انسانیت حسینؓ تیرے دم کے ساتھ ہے۔۔۔(کربلا مختلف مذاہب کے مفکرین اور شعراء کی نظر میں)

Jul 17, 2024 | 11:25 PM

طیبہ بخاری

 کربلا میں لازوال ابدی قربانیوں کا آغاز یوم عاشور کی صبح شبیہہ رسولؐ حضر ت علی اکبر 18سال کے کڑیل جوان کی اذان سے ہوا اوروقتِ نمازِعصر نواسہ رسولؐ ؐجگر گوشۂ حیدرؓ و بتولؓ امام الشہداء حضرت امام حسینؓ کے سجدے پر تمام ہوا ۔۔۔۔کائنات قیامت تک ایسی اذان اور ایسی نماز کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے گی بلکہ اس اذان اور نماز کے درمیان وقفے میں جس جوش و جذبۂ ایمانی سے خدائے بزرگ و برتر کے حضور اپنے خون سے شہادتوں کی تاریخ رقم کی گئی اسے یوم محشر تک ہر زمانے میں عقیدتوں بھری سلامی پیش کی جاتے رہے گی۔ نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتولؓ‘ فرزند مرتضیٰ حسین ابن علیؓ کی قربانی کوصرف مسلمانوں کیلئے مخصوص و محدود سمجھنا حسینیت کو نہ سمجھنے کے مترادف اور نا انصافی ہے ۔ اسے قرینِ انصاف کہا جائے یایوں کہا جائے کہ حسینیت انسانیت کی معراج، ہر رنگ و نسل کیلئے حق کا معیار، زندگی اور موت کو سمجھنے کا شعور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں ہر زبان ، ادب اور مذہب سے وابستہ انسان امام مظلومؓ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کیونکہ امام حسینؓ نے اپنے اصحابِ باوفا اور خاندان اہلِ  بیتؓ کی ہمراہی میں جو اصولوں کی جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا ہی نہیں کائنات پر نقش ہیں۔

آپؓ کے اصول اور آپؓ کی قربانی جہاں اسلام کی بقا ء کی ضمانت ہیں وہاں بلاتفریقِ مذہب و ملت اور علاقہ و ملک عدل و انصاف کی فراہمی‘ آزادی کے حصول‘ حقوق کی جنگ‘ فرائض کی ادائیگی‘ جذبہ ایثار و قربانی‘ عزم وہمت اور جوش وولولہ کے جاویدانی پیغام بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طبقۂ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپؓ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں ۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعراء نے امام حسینؓ کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا یہاں ان کی تفصیل پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مختصراً ذکر کرتے چلیں تو ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہارؓ کی شان بیان کرنے کی وجہ سے خاص شہرت حاصل ہوئی وہ کہتے ہیں

انسانیت حسینؓ تیرے دم کے ساتھ ہے

ماتھر بھی اے حسینؓ تیرے غم کے ساتھ ہے

انہی کاایک اور شعر کچھ یوں ہے کہ

مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے

مگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے

معروف مصنف تھامس کارلائل کربلا سے حاصل ہونیوالے درس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’کربلا کے المیے سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپؓ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔‘‘

ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے۔‘‘

حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے اپنی عقیدت کچھ اس طرح قلم بند کی کہ ’’امام حسینؓ صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ آپؓ نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فناءنہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔‘‘

جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کیلئے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔

جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے۔ آپؓ کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ آپؓ حضرت محمدؐ کے نواسے‘حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے بیٹے‘ لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں۔ آپؓ کے عظیم واعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتے تو آج حضرت محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا… یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔‘‘

مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں’’قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ء ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؓ نے جان دیدی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔

انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد لکھتے ہیں کہ ’’کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ آپؓ کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا‘ نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں‘ ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔

سوامی شنکر اچاریہ نے بھی امام عالی مقامؓ کو اپنے الفاظ میں یوں شردھانجلی پیش کی کہ ’’اگر حسینؓ نہ ہوتے تواسلامی تعلیمات ختم ہو جاتیں اور دنیا ہمیشہ کیلیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسینؓ سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں۔‘‘

مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر سہنانے لکھا ’’اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا کے شہیدوں میں امام حسینؓ کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے۔‘‘

ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ نے اپنے احساسات یوں بیان کیے کہ ’’حضرت محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے امام حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے۔‘‘

مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفہ حسینیتؓ میں یوں بیان کرتے ہیں’’زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقامؓ نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔

اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’ راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃعشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حضرت امام حسین ابن علیؓ کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمیؑ کی بنیادوں کو ہمیشہ کیلئے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔‘‘

معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں

ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر

ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی

اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین لکھتے ہیں

وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیتؓ کا غم

وہ پھوٹے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں

1918ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے طویل مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ ‘‘لکھاجس کاایک شعر پیش خدمت ہیں

 قرآں کلام پاک ہے شبیرؓ نور ہے

دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے

پنڈت ایسری پرشاد پنڈت دہلوی نے تو بہت کھل کر لکھا کہ

‏نکلیں جو غمِ شہ میں وہ آنسو اچھے
برہم ہوں جو اس غم میں وہ گیسو اچھے
رکھتے ہیں جو حسینؓ سے عداوت پنڈت
ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے

حکیم چھنومل دہلوی نے امام عالی مقامؓ کے حضور سلامِ عقیدت یوں پیش کیا

 سلامی کیا کوئی بیکار ہے جی سے گزر جانا

حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مرجانا

نہ آتا ہو جنہیں راہ حقیقت سے گزر جانا

حسینؓ ابن علیؓ سے سیکھ لیں وہ لوگ مرجانا

غم آل نبیؐ ممکن نہیں دل سے اتر جانا

نہ بھولیں گے کسی کا ہم جواں ہوتے ہی مرجانا

مٹانے سے کسی کے نام مٹ جائے ابھی کیونکر

ابھی تو رنگ لائے گا شہ بے کس کا مرجانا

سرکش پرشاد نے امام عالی مقامؓ سے  اپنی عقیدت کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا

حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتاکوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا

ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمت یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا

ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو۔

کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں

بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں

پابندِ شریعت نہ سہی گو کہ میں لچھمن

 ہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں

 عقل و آگہی کے انہی افکار ونظریات کو دیکھتے ہوئے جوش ملیح آبادی نے لازوال جملے کہہ ڈالے

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ

چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؓ

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں