نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

  نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
  نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انسان مجبور محض ہے۔ وہ اپنے ماحول کا غلام ہے۔ 

اول تو ہمیں اپنی تخلیق ہی کا پتہ نہیں کہ  ہمیں انسان کیوں بنایا گیا۔جمادات، نباتات اور حیوانات ہم سے پہلے کیوں بنائے گئے۔ ان تینوں زمانوں کی مدتیں کیا تھیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ پتھر کازمانہ کتنے سو سال رہا۔ پھر نباتات اور پھر حیوانات کے ادوار کی مدت کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ آج کا انسان چاند پر جا پہنچا ہے۔ مریخ اور زحل تک اپنے بنائے ہوئے سیارے بھیج رہا ہے اور ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ فلاں کہکشاں اتنے نوری سال دور ہے اور فلاں کہکشاں کو وجود میں آئے اتنے نوری برس بیت گئے ہیں۔

آج کا انسان اپنے آپ کو بہت مہذب اور متمدن سمجھ رہا ہے لیکن تہذیب کا دورانیہ کتنا ہے اور تمدن کے دور کی مدت کیا ہے، ہمیں اس کابھی کچھ پتہ نہیں۔ ہم تو آج تک اہرامِ مصر کی تاریخ کا سراغ بھی نہیں لگا سکے۔ وہ انسان کیا تھے اور کیسے تھے جنہوں نے اہرامِ تعمیر کئے اور صحراؤں میں پتھروں کو کیسے لایا گیا ان سے اہرام کیسے تعمیر کئے گئے۔ ان کے اندر حنوط شدہ لاشوں کے بارے میں ہمارے اندازے محض اندازے ہیں۔ آپ اہرامِ مصر کی تاریخ پڑھیں۔کچھ سمجھ نہیں آئے گی کہ یہ کب تعمیر کئے گئے، پانچ ہزار سال پہلے یا پانچ لاکھ سال پہلے……یہ تمام کچھ اگر ہے تو محض اندازے ہیں۔

ہم فراعنہ ء مصر کو حضرت موسیٰ کے حوالے سے جانتے ہیں اور یہ زمانہ تولیدِحضرت عیسیٰ سے صرف  1200سالہ پہلے کا زمانہ بتایا جاتا ہے۔ ان گیارہ بارہ سو سالوں میں انسان نے کیا کیا مناظر دیکھے اور کن کن منازل سے گزرا، ہمیں اس کابھی کچھ اندازہ نہیں۔ ہاں قیاس کے گھوڑے ہمارے اپنے دور میں بھی اپنے سے پہلے کے کئی ادوار میں دوڑائے گئے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کے جن پیغمبروں کا ذکر ہے وہ حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضورؐ کے زمانے تک کے پیغمبر تھے۔ لیکن حضرت موسیٰ سے پہلے کے زمانے میں جن پیغمبروں کا ذکر قرآن میں آیا ہے، ان کے ادوار کی مدت کا تعین محض قیاسی ہے، وثوقی نہیں۔

آج اگر دنیا میں تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے تو کیا کوئی ذی روح بچ پائے گا؟ انسان تو کرۂ ارض پر مقیم ہے۔ وہ جب ختم ہو جائے گا تو کیا سمندری مخلوق بھی ختم ہو جائے گی؟…… آپ ان سوالوں پر جتنا بھی غور کریں گے،نئے اندیشے اور نئے سوال پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ اوپر لکھا گیا ہے کہ انسان مجبور محض ہے…… لیکن اس میں ایسی قوت بھی ہے جو تسخیرِ کائنات کر سکتی ہے۔ لیکن یہ قوت انسان میں ”روح“ کی محتاج ہے۔ ”روح“ اللہ کا وہ راز ہے جسے خدا نے کسی بڑے سے بڑے پیغمبر پر بھی افشاء نہیں کیا۔ خدا جب بھی اس روح کو حکم دے گا وہ انسانی جسم سے نکل جائے گی۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی زندگی اور موت باہم لازم و ملزوم حقائق ہیں۔ ہمارے اردگرد ہر روز لوگ مرتے ہیں اور پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ان پر صرف خوشیاں نچھاور کرتے اور ماتم گساریاں کرتے ہیں …… اور بس……!!

شیخ سعدی نے کہا تھا کہ:

بنی آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کہ ان کی تخلیق کا جوہر ایک ہے۔ جب زمانہ کسی ایک عضو کو مبتلائے درد کرتا ہے تو باقی اعضاء بھی یہ درد محسوس کرتے ہیں اور ان کوبھی قرار نہیں رہتا:

گلستانِ سعدی کے یہ اشعار قابلِ توجہ ہیں:

بنی آدم اعضائے یک دیگر اند

کہ از آفرینش زیک جوہراند

چو عضوے بہ درد آورد روزگار

دگر عضوہا را نماند قرار

لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہے؟ کیا آج کا ایک انسان،آج کے دوسرے انسان کا خون نہیں بہا رہا؟ انسانی تاریخ تو جنگوں اور خون خرابوں سے بھری ہوئی ہے۔ہم صرف ایسے اوزار (Tool) میں جو تقدیر کے ہاتھوں میں پکڑے (اور جکڑے) ہوئے ہیں۔ ہم پاکستان میں ضرور پیدا ہوئے لیکن نجانے موت کس ملک یا کس خطے میں آئے گی۔ ہم اپنی زندگی کے ادوار پر قطعاً قادر نہیں۔ بس کوشش و کاوش کرتے چلے جاتے ہیں اور یہی زندگی ہے۔ کرۂ ارض پر آج اگر پانچ براعظم ہیں اور ان براعظموں میں ملکوں کی کل تعداد 200ہے تو کل کلاں 2000بھی ہو سکتی ہے اور 20بھی!…… مستقبل کا علم صرف اور صرف خدا کو معلوم ہے۔ خدا اور روح ایک ہیں۔ جب حضرت آدم کو خدا نے پیدا کیا تو اپنی یہ روح اس میں پھونکی اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ اس آدم کو سجدہ کرو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میری روح کو سجدہ کرو۔ سب نے سجدہ کیا اور جس نے انکار کیا وہ ابلیس بن گیا۔ ابلیس نے انکار کیوں کیا، اس کا علم بھی کسی کو نہیں:

اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر

مجھے معلوم کیا، وہ راز داں تیرا ہے یا میرا

انسان اشرف المخلوقات تو ضرور ہے لیکن اس کا انجام کسی بھی ذی روح کو معلوم نہیں۔ خدا جب تک چاہے گا ہم زندہ رہیں گے اور جب چاہے گا، زندہ نہیں رہیں گے۔ زندگی اور موت خدا کی دو حقیقتیں اور دو نشانیاں ہیں۔ زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اسی کے حکم سے آتی ہے۔ کیا انسان کا زوال، نعوذ باللہ خدا کا زوال ہے؟…… نہیں …… ایسا نہیں …… انسان تو فانی ہے لیکن خدا باقی ہے اور وہ تاابد باقی رہے گا۔ یہ ماضی اور حال کے زمانے ہمارے لئے صرف گنتی کرنے کے زمانے ہیں۔

اہرامِ مصر سے بھی پہلے خدا جانے کتنے اہرام اور گزر چکے ہیں۔ ان اہراموں کے مصر کہاں ہیں؟…… ان کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ صرف یہ معلوم ہے کہ اگلا پل، مستقبل کا پل ہے۔ لیکن یہ پل ہمارے لئے آنی و فانی ہے یا باقی ہے، یہ صرف خدا ہی کو معلوم ہے …… ہم انسان Recieving End پر ہیں اور خدا کی ذات Giving Endپر ہے:

جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرفِ محرمانہ

قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ 

کیا انسان مستقبل کا مشتاق ہے؟…… یہ سوال بھی بڑا تکلیف دہ ہے۔ خدا نے گویا ایک وسیع و عریض بساط بچھا رکھی ہے جس پر انسانی مہرے اپنی اپنی چالیں چلتے ہیں کس مہرے کو کب مات ہو گی اور کون سے مہرے کو شہ مات ہوگی اس کا کوئی پتہ کسی بھی شاطر کو معلوم نہیں۔ کہنے کو وہ شاطر ہے لیکن بڑے سے بڑا شاطر بھی مجبور محض ہے!

یہ سوال بھی انسان کو ہمیشہ تنگ کرتا رہے گا کہ اگر انسانی انجام، موت ہے تو جدوجہد اور کوشش و کاوش کا مفہوم کیا ہے؟کیا خدا، انسان کو آزما رہا ہے؟اور کیا اگر خدا کو ہر انسان کا انجام پہلے سے معلوم ہے تو پھر یہ کھیل تماشا کیوں رچایا ہوا ہے۔

انسان، انسان کا دشمن بھی ہے اور دوست بھی۔ وہی باپ ہے،ماں ہے، چچا تایا ہے، ماموں ممانی ہے اور وہی دشمنِ جاں بھی ہے اور قاتل بھی ہے……یعنی صرف نام بدل جاتے ہیں، کام وہی رہتے ہیں۔

میں تاریخِ انسانی کا ایک بہت کم علم قاری ہوں۔یہ جو کچھ سطورِ بالا میں لکھ آیا ہوں، اس کو آپ ایک پاگل یا نیم پاگل کی تحریر بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ اس فانی دنیا میں اگر کوئی چیز باقی رہے گی تو سیرت طیبہ کی وہ مشعل ہے جو ہمیشہ جگمگاتی رہے گی۔ جس ہستیء مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا وہ تو خدا کے حکم سے باقی نہیں رہی لیکن خدا کا وہ فرمان جو اس بشرؐ پر نازل ہوا وہ تابد ابد باقی رہے گا۔ انسان پیداہوتے اور مرتے رہیں گے۔ ان میں مسلمان بھی ہوں گے اور غیر مسلم بھی۔ 

قرآن کا مطالعہ ایک ایسا اثاثہ ہے جو ہم فانی انسانوں کو آنے والے فانی انسانوں کے نشیب و فراز کی خبر دیتا ہے، بتاتا ہے کہ اگر دنیا بازیچہء اطفال ہے تو ان اطفال نے جوان بھی تو ہونا ہے۔ ان کی جوانی کی آمد کب ہوگی، ان کو بڑھاپا کب آئے گا اور ان کو موت کب آئے گی اس کا کچھ بھی اندازہ کسی بھی انسان کو نہیں۔ خواہ وہ مشرق کا رہنے والا ہو، خواہ مغرب کا باسی ہو، خواہ شمال کا باشندہ ہو، خواہ جنوب کا رہائشی ہو…… اس کی ابتداء بھی نامعلوم ہے اور انتہا کی خبر بھی کسی کو معلوم نہیں …… اگر معلوم ہے تو بس یہی کہ انسان مجبورمحض ہے!

مزید :

رائے -کالم -