے۔ میاں نواز شریف سے جنرل پرویز مشرف کی جیل زیادہ دیر برداشت نہیں ہوئی اور ان کی اہلیہ مرحومہ کلثوم نواز نے سعودی عرب سے مدد مانگ کر پورے خاندان کو بحفاظت سعودی عرب پہنچا دیا۔ ان دونوں لیڈروں نے اس خود ساختہ جلا وطنی کے دوران ایک میثاق جمہوریت کیاکہ جمہوریت ”اب ایسی ہونی چاہئے“۔ اگر یہ دونوں جماعتیں سیاست کا سبق پڑھ کر آئی ہوتیں، جمہوریت کا سبق سیکھ کر آئی ہوتیں، تو انہیں کسی میثاق جمہوریت کی ضرورت نہ پڑتی لیکن چونکہ ”شارٹ کٹ“ سے آئے ہوئے لوگ تھے لہٰذا ایک میثاق جمہوریت کرنا پڑا،یہ میثاق جمہوریت لندن میں ہوا، کاوش مرحوم نوابزادہ نصرالہ کی تھی، جو لندن سے واپسی پر کچھ عرصہ علیل رہ کر وفات پا گئے، اس میں بینظیر بھٹو کی مدد امین فہیم، رضا ربانی، سید خورشید شاہ، چوہدری اعتزاز احسن، راجہ پرویز اشرف نے کی اور میاں نواز شریف کی مدد میاں شہباز شریف، نثار علی خان، اقبال ظفر جھگڑا، احسن اقبال، سید غوث علی شاہ نے کی، لیکن ایک اہم چیز اس معاہدے کی میزبانی بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریبی ساتھی سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے رحمان ملک نے کی۔ اس معاہدے میں طے پایا کہ جو ”غیر آئینی ترامیم“جنرل پرویز مشرف نے کی ہیں ان کو ”نکالا“ جائے گا، جمہوریت میں فوج کا کردار طے کیا جائے گا، نیشنل سکیورٹی کونسل مزید نہیں چاہئے، احتساب کا عمل اپنی مرضی کے مطابق طے کیا جائے گا اور عام انتخابات کرائے جائیں گے۔ یہ تھے وہ معاملات جو میثاق جمہوریت میں طے پائے، لیکن آج کل کے حالات دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ میثاق جمہوریت پر عمل نہیں ہوا اور اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں فرمایا ہے کہ ”نیا میثاق جمہوریت“کر لیتے ہیں، یعنی ہم نے جمہوریت سے کچھ نہیں سیکھا جس کا سبق ہزاروں سال پہلے دیا گیا اور نہ ہم نے ”لندن والے“ میثاق جمہوریت سے کوئی سبق سیکھا۔ چنانچہ اب ہم نیا میثاق جمہوریت کر لیتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت کی وجوہات میں کہا ہے کہ پارلیمانی نظام میں جمود پیدا ہو چکا ہے اور ہمارا مقصد صرف حکومت کے اندر رہنا نہیں ہے۔ عوام کے مسائل حل نہ ہوں تو پھر حکومت میں رہنے کا کیا فائدہ۔ نئے میثاق جمہوریت کی فرمائش کے بعد ایک اور نئے میثاق کی بات ہو رہی ہے اور وہ ”میثاق پارلیمنٹ“ ہے،جس کے لئے آواز سپیکر ایاز صادق نے بلند کی ہے۔ ایاز صادق ڈھائی عشروں سے قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ انہیں اب ”بطور سپیکر“ پتہ چلا کہ پارلیمنٹ کے لئے بھی کسی ”میثاق“ کی ضرورت ہے، یعنی کہ اب تک یہ چیز ان کو پتہ نہیں تھی کہ ”پارلیمنٹ کو بچانے کی ضرورت“ہے۔ ادھر ہمارے وزیراعظم میاں شہباز شریف جن کا ایک نام ”پنجاب سپیڈ“ تھا (لیکن بدقسمتی سے اس نام پر بھی صرف ایک سال نگران وزیراعلیٰ رہنے والے محسن نقوی نے قبضہ جما لیا ہے) نے فرمایا ہے کہ اب ہمیں میثاق معیشت کی ضرورت ہے شکر ہے، شکر ہے، شکر ہے کہ کسی کو تو یاد آیا کہ اس ملک کے غریب عوام کو صرف جمہوریت نہیں ”روٹی“کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ ”موجودہ جمہوریت“ میں صرف پیسے والا ہی الیکشن جیت سکتا ہے۔ یہ جمہوریت صرف پیسے والوں کے لئے ہے۔ غریب کا اس جمہوریت سے کیا تعلق۔ غریب اگر الیکشن جیت بھی جائے تو اسے بڑے آرام سے ”گھر بٹھایا“ جا سکتا ہے۔ بس ”تھوڑی سی طاقت“کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر طاقت ہے تو وہ ”جیتا ہوا گھر بیٹھے“ گا اسمبلی میں اس کا کوئی کام نہیں،ہمیں میثاق معیشت کی واقعی بڑی سخت ضرورت ہے وہ اس لئے کہ آج پاکستان کی 40 فیصد سے زیاد،بلکہ میرا تو خیال ہے 50 فیصد سے بھی زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے، جن کے لئے اپنے گھر کا بجلی کا بل ادا کرنا، اپنے بچوں کی سکول کی فیس ادا کرنا، گھر کا کرایہ دینا، بچوں کو دو وقت کھانا کھلانا مشکل ہو گیا ہے اور یہ سب ہماری اس ”نمائشی جمہوریت“ کے ان ”سرخیلوں“ اور ان کے ”ساتھیوں“ کے وجہ سے ہے، جنہوں نے اس ملک کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا ہے۔ تو غریب کو روٹی کہاں سے ملے گی۔ یہ عوام کے لئے میثاق معیشت نہیں کر سکتے یہ تو اپنے مفاد میں میثاق معیشت کریں گے۔ تو پھر میثاق معیشت کیسے ہوگا۔ سوچ رہا ہوں کہ یہ میں تو نہیں کر سکتا اور نہ مجھ جیسے بے بس لوگ کر سکتے ہیں۔ تو پھر ہمیں اپنے موجودہ حالات میں ہی رہنا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -