ترقی ،انا للہ وانا علیہ راجعون
’’ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات اس والد جیسی ہیں‘ جس کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں اور وہ اُٹھے اور بازار سے کھانے کے سامان لانے کے بجائے ایئر کنڈیشنر لے آئے‘‘ ملکی حالات اور حکمرانوں کے طرز عمل پر اپنے دوست کا یہ تبصرہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ بات اس نے غلط نہیں کی تھی۔ ہم ترقی تو کر رہے ہیں‘ لیکن یہ ترقی نہیں‘ ترقیء معکوس ہے‘ یعنی سفرِ رائیگاں۔ ایک لایعنی عمل۔ ہم چیزیں درآمد کر کر کے اپنے درآمدی بل کو بڑھاتے جا رہے ہیں اور اس حقیقت کو بالکل مدنظر نہیں رکھ رہے کہ ہماری مالی حیثیت اس کی اجازت دیتی بھی ہے یا نہیں۔
پاکستان ایک کنزیومر سوسائٹی بن چکا ہے۔ ہم خود کچھ تیار نہیں کرتے اور دوسروں کی تیارکردہ اشیا مہنگے داموں درآمد کرکے اس تعیش پر خوش ہوتے ہیں۔
تازہ خبر یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا یعنی ہم نے پچھلے گیارہ ماہ میں جتنی اشیاء برآمد کیں‘ ان سے 30ارب ڈالر سے زائد درآمد کر لیں۔گزشتہ سال جولائی سے امسال مئی کے دوران ملکی درآمدات 20 فیصد اضافے سے 48 ارب 54 کروڑ ڈالر جبکہ برآمدات 3 فیصد کمی سے 18 ارب 54کروڑ ڈالر رہیں۔ 30ارب ڈالر کا مطلب آپ سمجھتے ہیں؟ ہمارے زرمبادلہ کے قومی ذخائر اس وقت بیس تا اکیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں اور اس لحاظ سے یہ دنیا کا 57واں بڑا ملک ہے۔ بھارت اس لحاظ سے دنیا بھر میںآٹھویں نمبر پر ہے۔ لیکن بھارت ایک بڑا اور وسیع معیشت والا ملک ہے۔ اس کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تو بڑے ہونے ہی چاہئیں‘ لیکن یہ دیکھ کر حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ ہم سے 1971میں آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے ہم سے آگے۔ اس کے فارن ایکس چینج کے ذخائر32,556ملین ڈالر ہیں اور اس حوالے سے یہ دنیا بھر میں 46ویں نمبر پر ہے۔ درآمدات میں اس بے تحاشا اضافے کی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو قرار دیا جا رہا ہے کہ اس کے باعث ملک میں مشینوں اور پاور جنریٹرز کی درآمدات دھڑا دھڑ جاری ہے ۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل پیکیج اور دیگر کئی مراعات دیے جانے کے باوجود برآمدات میں اضافے نہیں ہوپا رہا۔
ملک میں توانائی کا بحران، روپے کی قدر میں کمی اور امن و امان کی صورتحال تجارتی خسارے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ غیر متوازی برآمدات اور درآمدات کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ملک میں توانائی کا بحران ہے۔ توانائی کے بحران کے باعث نہ صرف برآمدات متاثر ہوئی ہیں بلکہ پیداوار بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی اور مقامی منڈی میں قیمتوں میں ردو بدل کے نتیجے میں بھی برآمدات اور درآمدات میں توازن نہیں رہتا۔ کمزور معیشت کی وجہ سے ہمارا ملک منڈیوں میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں تیل اور مشینری کے قیمتوں میں اضافے کے باعث ہمارے درآمدات کا بل بڑھ جاتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے باعث برآمدات سے ہمارے منافع میں کمی ہو رہی ہے جبکہ درآمدات کے بل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان بیورو شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں مسلسل کمی کا رجحان پایا جارہا ہے۔ قالین، کھیلوں کے سامان، خام چمڑے و چمڑے کی مصنوعات، طبی وجراحی آلات، انجینئرنگ گڈز، جیمز، جیولری،سیمنٹ اور دیگر پاکستانی اشیا کی غیر ملکی طلب بھی کم ہوگئی ہے۔ دوسری طرف بیرون ملک سے اشیا منگوانے کا سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔مشینری کی درآمد انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے منصوبوں کی تعمیر کے لیے بھی مشینری درآمد کی جارہی ہے۔ ٹرانسپورٹ کی درآمد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ زرعی اشیا، دھاتیں، ٹائروٹیوب، پیپر اینڈ بورڈ سمیت ایسی ہی دیگر متعدد اشیا باہرسے منگوانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ پی بی ایس کے مطابق جولائی2016سے فروری2017 تک خوراک بشمول نوزائیدہ بچوں کے دودھ، خشک میوے، پام آئل،دالوں کی درآمدات میں 13.47 فیصد اضافہ ہوا۔
درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی یکدم واقع نہیں ہو گئی۔ پچھلے کئی برسوں سے مشاہدے میں آ رہا تھا کہ ہماری درآمدات بڑھ رہی ہیں‘ جبکہ برآمدات میں اس نہایت تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ ابھی تین ماہ پہلے کی خبر ہے کہ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ 34 فیصد بڑھ گیا۔رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران پاکستان کو اشیا ء کی بیرونی تجارت میں 20 ارب 20 کروڑ ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا رہاجبکہ گزشتہ سال اس عرصے کے تجارتی خسارے کا حجم 15 ارب 4 کروڑ ڈالر تھا۔ لیکن افسوس کہ اس توازن کو درست کرنے یا کم از کم مزید بگڑنے نہ دینے کے سلسلے میں کچھ بھی ٹھوس نہ کیا گیا۔ پچھلے سال وضع کی گئی تجارتی پالیسی میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں‘ لیکن یہ اقدام کافی اور مفید ثابت نہ ہوا۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ دوسرے ممالک کے ساتھ ہماری تجارت کا حجم ہمارے زرمبادلہ کے قومی ذخائر سے بڑھ چکا ہے۔ اس خسارے کو سی پیک سے منسلک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک سے ابھی ہمیں حاصل کچھ بھی نہیں ہوا‘ لیکن ہماری درآمدات کا بل ہماری بچتوں سے بھی بڑھ چکا ہے۔ ان حالات میں اگر لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں اگر یہ سوال ابھرے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد حالات کس نہج تک پہنچ جائیں گے؟ تو بے جا نہ ہو گا۔
حال ہی میں عوام کو یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کو کمپیوٹرائزڈ کردیا گیاہے۔ درآمد اور برآمد کنند گان آن لائن فارم پْرکرکے مالیت ایف بی آر کو بتاسکیں گے۔ اس عمل سے ٹیکس کٹوتی اور ٹیکس ریفنڈ کا تعین خود بخود ہوجائے گا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط گزشتہ دنوں کئے گئے اور اس موقع پر وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ایک بار پھر یہ بتانا فروگزاشت نہیں کیا گیا کہ اب پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جارہاہے ۔ بالکل درست لیکن بہتر ہو کہ اس فقرے کو درست کر لیا جائے۔ یہ کہا جائے کہ پاکستان کی درآمدات کو کمپیوٹرائزڈ کردیا گیاہے‘ کیونکہ جس تیزی سے ہماری برآمدات کا گراف نیچے گر رہا ہے‘ عنقریب یہ صفر ہو جائے گا ۔ ہم قرضے لے کر خسارے کے بجٹ پیش کرتے ہیں۔ مقرر کئے گئے پیداواری اہداف سال میں کئی بار تبدیل کرتے ہیں اور پھر بھی پورے نہیں کر پاتے اور دعویٰ یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان جی ایٹ یا جی ٹین میں شامل ہو جائے گا۔ ہم ترقی کی دوڑ میں بنگلہ دیش کا مقابلہ تو کر نہیں پائے‘ جی ایٹ تک کیسے پہنچیں گے؟ اس موقع پر تو انا للہ وانا علیہ راجعون ہی پڑھنا چاہئے.
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