پی ٹی آئی کے ابابیلوں کی تلخ پسپائی۔۔۔تحریکوں کو جھٹکے لگتے رہتے ہیں
تحریر: امتیاز عالم
اسلام آباد پہ تحریک انصاف کے نوجوان ابابیلوں نے جرأت مندانہ عوامی یلغار تو کی لیکن پردہ غیب سے مدد آئی اور نہ محترمہ بشریٰ بی بی کے موکل کسی کام آئے۔ جبرئیت اور ریاستی و ابلاغی یلغار کے باوجود 24 سے26 نومبر کو پی ٹی آئی کے نوجوانوں کا بے مثال یودھ پاکستان کی عوامی مزاحمت کی تاریخ میں ایک رزمیاتی مزاحمتی المیہ کے طور پہ یاد رکھا جائے گا، جب پی ٹی آئی کی غیر مؤثر اور گڈمڈ سوچ کی قیادت اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ سے ڈر کر اپنے نڈر کارکنوں کو بیچ میدان میں چھوڑ کر فرار ہوگئی۔ سچ تو یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور کو ادراک تھا کہ ریڈ زون کی جانب آگے بڑھنے کے کیا سنگین مضمرات تھے، لیکن وہ نہ صرف مشتعل نوجوانوں کے غول کے یرغمال بن گئے بلکہ بشریٰ بی بی کی ضد کے آگے بے بس ہوکے رہ گئے۔کوئی سٹیریٹیجی تھی نہ تدبیری ہوشیاری، بس ایک غصیلہ مجمع ریاستی اقتدار کو ڈھانے پہ بضد نظر آیا۔ منظم واپسی کی جو دانشمندانہ تجویز ڈی چوک کی بجائے سنگجانی کے متبادل مقام پہ دھرنا منتقل کرنے کے حوالے سے سامنے آئی وہ قیادت کے ذہنی انتشار کی نذر ہوگئی۔ اگر مجمع سنگجانی منتقل ہوجاتا تو پی ٹی آئی وہاں کئی روز یا ہفتوں دھرنا دے کر بیٹھ سکتی تھی اور عمران خان اور دیگر سیاسی اسیران کی رہائی کا مطالبہ شاید منوا سکتی تھی۔
قرائین سے یوں لگتا ہے کہ ڈراپ سین تب ہوا جب انتظامیہ نے پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کو بمعہ انکے جنات کے محفوظ راہ فرار فراہم کی اور وہ کارکنوں کو بے رحم حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر چلتے بنے۔ پھر رات کے اندھیرے میں نہتے کارکنوں کی خود کشانہ اور غیر منظم مزاحمت مسلح جارحیت کے سامنے بے بس ہوکر بکھر گئی۔ عمران خان کی "کرو یا مرو" کی فائنل کال پہ پختون خوا کے نوجوان تو سربکف ہوکر محاذ جنگ میں اُترے، لیکن پارٹی اور بے پیندے کی قیادت اس معرکے کے لیے تیار تھی نہ میدان میں سینہ تان کر کھڑی ہوئی۔ جبکہ پنجاب کی قیادت اپنے اپنے اضلاع میں انتظامیہ کی سخت گیری کے سامنے بے بس ہوکر رہ گئی۔ میدان سے بھاگنے کی بجائے اگر قیادت گرفتاریاں دے کر جیل بھرو تحریک شروع کرتی تو سیاسی بھرم رہ جاتا -لیکن "جنات "نے بی بی پیرنی کا ساتھ بیچ منجھدار کے ایسا چھوڑا کہ انہوں نے بھی بھاگ کر جان بچانے میں عافیت جانی۔ اب یہ قضیہ کیسے حل ہو کہ عمران خان تو سنگجانی میں جلسہ کرنے پہ راضی ہوگئے تھے تو بشریٰ بی بی کو غیر مرعی قوتوں نے ایسا کیا یقین دلایا کہ وہ ڈی چوک جانے پہ مصر رہیں؟ کہیں انکے “موکل” شایدخفیہ والوں کے بہکاوے میں تو نہیں آگئے تھے؟
اب جتنی بھی تاویلیں دی جائیں ایک کامیاب اور زور دارمظاہرہ خود پی ٹی آئی کی قیادت کی منتشر الذہنی کا شکار ہوگیا۔ریاستی اقتدار پہ قبضہ نعرے بازی اور کارکنوں کے پرزور احتجاج کے زور پہ نہ کیا جاسکتا تھا اور نہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکے لیے بنگلہ دیش جیسا عوامی اُبھار چاہیے۔،غالباً عمران خان کو پہلے یہ غلط توقع تھی کہ ملک اب بس دیوالیہ ہوا کہ ہوا یا پھر یہ کہ پاکستان میں بھی نوجوان بنگلہ دیش کی طرح راج سنگھاسن کو الٹا دیں گے۔ لیکن ناگفتہ بہ حالات اور ہائیبرڈ نظام کی سیاسی و اخلاقی کنگالی کے باوجود، عوامی ابھار نہ آیا اور فقط اپنے کارکنوں کے زور پہ انقلاب کی کوشش باریاب نہ ہوسکی۔ لیکن "سٹریٹ کوُ" کی یہ پہلی اور آخری ناکافی کوشش نہ تھی۔
9 مئی کے فوج مخالف مظاہروں کی غلط فہمی اور کمزوری کی طرح دارالحکومت پہ قبضہ کی غیر اعلانیہ غیر منظم کوشش بھی گمراہ کن گمان پہ مبنی تھی۔ آپ آئے روز دارالحکومت پر حملہ آور نہیں ہوسکتے، البتہ اپنے کارکنوں اور نوجوانوں کو تھکا تھکا کے نڈھال اور مایوس ضرور کرسکتے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی خون آشام پسپائی کیا روپ دھارے گی کسی نے سوچا ہے؟ وہ مذہبی انتہا پسندوں یا فسطائیت پسندوں کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں اور مستحکم جمہوریہ کیلئے عوامی جدوجہد کا ہراول دستہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ بات اب طے ہوگئی ہے کہ ریاست نے جو تلخ سبق انہیں سکھا یا ہے اس سے ان میں تلخی اور بغاوت کے جذبات بڑھیں گے اور دوسری طرف پی ٹی آئی کی جیل سے باہر قیادت انکے جارحانہ احتساب کے ہاتھوں غیر مؤثر ہوکے رہ جائے گی۔ خود عمران خان نے اپنی غیر سیاسی بیگم کو آگے کرکے باہر موجود قیادت کو عملاً فارغ کردیا- بچے ہیں تو صرف پختون خوا کے وزیر اعلیٰ اور وہ بھی اس لیے کہ وہ پچ کے دونوں جانب کھیلنے کے ماہر لگتے ہیں-
بطور ایک ترقی پسند جمہوریت پسند کے میں انتظامیہ کی بڑھک بازی اور لمبی پسپائی کے بعد اندھا دھند بربریت پہ بہت حیران ہوں۔جس ملک کے دو صوبوں میں خوفناک جنگ چل رہی ہو اور جس کی معیشت مانگے تانگے کے ڈالروں کی بیساکھیوں پہ کھڑی ہو، اسکی اعلیٰ قیادت اتنی زیادہ ہٹ دھرم ہوسکتی ہے کہ ملک کی سب سے پاپولر جماعت کو نہ صرف اتنا دیوار سے لگا سکتی ہے کہ وہ بغاوت پہ مجبور ہوجائے، بلکہ دارالحکومت میں مظاہرین کو داخل ہونے سے روکنے میں ناکامی پر انتہائی سفاکانہ ردعمل کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ پختون نوجوانوں کو جس بربریت کا شکار کیا گیا ہے، انکی تلخی کا کسی کو اندازہ ہے کہ کل وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں جسکی یہ مملکت متحمل نہیں ہوسکے گی۔ یوں لگا کہ ساری ذمہ داری وزیر داخلہ پہ ڈال دی گئی جس کا وژن اتنا ہے کہ ان کے بقول بلوچستان میں بلوچ بغاوت ایک ایس ایچ او کی مار ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی کا دھرنا پانچ منٹ کی فائرنگ سےکچلا جاسکتا ہے۔ پہلے تو وہ دارالحکومت اور پنجاب کو شٹ ڈاؤن کرکے (جو تحریک انصاف کا مدعا تھا) قلعہ بند ہوگئے اور مظاہرین انکی قلعہ بندیوں کو مسمار کرکے دارالحکومت کے مرکز میں براجمان ہوگئے۔پھر پانچ منٹ سے زیادہ کی فائرنگ اور نا جانے کتنی زندگیاں قربان کرکے بچگانہ بغاوت کو پسپا کردیا گیا۔
کسی نے سوچا ہے کہ اس تلخ تجربے کا نوجوانوں پہ کیا اشتعال انگیز اثر ہوگا۔ یا پھر اگر پولیس اور پیرا ملٹری فورسز قاہرہ کے تسکین سکوائر کی طرح مظاہرین کو گلے لگالیتیں؟ بظاہر لگتا ہے کہ خفیہ والوں کے ذریعے قیادت بمعہ پیرنی صاحبہ کو بھاگ نکلنے کا موقع فراہم کیا اور باقی کام پولیس اور پیرا ملٹری فورسز نے خوفناک انجام تک پہنچایا۔ اس دوران کامیابی ہوئی بھی تو سارے میڈیا کو یرغمال کرکے جس نے نہ صرف حقائق کو چھپایا بلکہ اپنے پراپیگنڈہ کی توپوں کا رخ اپوزیشن کے خلاف کردیا۔ سوشل میڈیا پر بندشوں کی یلغار نے سنسرشپ کی چادر تان دی۔
پی ٹی آئی نے زبردست سٹریٹ پاور کا مظاہرہ تو کیا ہے لیکن یہ کسی بھی طرح کے نظم و ضبط اور منصوبہ بندی سے عاری رہی اور ہے۔ غالباً 1968ء کے نوجوانوں کے عظیم اُبھار کے بعد، عمران خان نئی نسل کو اپنی شخصیت کے سحر میں لاکر متحرک کرنے میں تو کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس نسل کو انہوں نے کوئی واضح نظریاتی و جمہوری سمت نہیں دی۔ گزشتہ چند دہائیوں میں پرانے دور کی دو بڑی جماعتوں کے زوال پر ابھرنے والی تحریک انصاف عمومی جذباتی نعروں کے سوا کوئی جمہوری اورجدید فہم نہ دے سکی۔ عمران خان خود ایک نظریاتی مسافر رہے اور دنیا بھر کے پاپولسٹ لیڈروں کی طرح مختلف مکاتب فکر سے کھیلتے رہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ ایسے بڑے رہنما کے طور پہ سامنے آئے ہیں کہ وہ نئی عوامی و جمہوری تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔بقول انکے پاکستان دو ہیں: ایک مافیاز کا اور دوسرا محنت کرنے والے اور گم حقوق سے محروم عوام کا۔انہیں محروم عوام اور مڈل کلاس کی جمہوری و معاشی امنگوں کا پیغامبر بننا چاہیے۔ایک پوری نئی نسل ان پر فدا ہے اسے کوئی متبادل اورحقیقی تبدیلی کی راہ دکھائیں اور گالی گلوچ کے کلچر کی حوصلہ شکنی کریں۔
پی ٹی آئی کے نوجوانوں میں جوش و جذبہ بے انتہا ہے، ان کی سیاسی تعلیم اور تنظیم کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد تک مارچ کامیاب رہا۔ حالیہ دھچکہ عارضی ہے۔ پارٹی کو منظم کریں اور عوام کی آئینی بالا دستی اور عوام دوست قوانین کی عملداری کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔ ایک متبادل جمہوری و عوامی متبادل آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پارٹیوں اور تحریکوں کو جھٹکے لگتے رہتے ہیں، ان سے سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں