وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایک اور گزارش

 وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایک اور گزارش
  وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایک اور گزارش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی حکومت پنجاب کا ایک اشتہار حال ہی میں نظر سے گزرا جس میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی (پھاٹا) اور پنجاب لینڈ ریکارڈز اتھارٹی کی مشترکہ کاوشوں سے پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی میں جدید پراپرٹی ٹرانسفر سسٹم کا آغاز کیا گیا ہے جس کے مطابق پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کی تمام سوسائٹیز میں جائیداد کے مالکانہ حقوق کا انتقال حکومت پنجاب کے جدید پارسل میپنگ ٹیکنالوجی سسٹم کے تحت کیا جائے گا۔ پارسل ٹرانسفر فارم کے فوائد میں لکھا گیا ہے کہ مالکانہ حقوق کو تحفظ ملے گا، فراڈ اور دھوکہ دہی کا خاتمہ ہو گا، کرپشن کی روک تھام ممکن ہو سکے گی، اراضی ریکارڈ میں شفافیت پیدا ہو گی اور اراضی خرید و فروخت میں آسانی ہو گی، اور یہ کہ موقع پر ہی رجسٹری کی جا سکے گی اور فراہم بھی ہو جائے گی۔ 

یہ سارا سسٹم کیا ہے اور اس کے کیا کیا فوائد ہو سکتے ہیں اس کے بارے میں تو میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ یہ ایڈورٹائزمنٹ دیکھ کر میری توجہ فوری طور پر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ان لاکھوں افراد کی طرف چلی گئی جو اپنا پلاٹ  حاصل کرنے اور اپنا مکان بنانے کی خواہش کے پیش نظر مختلف سوسائٹیوں میں قسطیں ادا کرتے رہے، لیکن پوری قسطیں ادا کرنے کے باوجود اب تک انہیں نہ تو پلاٹ ملا ہے اور نہ ہی ان کے لیے وہاں کوئی مکان وغیرہ بنانے کی کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان ان لوگوں کے پیسے دبا کر بیٹھے ہیں اور ان جمع شدہ کروڑوں بلکہ اربوں روپوں سے منافع حاصل کر کر کے اپنی عیاشیاں کر رہے ہیں جبکہ جنہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی ایک چھت کے حصول کی خاطر ان کے حوالے کی تھی وہ سڑکوں پر رُل رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان بے آسرا لوگوں کی جانب سے میں اس سے پہلے جناب وزیر اعظم اور محترم وزیر خزانہ سے درخواست کر چکا ہوں کہ حکومت کی جانب سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین کی مدد کی جانی چاہیے اور انہیں یا تو پلاٹ لے کے دیئے جائیں یا انہیں ان کے پورے پیسے واپس ملنا چاہئیں۔ 

اپنے گزشتہ کسی کالم میں، میں پہلے بھی نشان دہی کر چکا ہوں کہ ملتان روڈ پر واقع این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی فیز ٹو کو اناؤنس ہوئے کم و بیش 20 سال گزر چکے ہیں‘ وہاں پلاٹ کے حصول کی خاطر لوگوں نے پلاٹوں کی پوری قیمت اور مکمل ڈویلپمنٹ چارجز بھی ادا کر دیے ہیں‘ اس کے باوجود نہ تو سوسائٹی والوں نے کوئی ڈویلپمنٹ کی ہے اور نہ ہی ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ لوگ وہاں اپنے گھر بنا سکیں۔ اگر عام آدمی کی جانب سے پلاٹ کی دو چار قسطیں کبھی کسی وجہ سے رہ جائیں تو ہاؤسنگ سوسائٹی والوں کی جانب سے فوراً رد عمل ظاہر ہوتا ہے کہ قسطیں جمع کرائیں بصورت دیگر جرمانہ ادا کریں۔ پھر جرمانہ کر بھی دیا جاتا ہے اور جرمانہ لیے بغیر پلاٹ کی فائل بحال نہیں کی جاتی۔ دوسرے لفظوں میں عوام کے پیسوں سے انہی پر زور زبردستی ہو رہی ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک یکطرفہ معاملہ ہے جس میں سب کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور پلاٹ کے حصول کے خواہش مندوں کے پاس سوائے ایک فائل کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یوں اپنا گھر بنانے کے خواب دیکھنے والوں کے پیسے ہاؤسنگ سوسائٹی والوں کے پاس ڈمپ ہو چکے ہیں۔ ان پیسوں کا فائدہ سوسائٹی والوں کو تو ہو رہا ہے لیکن وہاں پلاٹ خریدنے والے افسوس سے ہاتھ مل رہے ہیں۔ این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ارد گرد کئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں سالوں بعد شروع ہوئی تھیں اور مکمل بھی کر لی گئیں‘ وہاں لوگ رہائش پذیر ہیں اور زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں‘ لیکن این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی فیز ٹو میں پلاٹ خریدنے والے مسلسل اذیت میں مبتلا ہیں۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ محض این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ سینکڑوں بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہزاروں ایسی سوسائٹیاں ہوں جن میں پلاٹ خریدنے والے دہائیاں دے رہے ہیں۔

محترمہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے گزارش ہے کہ ان لوگوں کی اشک شوئی کی جائے۔ انہیں متعلقہ سوسائٹیوں میں پلاٹ لے کر دیا جائے اور اگر پلاٹ نہیں ملنا تو پوری رقم واپس لے کر دی جائے۔ یہ اربوں بلکہ ممکن ہے کہ کھربوں روپے بنتے ہیں۔ جب لوگوں کا یہ پیسہ لوگوں کے ہاتھوں میں آئے گا تو نہ صرف ان کی قوت خرید بڑھے گی اور ان کے لیے مہنگائی کا مقابلہ کرنا آسان ہو سکے گا بلکہ جب وہ اس پیسے کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے باہر مارکیٹ میں کسی کاروبار میں لگائیں گے تو صوبے بھر میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو گا لوگوں کے لیے اپنے مالی مسائل کو حل کرنا آسان ہو جائے گا۔

میری دوسری گزارش ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرہ عوام سے ہے کہ خدارا وہ خود بھی اپنے حق کے کے لیے متحرک ہوں۔ اس طرح خاموشی سے بیٹھے رہیں گے تو کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا۔ متحد ہوں اور اپنی اپنی سوسائٹیوں کی انجمنیں اور یونینز قائم کریں اور متحد ہو کر سرکاری اداروں سے رجوع کر کے‘ عدالتوں سے رجوع کر کے‘ وفاقی اور صوبائی محتسبوں کے اداروں سے رجوع کر کے اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اگر اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کی طرف سے کسی رحم کی امید پر بیٹھے رہے تو یہ امید کبھی پوری نہیں ہو گی۔ اپنا جائز اور قانونی حق حاصل کرنے کے لیے انہیں بہرحال آگے بڑھنا اور عملی اقدامات کرنا پڑیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ میری وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ایک درخواست یہ ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے تاکہ لوگوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے یک طرفہ قوانین اور اصول و ضوابط سے نجات مل سکے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی والے اگر پلاٹ یا ہارئش دیتے ہیں تو وہ کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ پلاٹ کی قیمت اور ڈویلپمنٹ چارجز کے نام پر لوگوں سے اچھی خاصی بڑی رقوم وصول کرتے ہیں۔ کچھ انہیں ہی خدا کا خوف کر لینا چاہیے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر لوگوں کے استحصال کا سلسلہ بند کر دیں۔ 

  

مزید :

رائے -کالم -