جناب وزیراعظم صاحب وقت جا رہا ہے (2)

نظام کیسے بدل سکتا ہے؟…… وزیراعظم صاحب آپ جانتے ہیں، بلکہ اس ملک کا ہر ایک بندہ جانتا ہے کہ جب سے ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تھا، اس وقت سے اب تک ملک کی کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور جمہوریت کی گاڑی اگر کبھی پٹڑی پر چڑھتی بھی ہے تو اسے منزل کا پتا نہیں ملتا۔ اب اس کے لئے (Navigation) کی ضرورت ہے اور وہ ایک مربوط نظام ہی سے ممکن ہے۔ آج تک جتنی جمہوری حکومتیں آئی ہیں، ان کو مختلف غیر حقیقی مسائل میں الجھایا جاتا رہا ہے، اسی طرح وہ کبھی وقت پورا نہ کر سکیں اور اگر 5 سال پورے کر بھی لئے تو ملک کے لئے کچھ نہ کر سکیں، بلکہ اپنی مدت پوری کرنے کے سوا کچھ سوچنے کی مہلت بھی نہ پا سکیں۔ اب آپ کی حکومت کا وقت بھی بہت تیزی سے گزر رہا ہے، آپ کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس سے بہتر وقت نہ تو کسی کو ملا، نہ مل سکتا ہے کہ ادارے آپ کے ساتھ ہیں، حزب اختلاف ہے نہیں، اگر کہیں ہے بھی تو بہت ہی کمزور ہے۔ اس وقت پنجاب کے اندر آپ کے حریف سب سے کمزور ہیں۔ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر آپ کو لیڈر کوئی نہیں مانے گا۔
وزیراعظم صاحب سب سے پہلے قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوانوں سے مخلص، اہل اور ایماندار ساتھیوں کا چناؤ کر کے انہیں مختلف ریاستی اداروں کی سمت درست کرنے کا کام وقت کی پابندی کے ساتھ سونپ دیں، اگر آپ کی نظر میں ایسے ساتھی نہیں ہیں تو پھر میرا مشورہ ہے کہ دنیا کے طول و عرض پر پھیلے تارکین وطن پاکستانیوں میں سے ہر شعبے کے ماہر پاکستانیوں سے بات کی جائے اور انہیں پاکستان لا کر خاموشی سے ملکی بہتری کی پالیسیوں کا کام سونپ دیا جائے۔ وہ صرف تھنک ٹینک کا کام کریں اور ان کی سوچ کو قانون میں بدلنے اور نافذ کرنے کا کام قومی اسمبلی اور ایوان بالا سے لیا جائے۔ سب سے پہلے جس قانون سازی کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ ایک بل کے ذریعے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران پر ترقیاتی فنڈز لینے پر پابندی لگائی جائے اور ان کو قانون سازی اور منصوبہ بندی کے کام پر توجہ دینے تک محدود کیا جائے،کیونکہ وطن عزیز میں ضیاء دور سے جو روایت چل رہی ہے، یعنی نظریے کی بجائے پیسے کی سیاست…… پہلے ایک امیدوار کروڑوں روپے خرچ کر کے انتخاب جیتنے کی کوشش کرتا ہے،اگر جیت جائے تو پھر حکومت سے ترقیاتی فنڈز کے نام پر کئی کروڑ منظور کروا کر اپنے قریبی لوگوں کے توسط سے اپنے حلقے میں سکیمیں دینے اور اس سے مال بنانے کا کام کرتا ہے، اس طرح وہ اگلا الیکشن جیتنے کی بنیاد رکھتا ہے۔ اب ووٹر کی بھی عادت بن چکی ہے کہ وہ بھی ترقیاتی فنڈز میں سے اپنا حصہ کسی ترقیاتی منصوبے کی شکل میں یا نقدی کی شکل میں وصول کرتے ہیں۔ اس سلسلے کو قانون سازی اور مربوط پروگرام سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کا کام ملکی ترجیحات کے مطابق منصوبے بنانا اور ان کو قانون کی شکل دینا ہے، باقی کام ریاستی اداروں کا ہوتا ہے۔
