I Salute to Pak Army

الحمد للہ ٹرین حملے کا آپریشن اختتام کو پہنچا لیکن ملک دشمن عناصر کا حملہ اور فوجی آپریشن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ان آستین کے سانپوں کے منہ پر زور دار طمانچہ تھا جو اٹھتے بیٹھتے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں،ان کی خدمت میں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر ہمارے ملک میں فوج نہ ہوتی تو ہمارا حشر بھی غزہ کے بے بس اور بے سہارا مسلمانوں جیسا ہوتا۔ بطور خاص میں تحریک انصاف کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ہرروز افواج پاکستان کے خلاف بھارتی اور افغانی زبان بول کر تنقیدکرتے ہیں تو آپ کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے۔ اگر ہم رات کو پرسکون گہری نیند سوتے ہیں اور دن میں بھی کوئی بری نظر سے نہیں دیکھ سکتاتو یہ سب کچھ پاک فوج کا مرہون منت ہے جو بھارتی اور افغانی سرحدوں پر چوبیس گھنٹے چوکس اور مستعد نظر آتی ہے۔اگر کو ئی وطن عزیز پر حملہ کرنے کا تصور بھی کرتا ہے تو اسے پاک فوج کی جنگی تیاریوں اور بہادری کا بخوبی علم ہوتا ہے اس لیے دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم اسی جگہ رک جاتے ہیں۔سچ تویہ ہے کہ ہم سب پاکستانیوں کو رب کا شکرادا کرنا چاہیئے۔ گذشتہ عید پر ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر نے کنٹرول لائن پرموجود فوجی جوان کا انٹرویو کیا اور پوچھا کیا آپ کو اپنے بیوی بچے یاد نہیں آرہے؟ کیا آپ نہیں سوچتے کہ اگر میں اپنے گھر ہوتا تو اپنی فیملی کے ساتھ عید مناتا۔؟فوجی جوان نے جواب دیا۔کس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر عید کا دن گزارے،لیکن ہم یہاں وطن عزیز کے 24کروڑعوام کے تحفظ کے لیے سینہ تان کردشمن کے سامنے کھڑے ہیں،اگر ہم بھی اپنی فیملی میں جابیٹھیں تو کیاخالی سرحدوں پر دشمن یلغار نہیں کرے گا۔؟لیکن ایک بات پر ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے کہ سیاست دان ہماری جانی ومالی قربانیوں کے باوجود فوج پر تنقید کرتے ہیں توان کی زہرآلود گفتگو ہمارے سینے کو چھلنی کرتی ہے۔ہم دشمن سے ہرگز خوفزدہ نہیں کیونکہ شہادت ہمارا نصب العین ہے۔اس فوجی جوان نے مزید کہا کہ جب سیلاب کی آفت نازل ہوتی ہے تو عوام کی جان و مال اور املاک کے تحفظ کے لیے سوائے فوج کے اور کون آگے بڑھتا ہے۔اگر خدانخواستہ ملک میں زلزلہ آتا ہے تو سب کی نظریں فوج کی طرف کیوں اٹھتی ہیں؟فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو دکھی انسانیت کی مدد کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے۔اگر بھارت،پاکستان پر حملہ کردے تو کیا ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں میں بیٹھ کر زہراگلنے والے سیاست دان دشمن کا مقابلہ کرینگے؟رپورٹر سے مخاطب ہو کر اس فوجی جوان نے کہا 1965ء کی جنگ میں کیا پاک فوج کے مٹھی بھر جوانوں نے جدید ترین اسلحے کے بغیر اپنے ملک اور عوام کا تحفظ نہیں کیا تھا۔؟1971ء کی جنگ سیاست دانوں کے حریص پن کی وجہ سے ہاری،لیکن فوج کے افسر اور جوان بے یارومددگار میدان جنگ میں لڑتے رہے۔پھرسیاچن دنیا کے بلند ترین محاذ پر کیا سیاست دانوں نے جا کر وطن عزیز کا دفاع کیا تھا یا پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے دشمن کے ساتھ ساتھ برفانی طوفان اور برفانی تودوں کی زد میں آکر جانیں قربان کرکے شاہراہ قراقرم کی حفاظت کی تھی۔اس وقت سے لے کر آج تک سیاچن میں درجنوں فوجی افسر اور سینکڑوں فوجی جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش چکے ہیں۔یہاں میں ایک نوجوان کیپٹن کی اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں،جب میں نے ان سے پوچھا اگر آپ کو یہاں بیٹھے بٹھائے سیاچن جانے حکم ملے تو آپ کے کیا تاثرات ہونگے۔ کیپٹن نے یہ جواب دے کر مجھے حیران کردیا اگر ایسا ہوا تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی۔معرکہ کارگل تو یقینا سب کو یاد ہوگا جہاں سرد ترین موسم کے خوف سے بھارتی فوج بلند ترین مقام پر اپنے مورچے خالی کرکے سری نگر چلی گئی تھی توہائی کمان کے حکم پر کیپٹن (کرنل)شیرخان،حوالدار لالک جان سمیت سینکڑوں پاکستانی فوجیوں نے ان بھارتی مورچوں پرنہ صرف قبضہ کیا تھا بلکہ وہاں کے بدترین اور سخت ترین موسم سے دست بدست جنگ بھی لڑی تھی اور خود کو مقابلے کے دن تک زندہ رکھا،پھر موسم بہتر ہونے پر بھارتی فوج اپنے کنکریٹ کے مورچوں پر واپس آنے لگی توپاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے سب کو جہنم واصل کردیا اور کارگل کی بلندچوٹیوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔اس جنگ میں بھارتی فوج اور فضائیہ کو بدترین شکست بھی دی بلکہ دنیا کی تاریخ میں بلندترین پہاڑی محاذ پر کامیابی سے جنگ لڑکر یہ ثابت کردیا کہ پاک فوج دنیا کی بہترین جنگجو فوج ہے جو مشکل سے مشکل ٹارگٹ کو حاصل کرنا بھی جانتی ہے۔کیاآپ نے کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں افغان اور بھارتی دہشت گرد ہر روز عوام دشمن کاروائیاں کرتے ہیں،ان کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کی ذمہ داری کیا کوئی سیاست دان پوری کرتا ہے یا فوج کے افسراور جوان ہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دشمن کے مکروہ عزائم کو خاک ملاتے ہیں۔اب بلوچستان میں ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس پراس وقت حملہ کیا جب ٹرین سرنگ اور تنگ راستوں کو عبور کررہی تھی،دونوں جانب بلند و بالا پہاڑ ی سلسلے موجود تھے،دور دور تک نہ انسانی آبادی تھی اور نہ ہی کوئی سڑک قریب تھی،جو سڑک موجود تھی وہ 24کلومیٹر دور تھی۔دہشت گردوں نے دانستہ تنگ وتاریک علاقے کا انتخاب کیا تھا،جہاں پر پہنچنا اور یرغمالی مسافروں کو دہشت گردوں سے بچانا تقریبا ناممکن تھا۔میں ایک پاکستانی شہری کی حیثیت بتاتاچلوں کہ جس شام مجھے اس سانحہ کے خبرملی،اسی وقت ہی تڑپ کررہ گیا اور میں اس وقت تک پرسکون نہیں ہوا جب تک یہ خبر مجھ تک نہیں پہنچی کہ الحمدللہ کہ فوج، فضائیہ،ایف سی اور ایس ایس جی کے جوانوں نے دشوار گزار علاقے میں ناممکن آپریشن کرکے نہ صرف مغوی مسافروں کو بحفاظت رہا کروا لیا بلکہ تمام دہشت گردوں کو خود کش جیکٹوں سمیت جہنم واصل کردیا۔