بریگیڈئیر  (ر)  صولت رضا کے غیر فوجی کالم (1)

    بریگیڈئیر  (ر)  صولت رضا کے غیر فوجی کالم (1)
    بریگیڈئیر  (ر)  صولت رضا کے غیر فوجی کالم (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 صولت رضا فوج میں تقریباً  31  سال گزارنے کے بعد جولائی  2003 ء  میں بطور بریگیڈئیر ریٹائر ہوئے۔  فوج میں کمیشن لینے سے پہلے وہ ایم اے صحافت کر چکے تھے اور ایک سال تک صحافت کے پیشہ کے ساتھ بھی منسلک رہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ ان کی زندگی کے جو 31 سال فوج میں گزرے اس دوران بھی ان کے اندر کا صحافی زندہ رہا۔ایک صحافی میں تجسُس،  کھوج،  جستجو اور تلاش کا جو مادہ اور جوہر ہوتا ہے وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہا۔ صولت رضا چونکہ فوج کے شعبہ آئی ایس پی آر میں تھے اس لیے وہ فوج میں ہوتے ہوئے بھی صحافت سے الگ تھلگ کبھی نہیں رہے۔صحافت اور صحافیوں کے ساتھ اُن کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا۔علامہ اقبال نے کہا تھا ”موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں۔ صولت رضا بیرونِ دریا کبھی نہیں رہے۔صولت رضا نے فوج اور صحافت کے درمیان پُل کا کام کیا۔ دریا کا ایک کنارہ فوج تھی اور دوسرا کنارہ صحافت۔صولت رضا ایک تیراک کی طرح ان دونوں کناروں کے درمیان تیرتے رہے۔صولت رضا کا کمال یہ تھا کہ جتنا عرصہ وہ آئی ایس پی آر میں رہے۔انہوں نے دریا کے دونوں کناروں فو ج اور اہلِ صحافت کے درمیان کبھی شکر رنجی پیدا نہیں ہونے دی۔
جس طرح بریگیڈئیر  (ر)  صولت رضا کا اپنی اکتیس سالہ فوجی زندگی میں بڑا منفرد اور باوقار کردار رہا۔اسی طرح صولت رضا نے جب آئی ایس پی آر سے از خود ریٹائیر منٹ لی تو اس میں بھی عزت، وقار اور شان کا ایک منفرد پہلو تھا۔جب پی ایم اے کاکول میں صولت رضا کے ایک کورس میٹ شوکت سلطان کوبریگیڈئیر کے عہدے سے میجر جنرل کے منصب پر ترقی دے کر آئی ایس پی آر میں تعینات کیا گیا تو صولت رضا کی ملازمت میں ابھی نو سال کی مدت باقی تھی۔سرکاری ملازمت میں نو سال کے عرصے میں ایک بریگیڈئیر کے عہدے پر فائز افسر کے لیے بڑی کشش تھی مگر صولت رضا کو ایک لمحے کے لیے بھی تردد یا فکر لاحق نہ ہوئی اور انہوں نے اپنے والد گرامی سے مشورے کے بعد آئی ایس پی آر سے ریٹائر منٹ کا فیصلہ کر لیا۔بریگیڈئیر کا عہدہ قربان کیا تو صولت رضا کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویج اسلام آباد میں شعبہ ابلاغیات کے بانی سربراہ کا اعزاز حاصل ہو گیا۔اس دوران صولت رضا نے اخبارات میں کالم لکھنے کا فیصلہ کیا۔اُن کے کالم کا مستقل عنوان  ”غیر فوجی کالم“  قرار پایا۔  یہ نام اس اعتبار سے منفرد تھا کہ کالم نویس اگرچہ ایک ریٹا ئر بریگیڈ ئیر تھا لیکن صحافت کے میدان سے صولت رضا کبھی غیر حاضر نہیں رہا۔اس لیے اُنہوں نے اپنی سوچ و بچار اور تجزیوں کو قارئین تک پہچانے کے لیے  ”غیر فوجی کالم“  کے نام ہی کو موزوں تر سمجھا۔صولت رضا کی نامکمل خود نوشت تو حال ہی ”پیچ و تابِ زندگی“  کے نام شائع ہوئی ہے۔لیکن اس سے پہلے ان کے منتخب کالموں کا مجموعہ ”غیر فوجی کالم“  2016  میں شائع ہُوا تھا۔
صولت رضا کے کالموں میں قلم کی غیر معمولی روانی دیکھ کر میرے اس خیال کی توثیق ہوجاتی ہے کہ صولت رضا کا رشتہ قلم سے کبھی نہیں ٹوٹا۔
خالد علیگ کا ایک شعر ہے:۔
ہم صبح پر ستوں کی یہ ریت پرانی ہے۔
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
صولت رضا کے ہاتھ تو قلم نہیں رہے۔لیکن اُن کے سلامت ہاتھوں میں قلم ہمیشہ رہا ہے۔اس لیے ان کے  ”غیر فوجی کالم“  صحافتی کالموں میں عمدہ مثال ہیں۔
صولت رضا کے کالموں کا نمایاں ترین پہلو و ہ معلومات اور راز ہیں جِن تک رسائی آئی ایس پی آر کے کسی اعلیٰ ترین افسر کے لیے ہی ممکن ہوسکتی تھی۔صولت رضا نے اپنے ایک کالم میں  1992 ء میں جاری کی گئی پریس ریلیز کا ایک قصہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔سندھ میں جاری آپریشن کلین اَپ کے حوالے سے ایک اہم اجلاس کی پریس ریلیز کا ڈرافٹ ایک بریگیڈ ئیر نے تیار کیا، جنرل آصف نواز نے اس پریس ریلیز کی منظوری دی اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس پریس ریلیز کو اوکے کر دیا مگر یہ بھی کہا کہ میڈیا کو جاری کرنے سے پہلے یہ پریس ریلیز صدر مملکت غلام اسحاق خان کو بھی دکھانا ضروری ہے۔جب صدر مملکت کے پاس صولت رضا وہ پریس ریلیز لے کر ایوان صدر پہنچے۔صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے اس پریس ریلیز کا مفہوم تو تبدیل نہ کیا لیکن ایک  ”ماہر نیوز ایڈیٹر“  کے طور پر انہوں نے پریس ریلیز کا خوب آپریشن کیا اور پریس ریلیز کے تقریباً ہر جملے کو بہتر اور پھر مزید بہتر بنانے کی کوشش کی۔صولت رضا نے اس پریس ریلیز کا حوالہ دے کر اپنے کالم میں اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ 1992 ء میں پاکستان کا نظامِ حکومت کچھ اس طرح تھا کہ جسم ایک تھا اور اس کے اوپر تین سر تھے۔صدر مملکت،وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف۔صولت رضانے اپنے اس کالم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ ایک دھڑ پر تین سروں والے نظام حکومت کو پاکستان میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے متعارف کروایا تھا اور پھر صدر مملکت غلام اسحاق نے ایک دھڑ پر تین سروں والے نظام حکومت کے سلسلہ کو مزید تقویت دی۔غلام اسحاق خان نے اسی نظام حکومت کے بل بوتے پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے دو دفعہ ملک میں منتخب حکومتوں کو ختم کیا۔محترم صولت رضا نے غلام اسحاق خان کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایک محب وطن شخصیت تھے۔انہیں اپنی ایمانداری اور ذاتی موقف کی سچائی پر کامل یقین تھا۔البتہ وہ اپنے مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والوں کی دیانت اور حب الوطنی کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ بھی یہی ہے کہ یہاں ہر حکمران محب وطن ہوتا ہے اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کی حب الوطنی اور دیانت ہمیشہ مشکوک ہوتی ہے۔ ”ریاست دشمن“  حزب اختلاف جب حکومت میں آجاتی ہے تو پھر حب الوطنی پر اجارہ داری صرف اس کی ہوتی ہے۔ صولت رضا سے راہنمائی لیتے ہوئے میں یہ گزارش کروں گا کہ ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کا یہی طرز عمل پاکستان میں مستقل سیاسی افراتفری،  سماجی تزلی اور معاشی زوال کا ذمہ دار ہے۔
جناب صولت رضا نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے نظام عدل اور اعلیٰ ترین عدالتوں کے ججز کے کردار کو بھی اپنے مخصوص انداز تحریر میں بڑی خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے۔اس کی تحریر کے اسلوب کو آپ  ”نرم دمِ گفتگو“  قرار دے سکتے ہیں۔لیکن ان کی ضرب ہمیشہ کاری ہوتی ہے۔اپنے کالم  ”پچاس پونڈ وزنی کیک“  میں صولت رضا نے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے ججز پر اپنی قلم کمان سے خوب تیر برسائے ہیں۔انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کی توثیق کرنے والے فیصلے کا حوالہ دیاہے۔ جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ بھی اُن ججز میں شامل تھے جنہوں نے سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔پھر جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک کتاب لکھی جس میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ پر بھٹو کو سزائے موت دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کرنے کے لیے فوجی حکومت کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا۔صولت رضا نے جسٹس نسیم حسن شاہ کی کتاب کو ایک ”وعدہ معاف جج“  کی کہانی قرار دیا ہے۔ صولت رضا کو یہ بھی شکوہ ہے۔ (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -