لاہورکاکرکٹ گراؤنڈ اورآوارہ کتے

لاہورکاکرکٹ گراؤنڈ اورآوارہ کتے
لاہورکاکرکٹ گراؤنڈ اورآوارہ کتے

  

جوگنگ ٹریک کا نام لیں توکتوں کا تصوربالکل بھی نہیں آناچاہیے بلکہ جوگنگ ٹریک کا نام لیں تو ایک محفوظ راستہ ذہن میں آتا ہے جسے جوگنگ کرنے والوں کے لیے خاص طورپرتیارکیاجاتاہے،دنیابھر کے پارکس میں یہ ٹریک ہوتےہیں مگرمیں آپ کو لاہور کےٹاؤن شپ کرکٹ کلب کےگردبنےایک انوکھےٹریک پر شہریوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرنے لگاہوں۔


میراگھرماڈل ٹاؤن پارک اور ٹاؤن شپ کرکٹ گراؤنڈ کے درمیان ہے،یہی وجہ ہے کہ مجھے صبح کی سیر کیلئے ان پارکوں میں جانے کا موقع ملتاہے،کبھی کرکٹ گراؤنڈ ٹاؤن شپ توکبھی ماڈل ٹاؤن پارک۔۔۔ماڈل ٹاؤن پارک میں جونہی داخل ہوں تو آپ کو ایک عالمی معیارکے تفریحی پارک کا تاثر ملتاہے،آپ جوگنگ ٹریک پر ہوں یا پھر پارک کے کسی بھی حصے میں،محفوظ،پرفضااورپرسکون ماحول آپ کو مجبورکرتاہے کہ آپ مزید کچھ وقت یہی گزاریں،دوسری جانب کرکٹ گراؤنڈ ٹاؤن شپ چاہے کرکٹ کیلئے ہی بنایاگیاہے مگر گردونواح کی آبادیوں کے لیے یہ ٹریک بھی ڈیزائن کیاگیاتاکہ لوگ یہاں جب چاہیں آکرواک کریں اور اپنی صحت کو بہتر رکھ سکیں۔یہ جوگنگ ٹریک ہموار نہیں اوردھول بھی اتنی ہےکہ خواتین کاعبایہ،مردوں کےجوگراورٹریک سوٹ خراب ہوجاتے ہیں مگریہ پھر بھی کسی حد تک قابل قبول ہے کہ جسےیہاں واک کرناپسندہےوہ کرے ورنہ ماڈل ٹاؤن پارک میں جائے یا پھر کسی اور جگہ چلا جائے،یہاں سب سے خطرناک صورتحال سرعام دندناتے خطرناک آوارہ کتے ہیں۔
دیگرپارکس میں خوبصورت پھول پودے اور ہشاش بشاش چہرے گویا آپ کا استقبال کرتے ہیں مگریہاں کے وحشی کتے اور ان کتوں کے بچےآپ کا کسی خوفناک فلمی منظر کی طرح استقبال کرتے دکھائیں دیتے ہیں۔ گراؤنڈ کی ایک طرف منہاج یونیورسٹی ،ایک طرف ڈاکٹرطاہر القادری کامدرسہ،ایک طرف اخوت فاؤنڈیشن کا دفتراور اس کے گردونواح کچی آبادی اور ٹرکوں کا اڈہ ہے،ٹرکوں کا اڈہ ان کتوں کی آماجگاہ ہے جہاں کتوں  کے جوڑے اپنی نسل بڑھانے کا عمل بھی آغازصبح سے ہی شروع کردیتے ہیں،یہ ایک انتہائی شرمناک بات ہے مگر یہ بات کتوں کو تو سمجھائی نہیں جاسکتی،جانورکوشعورہو تو وہ یہ عمل کسی خاص وقت پر کریں اورانسانوں کے گھومنے والے جوگنگ ٹریک سے بھی دور ہی رہیں تاکہ انہیں کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ ہو۔
نجانے ان کتوں کی صبح صبح لڑائی کس بات پر ہوتی ہے کہ  سڑک پر کھڑی کسی گاڑی، ٹرک اور کسی جھاڑی سےایک دم  چار پانچ کتے خوفناک آوازیں نکالتے اور ایک دوسرے کو کاٹتے،بھونکتےنظرآتے ہیں اور پاس سے گزرنے والے شہریوں کو بھی خونخوار نظروں سے دیکھتے ہیں،گویا زبان حال سے شاید وہ  یہ کہتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب یہاں صرف  کتے ہی ہوں گے ،انسانوں کا داخلہ بندکردیں گے۔
اکثر خبروں میں دیکھاجاتاہے کہ فلاں شہر،فلاں علاقے میں آوارہ کتوں نے کاٹ لیا،کہیں بچے،کہیں خواتین اور کہیں بزرگ شہری کتوں کے نوکیلے دانتوں سے زخمی ہوجاتے ہیں، کئی علاقوں میں تو لوگ جان سے بھی جاتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک اہم جگہ  کتوں کے غول پھررہے ہیں،اس خطرناک صورتحال کا ابھی تک انتظامیہ کو علم کیوں نہیں ہوا؟۔۔ابھی تک یہاں کتا مار مہم شروع کیوں نہیں ہوسکی؟اس چھوٹے  مگراہم مسئلے پر بھی کیا وزیراعلیٰ پنجاب کو شکایت کرنا پڑے گی یا لاہور کے انتظامی افسران ہی اس مسئلے سے فوری نمٹ لیں گے؟۔۔

کیا یہ سطور ہی بطور شکایت نوٹ کرکے کتا مار مہم شروع ہوگی یا پھراس کے لیے باقاعدہ درخواست لکھ کردینا پڑے گی،جوبھی کرناہےفوری کرلیں مگرٹاؤن شپ کرکٹ گراؤنڈ سمیت جہاں کہیں بھی آوارہ کتےہیں،انہیں تلف کرنے کا بندوبست کریں تاکہ شہری محفوظ رہ سکیں۔


بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -