خوابوں سے پیٹ نہیں بھرتا

تجاوزات کے خلاف مہم چل رہی ہے تو شیدے ریڑھی والے کا زد میں آنا بھی ضروری تھا۔آخر وہ بھی تو سڑک کنارے ریڑھی لگاتا ہے، لیکن میں نے دیکھا اُس نے اس طرح کا رونا دھونا نہیں ڈھالا جیسا عام طور پر ریڑھیوں والے اُس وقت ڈالتے ہیں جب اُن کی ریڑھیاں اور سامان کارپوریشن والے ٹرالیوں میں لاد کر لے جاتے ہیں۔وہ میرے پاس آیا اور یہ خبر سنانے کے بعد کہنے لگا بابو جی فکر اپنی نہیں آپ کی ہے،اب آپ کہاں سے سبزیاں اور پھل خریدیں گے۔یہ اُس کی مجھ سے محبت تھی جو ایسا سوچ رہا تھا۔وگرنہ سبزیاں اور پھل تو کہیں سے بھی لئے جا سکتے ہیں،میں نے کہا یار شیدے میری فکر چھوڑو،میں یہ سوچ رہا ہوں تم اب کیا کرو گے۔بچوں کا رزق کیسے کماؤ گے۔کیا میں اپنے ایک دوست افسر سے بات کر کے تمہاری ریڑھی واپس دلوا دوں۔شیدے نے پُرزور احتجاج کے انداز میں کہا نہیں نہیں بابو جی۔مجھے اکیلے کی ریڑھی تھوڑی گئی ہے،بہت سے ریڑھی والے بے روزگار ہو گئے ہیں، میں کیوں فائدہ اُٹھاؤں اور ریڑھی لگا کر اُن کی بددعائیں بھی لوں اور گالیاں بھی سنوں۔ جو سب کے ساتھ ہوا ہے وہ میرے ساتھ بھی ہونا چاہئے،میں کوئی نواب تو نہیں ہوں۔جب شیدا اِس قسم کی باتیں کرتا ہے تو مجھے ریڑھی والا نہیں لگتا،بلکہ اس معاشرے کا دُکھی انسان نظر آتا ہے جس کا بدقسمتی سے (شاید آپ اسے خوش قسمتی کہیں) ضمیر زندہ ہے۔ میں نے اُسے چائے پلائی، وہ خوش ہوا۔پھر کہنے لگا،بابو جی اگر حکومت اسی شدو مد سے اس ملک میں جرائم کے خلف بھی آپریشن کرے تو یہ ملک امن کا گہوارہ نہ بن جائے۔محنت مزدوری کر کے حلال کمانے والوں پر تو یہ ایسے چڑھ دوڑتے ہیں،جیسے سارا قصور ہی ان کا ہے۔ بے روز گاری اتنی ہے کہ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ایسے میں ٹھیلے یا ریڑھی لگا کر روزی کمانے والے جنہیں کوئی اور ہنر بھی نہیں آتا۔اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں تو انہیں کوئی متبادل جگہ دیئے بغیر اس طرح رزق کے ذریعے سے محروم کر دینا عجیب سا لگتا ہے۔کل میرے ایک عزیز کے بیٹے کو ڈاکوؤں نے موبائل چھیننے اور رقم لوٹنے کے بعد گولی مار دی۔ وہ تو شکر ہے گولی ٹانگ پر لگی اور جان بچ گئی۔ایسے لوگ دندناتے پھریں اور محنت کر کے روزی کمانے والے تجاوزات آپریشن کی زد میں آ کر گھر بیٹھ جائیں تو کیا یہ اچھی بات ہے؟مجھے معلوم تھا شیدا اس وقت دُکھی ہے۔ اُسے تجاوزات کی حمایت میں لیکچر دے کر مزید دُکھی نہیں کیا جا سکتا۔میں نے پوچھا ریڑھی پر کتنا سامان تھا۔ کہنے لگا صاحب جی میری خوش قسمتی ہے کہ آج منڈی نہیں گیا، کیونکہ کل کافی مندا رہا تھا اور مال بچ گیا تھا اسی لئے شکر ہے میری جیب میں کچھ رقم موجود ہے، ایک دو دن کا گذارا ہو جائے گا۔مجھے معلوم تھا وہ انتہائی خوددار ہے اُسے مدد کی پیشکش کی گئی تو ناراض ہو جائے گا۔میں نے کہا شیدے مجھ سے کچھ رقم ایڈوانس لے لو، جب ریڑھی لگاؤ گے تو سبزی و پھل کی خریداری میں برابر کرتے رہنا۔وہ ہنسا، اُس نے کہا بابو جی آپ فکر نہ کریں۔میں کل سڑک کنارے کپڑا بچھا کے سبزی و پھل بیچوں گا،آپ نے آنا ضرور ہے۔شیدا چلا گیا اور میں کئی سوالوں کی زد میں آ گیا۔
اس کی یہ بات مجھے کچوکے لگاتی رہی کہ جس قسم کی تیزی تجاوزات کے خلاف دکھائی جا رہی ہے اتنی تیزی اگر جرائم ختم کرنے کے خلاف دکھائی جائے تو لوگوں کو جان و مال کی حفاظت کے جو لالے پڑے ہوئے ہیں اُن سے نجات مل سکے۔ قاسم بیلہ ملتان کی ایک نواحی بستی ہے جہاں مزدور، مستری، محنت کش، پلمبر، کار پینٹر اور اسی نوعیت کے کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں رہتے ہیں۔قاسم بیلہ کی پلی پر صبح سویرے عجیب منظر ہوتا ہے، سینکڑوں نوجوان، بوڑھے اور کم عمر لڑکے وہاں موجود ہوتے ہیں۔یہ انسانوں کی منڈی کے وہ ”جانور“ ہوتے ہیں،جنہیں کسی کے ساتھ دیہاڑی پر جانا ہوتا ہے۔وہ اس مسیحا کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں جو غیب سے نمودار اور انہیں مزدوری کے لئے منتخب کر کے لے جائے۔کل میں مستری اکرم کے ساتھ وہاں گیا،مجھے ایک رنگ کرنے والے کی ضرورت تھی، جونہی ہم وہاں پہنچے بہت سے مزدور ہماری طرف لپکے۔جی صاحب، جی صاحب، اُن کی زبان پر تھا۔ مجھے بہت عجیب لگا کہ ایک ایسی جگہ کیوں آ گئے ہیں جہاں انسان خیرات نہیں مانگ رہے، محنت مزدوری کے لئے کوئی گاہک تلاش کرتے ہوئے منت ترلہ بھی کر رہے ہیں۔ہمیں ایک اچھا رنگ کرنے والا مل گیا۔میں نے واپسی پر مستری اکرم سے پوچھا،یہ لوگ جتنی بڑی تعداد میں بیٹھے ہیں لگتا تو نہیں کہ سب کو مزدوری مل جاتی ہو گی،جنہیں نہیں ملتی وہ کیا کرتے ہیں،کہاں جاتے ہیں۔ مستری اکرم جو 40 سال سے راج گیری کر رہا ہے۔کہنے لگا۔ سر جی، یہ لوگ گیارہ بجے تک یہاں بیٹھیں گے جن کی قسمت میں روزی ہے،اُنہیں کوئی لے جائے گا، باقی خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جائیں گے اور اپنے بیوی بچوں یا والدین کو بتائیں گے،آج دیہاڑی نہیں لگی۔میں نے کہا اگر دو تین دن تک کسی کو دیہاڑی نہ ملے تو اس کا گذر کیسے ہوتا ہو گا۔مستری اکرم نے کہا کہ آپ کسی دن میرے ساتھ گھوٹے،بستی لنگڑیال اور خیر پور بھٹہ چلیں آپ کو اندازہ ہو گا اس ملک میں غربت کس سفاکی کے ساتھ لوگوں کو جیتے جی مار رہی ہے۔
مستری اکرم چلا گیا تو مجھے ایک شاعر کا یہ مصرعہ یاد آیا۔بھوک بڑھتی ہے تو تخریب جنم لیتی ہے۔ یہ بھوکے ننگے لوگ، جو سارا دن محنت مزدوری کی تلاش میں سرگرداں رہ کر ناکام و نامراد گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں، اگر تنگ آ کر وہ راستہ اختیار کر لیں جو ڈکیٹ اور چور پیدا کرتا ہے تو ہمارا کیا بنے گا۔یہ وہ ملک ہے کہ جس میں اشرافیہ نے اپنی علیحدہ دنیا بسا رکھی ہے،جہاں 77 برسوں سے خوابوں کی پیداوار ہو رہی ہے۔خواب دکھاؤ کام چلاؤ، کیا خوابوں سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ آبادی بے تحاشہ بڑھ چکی ہے تو پھر ریاست کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا،شیدے کو روزگار تو آج چاہئے، مگر ہم اسے خواب دکھا رہے ہیں، آنے والی اسی کل کے جو77برسوں سے آنے کا نام نہیں لے رہی،روزگار چھیننے کی پالیسی پر جتنی شدو مد سے عمل ہوتا ہے،روزگار دینے کی پالیسی بھی تو اتنی ہی تیز تر ہونی چاہئے۔ایک سینئر پولیس افسر نے مجھے بتایا جرائم میں بے تحاشا اضافے کی وجہ بے روز گاری ہے۔جتنے بھی نوجوان پولیس گرفتار کرتی ہے،اُن میں زیادہ تر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، محنت کش طبقے کے افراد بہت کم جرائم کی طرف آتے ہیں، کیونکہ محنت مزدوری کر کے روز گار کما لیتے ہیں، جبکہ پڑھے لکھے نوجوان محنت مزدوری کے کام نہیں کر سکتے تو لوٹنے کا آسان راستہ اپنا لیتے ہیں ہمارے حکمران خواب دکھانے کی پون صدی پرانی پالیسی سے باہر نکلیں تو انہیں زمینی حقائق نظر آئیں۔
٭٭٭٭٭