دوسرا کام جو آپ کے کرنے کا ہے، وہ ملک کے اندر ایک مربوط اور قابل عمل ٹیکس کا نظام ہے، اس کے لئے بھی آپ ان ممالک سے تارکین وطن کو بلوا سکتے ہیں،جن ممالک کے ٹیکس کا نظام سب سے بہتر ہے۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ بہت زیادہ بندے بھرتی کرنے کی بجائے ٹیکس نظام کو کمپیوٹرائز کیا جائے اور ابتدا میں مقررہ ٹیکس کا نظام بہت ضروری ہے، لیکن یہ نظام دکان کے سائز کے حساب سے نہیں، بلکہ دکان کی مارکیٹ اور سیل کے مطابق مقرر کیا جائے، اس کے لئے کمپیوٹر پروگرام کے ماہرین اور ایماندار لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہر شہر کو مختلف زونز میں تقسیم کر کے ایک سال کی مدت میں ملک کا تمام کاروبار کمپیوٹرائز کیا جا سکتا ہے اور آئندہ نیا کاروبار شروع کرنے سے پہلے رجسٹریشن کی شرط رکھی جائے۔ موجودہ انکم ٹیکس کے ادارے سے چھانٹی کرنے اور ملازمین کی نئے سرے سے تربیت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
تیسرا کام یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صفائی، جدید تربیت اور ان کی بھرتی کے نظام کو شفاف بنا کر ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر اور قابل اعتبار بنایا جائے، اس کے لئے بھی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ان اداروں کا آپس میں مربوط ہونا بھی بے حد ضروری ہے، ان کی تربیت بھی ایک جیسی ہو اور ان کے رابطے بھی مضبوط ہوں، تاکہ ملک سے جرائم کی بیخ کنی کی جا سکے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ عام آدمی کو نہ تو ان اداروں پر اعتماد ہے، نہ عدالتیں ان پر اعتبار کرتی ہیں۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوگا، اس وقت تک لوگ قانون کی پاسداری نہیں کریں گے۔ اس کام کے لئے تو عرب ممالک کے نظام کا ماڈل بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ چوتھا جو کام کرنے والا ہے، وہ ہے عدالتی نظام کی تطہیر…… ہمارا عدالتی نظام عوام کو سستا اور فوری انصاف دینے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے وطن عزیز میں جرائم کی شرح بہت بلند ہے۔ اس کے لئے بھی ملکی اور غیر ملکی ماہرین اور چیف جسٹس صاحب کے ساتھ مل کر ایک ایسا نظام عدل وضع کیا جائے جس میں ایک مخصوص مدت کے اندر مقدمات کے فیصلے ہوں اور لوگوں کو انصاف ملے۔
اس کے لئے ملک کے طول و عرض پر اچھی شہرت کے شہریوں پر مشتمل مصالحتی کونسل یا اعزازی عدالتیں بھی قائم کی جا سکتی ہیں،تاکہ عدالتوں اور تھانوں پر کام کا بوجھ کم کیا جا سکے، عدالتوں میں ججوں کی تعداد بھی مقدمات کی تعداد کے مطابق کی جانی چاہیے اور ججوں کو وقت کی پابندی کی ہدایات ہوں۔ سائلین کو بلاوجہ تاریخوں کی بجائے ایک ہی مقررہ تاریخ پر مقدمے کی سماعت کر کے فیصلے سنائے جائیں،اس طرح کچہریوں سے رش بھی ختم کیا جا سکتا ہے……ابھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھنا باقی ہے، لیکن مَیں اس کالم کو یہی ختم کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب کے اقدامات کا منتظر رہوں گا۔ وزیراعظم صاحب کی ایمانداری(صادق و امین) کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے وعدے کے مطابق نیا پاکستان یا پرانے پاکستان کا نظام ٹھیک کریں یا پھر استعفا دے کر آئندہ آنے والوں کا کام بھی مشکل کر دیں۔ (ختم شد)