اصلاح کھالہ جات کےملازمین کی ٹینشن
ہوناتویہ چاہیےکہ محنت اورجانفشانی سے اپنے فرائض سرانجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہومگربعض دفعہ کچھ محکموں میں یہ گنگاالٹی بہناشروع ہوجاتی ہےنتیجتاکئی خاندان معاشی طورپر بُری طرح متاثرہوتے ہیں، حکومت پنجاب کے منصوبے "قومی پروگرام برائے اصلاح کھالہ جات"کےتیرہ سو سے زائد ملازمین بھی اپنی نوکری بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں،معاشی تنگدسی نے ان کی دہلیز پر دستک دے رکھی ہے اور وہ بُری طرح پریشان ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ آئے روز احتجاج کرنے صوبائی دارالحکومت آتے ہیں تاکہ اہل اقتدارواہل اختیارکے قریب ترہوکراپنی صدائے احتجاج بلندکرسکیں مگرابھی تک انہیں لولی پاپ کے سوائے کچھ ملتا نظرنہیں آرہا۔
تیس دسمبردوہزاراکیس کوبھی یہ ملازمین لاہور کی سڑکوں پر خاک چھانتے رہے اورآخر میں وزیر زراعت پنجاب سید حسین جہانیاں گردیزی نے برائے نام مذاکرات کرکے انہیں طفل تسلی دے کر گھربھیج دیا،دو ہفتوں سے زائد وقت گزرنے پر جب کچھ نہیں فیصلہ ہوا تو ایک دفعہ پھر یہ ملازمین سراپااحتجاج ہیں،ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی بنا پرایک قومی اخبار کی کٹنگ واٹس ایپ کی جس کی سرخی کچھ یوں تھی۔واٹرمینجمنٹ ملازمین کی تنخواہیں بند،ڈپریشن سے چاراموات‘‘۔اسی طرح اسی محکمے کے ملتان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس نامی راڈمین کو جب پتہ چلا کہ نوکری نہیں رہی تو وہ دل برداشتہ ہوگیا اور نتیجتادل کا دورہ پڑنے سے خالق حقیقی سے جاملا۔نجانے ایسے کتنے ہی واقعات ہوئے ہوں یا ہورہے ہوں۔ملازمین یہ کہتےہیں کہ انہیں فارغ کرکے معاشی بحران کی طرف نہ دھکیلا جائے بلکہ قومی پروگرام برائے اصلاح کھالہ جات فیزٹو میں ایڈجسٹ کیاجائے کیوں کہ وہ پہلے ہی اس پروگرام کیساتھ وابستہ ہیں اور تجربہ بھی رکھتے ہیں،اہلیت بھی ہے اورمنصوبے کا تقاضا بھی ہے لہذا ان کے خاندانوں کو پریشان کرنے کی بجائے انہیں مستقل کیاجائے۔
ملازمین کو ایک امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کروڑوں نوکریوں کا وعدہ کیاتھا،اب اگر معاملہ ان کے علم میں آیا تو وہ یقینا انہیں بیروزگار کرنے سے منع کردیں گےمگرملازمین کو خدشہ ہے کہ ان کی آواز ابھی تک وزیراعظم تک نہیں پہنچی، یہی وجہ ہے کہ اب کی بار وہ اپنی آواز وزیراعظم صاحب تک پہنچائے بغیر احتجاج ختم نہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں،اب کی بار وہ کسی طفل تسلی میں آنے والے نہیں لگتے،اب کی بار وہ چاہتے ہیں کہ فاقوں سے مرنے سے بہترہے کہ اہل اقتدارکے سامنے مرا جائے تاکہ رہتی دنیا تک یہ مثال قائم ہو کہ اپنا حق لینا ہو تو پھر عزم مصمم ضروری ہوتاہے چائے اس میں کتنی ہی مشکل پیش کیوں نہ آئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان سینکڑوں ملازمین کی بات ہمہ تن گوش ہوکرسنے اور خدانخواستہ کل کو دکھی خاندانوں کی مدد کرنا پڑے،ابھی سے ان تجربہ کار ملازمین سے فائدہ اٹھایاجائے اور ان کے چولہے بھی ٹھنڈے نہ ہونے دئیے جائیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.