بھولے بھالے لوگ

بھولے بھالے لوگ معصوم ہوتے ہیں اور شر پسند عناصر کا آسان نشانہ ہوتے ہیں۔ بڑی آسانی سے ان کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ میں ایک ایسے سیدھے سادھے شخص کو جانتا ہوں جو محنت کرنے پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ رزق حلال کی تلاش میں دن رات ایک کردیتا ہے،بلکہ خون پسینہ بھی ایک کردیتا ہے۔ ایک دفعہ وہ اپنے تابناک مستقبل کے لئے بیرون ملک چلاگیا۔خوب پیسہ کمایا اور پوری آمدن اپنے بہن بھائیوں کو بذریعہ منی آرڈر بھیجتا رہا اور بہتر سے بہتر کی تلاش میں آگے آگے بڑھتا رہا یوں زندگی گزرتی جارہی تھی اور اس کو یقین تھا کہ اس کے بہن بھائی پورے خاندان کی بنیاد قائم کر چکے ہوں گے۔ خواب دیکھنے پر پابندی تھوڑی ہے اور خوابوں کی ایک اپنی دنیا ہے اور اس دنیا کے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ کاش آنکھ بند ہی رہے اور خواب کا تسلسل برقرار رہے اور انسان خوش خوش زیست کے اختتام کی طرف پہنچ جائے۔ آنکھ کھلنے کی صورت میں تو کچی یاری ٹوٹ جاتی ہے۔پیار کی کہانی اچانک ختم ہو جاتی ہے۔ چوروں کو مور پڑ جاتے ہیں اور بندہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے "نیں میں ہو گیا کجھ ہور نیں مینوں کون پہچانے گا"۔ پہچاننے والے دائیں بائیں ہو جاتے ہیں۔ ہر سو ہو کا عالم ہوتا ہے۔خیر بات بیرون ملک جانے والے مسافر کی ہو رہی تھی جو تھکا ماندہ ایک دن اپنے گھر کو لوٹ آیا۔اس کا پُرتپاک استقبال۔ پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور پھولوں کی پتیاں تو خوب برسائی گئیں۔ ڈھول ڈھمکا بھی کیا گیا۔ جس نے سنا بھاگم بھاگ آیا اور مصافحے اور معانقے اور پھر واری واری جاواں۔اس سارے پروگرام میں عزیز و اقارب نے ساتھ آئے بیگوں کو محفوظ بلکہ بہت ہی محفوظ جگہ پر محفوظ کر لیا اور موصوف کو خاندان کی معیشت مضبوط کرنے کے لئے فوری طور پر واپس جانے کا مشورہ دیا گیا۔ اپنے کب غلط مشورہ دیتے ہیں لہٰذا پہلے بیگ خالی اور نئے بیگ اور نیا زاد راہ۔ ہم تو چلے پردیس ہم پردیسی ہو گئے۔ پچھلی دفعہ ایک ہوٹل بنایا تھا اور واپس جا کر بنے بنائے کاروبار پر بیٹھنا تھا۔ جہاز شاں کرتا ہوا لیڈنگ بھر گیا اور مذکورہ ہوٹل سوئی بن گئی بسیار تلاش کے باوجود کچھ نہ ملا۔ کوئی خانماں خراب ہاتھ دکھا گیا یا ہاتھ کر گیا تھا اب نئے سرے سے ہاتھ اور پاؤں مارنے کی ضرورت پڑ گئی صیاد شکار کی تلاش میں تھا اور ہم ککھوں ہلکے مسافر۔ جھٹ میں کچھ بھی ہو سکتے تھے۔ ہر سو خوف اور آنکھوں کے سامنے دن کو تارے نظر آنا شروع ہو گئے۔ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کچھ کرنے سے بہتر ہے واپس لوٹ جائیں۔ اپنے ملک میں اپنے لوگ۔ ہر لحاظ سے محفوظ بلکہ مامون۔ ماموں چچے بہن بھائی۔ ہر طرف سے ٹھنڈی ہوا اور کھلی آکسیجن تھوک کے حساب سے تن میں کھینچی جائیگی یوں جسم کے سارے مسام کھل جائیں گے دماغ لمحوں میں تابناک مستقبل کے لئے ایک دو نہیں ہزاروں تجویزیں دے گا اور ایک ایک تجویز پر عمل۔ کون نہیں جانتا ہے کہ عمل سے ہی زندگی بنتی ہے تاہم بھولے بھالے نہیں جانتے ہیں کہ عمل کا پہیہ بھی اپنے حساب سے گھومتا ہے۔ اکثر اوقات تو بندہ خود ہی گھوم جاتا ہے۔ایسی صورت حال میں بھولے بھالے لوگوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ بہت خوب بے ضرر لوگ۔ ہنسنے مسکرانے والے لوگ اور اپنی کم مائیگی پر صبر کرنے والے لوگ۔ خیر واپسی پر آواز میں دھیما پن، آنکھیں نم۔ سر جھکا ہوا اوربیگ خالی(ٹانگہ آگیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی)۔ متذکرہ صورت حال پر سجنوں کو سانپ سونگھ گیا۔ سانپ کا زہر بڑا زہریلا ہے۔ سر تا پا فوری اثر کر جاتا ہے۔ اچھا خاصا بیٹھا بٹھایا ذی روح نعش بن جاتا۔ صورتحال بالکل ہی بدل جاتی ہے یا بدل دی جاتی ہے۔دونوں صورتوں میں عزیز واقارب کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بقول راقم الحروف(بھین بھرا تے چاچے مامے۔۔۔رل کے ونڈدے بھار او سجناں) گفتگو اور مذاکرات مابین اپنوں کے۔ مہنگائی اخراجات اور قرضوں کا بوجھ۔ ساری کمائی ان چیزوں کی نذر اور یقیننا کسی کی خاندان کو نظر لگ گئی ہے۔ کہانی وہیں کی وہیں کھڑی ہے جہاں برسوں پہلے تھی۔ گلے شکوے اور وہ بھی ایک دوسرے کو۔ مایوسی گناہ ہے۔ ہمت بندھائی جاتی ہے تب جا کر روٹی پکائی جاتی ہے۔ مرچ مصالحہ لگانے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ باہر اور اندر میں فرق ندارد۔ کمر کسنے کی ضرورت ہے اور اب کے آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے آنکھیں کھول کے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ حکم کی نوعیت کو بھولے بھالے کب سمجھیں گے۔ اپنے غیر ہو جائیں گے۔ غیر دروازے بند کر لیں گے وہ تب سمجھیں گے۔ سمجھے تو کیا سمجھے۔ (سمجھ سمجھ کے بھی جو نہ سمجھے میری سمجھ میں وہ نا سمجھ ہے)
ایک وقت تھا جب مشترکہ خاندانی نظام بھولے بھالے لوگوں کی محفوظ جگہ تھی تاہم اس نظام میں بھی کسی نہ کسی نے تو قربانی دینا ہوتی تھی۔ پھر ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ سب خود مختار۔ سب کو بولنے کے یکساں مواقع اور سب کے لئے آگے بڑھنے کے یکساں مواقع۔ اس زبردست تبدیلی میں اب کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا ہے سوائے اس کے جس کے ہاں اجتماعیت کو برقرار رکھنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے اور جو خونی رشتوں کی پاسداری کا حق ادا کرنا چاہتا ہے۔ زبردست کام اور نیک نام۔ حالات پلٹا کھاتے ہیں تو زید بکر اور بکر زید ہو جاتا ہے۔شاید ہمارے جاننے والے مذکور بیرون ملک سے واپس آئے تو حالات نے پلٹا نہیں لیا تھا،بلکہ حالات بالکل ہی الٹ پلٹ چکے تھے۔ خون کے رشتے سفید ہو چکے تھے۔ ترس کھانے والی آنکھ کو دکھنا بند ہو گیا تھا یا اس آنکھ پر بے رحمی کی چربی چڑھ گئی تھی۔ بالکل بے یارو مددگار ایک انسان بظاہر بھولا بھالا کسی کو دوش نہ دیوے۔ نئے سرے سے آگے بڑھنے کے خواب دیکھ رہا ہے اور آگے دیکھ رہا ہے۔ آئیے سب مل کے اس کو دیکھتے ہیں اس کے ماضی پر نظر دوڑاتے ہیں اور اس کے حال پر رحم کھاتے ہیں۔ شاید یہ معاشرے کے رویوں کے بارے میں اپنا خیال بدل کر اس معاشرے کی خدمت پر ایک بار پھر کمر بستہ ہو جائے۔ کام تو اچھا ہے اور جذبہ بھی سچا ہے لیکن معاملہ چابکدستی کا ہے اور پھولے بھالے کی دادرسی کا ہے۔ خدا خیر کرے