پنجاب پولیس کا مقدمہ

پنجاب پولیس کا مقدمہ
 پنجاب پولیس کا مقدمہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا کچے کے علاقے میں چھوٹو گینگ سے اپنے اہلکاروں کو شہید کروانے اور یرغمال بنوانے والی مشہور زمانہ پنجاب پولیس کا مقدمہ لڑا جا سکتا ہے جس کا ایس ایچ او فرعون اور سپاہی کرپٹ سمجھا جاتا ہے، اس کا مقدمہ پنجاب کے حکمران اور سیاستدان نہیں لڑتے تو ایک صحافی کیسے لڑ سکتا ہے اورحکمران بھی کیسے لڑیں کہ کیا انہوں نے پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اب تک کوئی اقدامات کئے ہیں۔ ایک منٹ ٹھہرئیے گا اور براہ مہربانی مجھے ایلیٹ فورس، ریپڈ رسپانس فورس اور ڈولفن جیسی مثالیں مت دیجئے گا کہ یہ تو آپ نے مصائب اور مشکلات کی شکار پولیس کے درمیان خوشحالی اور پروپیگنڈے کے جزیرے قائم کر دئیے ہیں، اس کا عام پولیس اہلکار اور اس کی نوکری کے تلخ نظام کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ یہی کام تو آپ نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں کیا ہے۔ بنیادی ڈھانچے اور نظام کی ایسی تیسی کرتے ہوئے ہمیں دکھانے کے لئے لیپ ٹاپ سکیم اور دانش سکول بنا چھوڑے ہیں ، ایڈہاک ازم کو توانا کیا ہے اور ہم انہیں دیکھ دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں۔ عمران خان سمیت دوسروں نے بجاطور پر پنجاب پولیس کو مطعون کیا کہ اسے گالی دینا ہی فیشن ہے مگر کیا آپ نے دیکھا کہ جس اعلیٰ ادارے کے مقابلے میں آپ پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی تذلیل کر رہے ہیں، ان کے بجٹ ، تربیت اور سہولیات میں کتنا فرق ہے؟ بیس، تیس ہزار روپے ماہانہ تک میں ایک گندے سے صندوق کے ساتھ ایک گندے سے کمرے میں رہتے ہوئے سولہ ، سولہ گھنٹے ڈیوٹی دینے والے کانسٹیبل سے آپ جرائم پیشہ افراد کے مقابلے کا سوچتے ہیں، آپ بھی کتنے سیدھے ، سچے اور معصوم ہیں۔مجھے بتائیے کہ ایک کانسٹیبل اور ایک ایس ایچ او کا اس میں کیا قصور ہے کہ آپ نے پولیس کا سربراہ اس شخص کو لگا رکھا ہے جس کے میرٹ، ڈسپلن اور پروفیشنل ازم کے سامنے بہت سارے سوالیہ نشان ہیں۔ میں مشتاق سکھیرا کی ذات کی نہیں ، آئی جی کے عہدے کی بات کر رہا ہوں جس کی کمانڈ اورگورننس یہ ہے کہ پنجاب پولیس سے ہی اہلکاروں کے ساتھ ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے سب سے زیادہ معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں اور عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے والوں کے لائے ہوئے فیصلوں کو سب سے زیادہ ردی کی ٹوکری میں پولیس کی افسر شاہی ہی ڈالتی ہے۔ کچے کے علاقے میں بدترین حکمت عملی کے ساتھ آپریشن شروع کرنے کی ذمہ داری یقینی طور پر آئی جی پنجاب پر ہی عائد ہوتی ہے مگر جب وہ کہتے ہیں کہ وہ اس آپریشن میں آن بورڈ ہی نہیں تھے تو پھر کوئی نہیں پوچھتا کہ کیوں نہیں تھے۔آپ پولیس کو برا بھلا کہتے رہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا پولیس کو باہر رکھتے ہوئے کوئی بھی آپریشن کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی علاقے سے انٹیلی جنس گیدرنگ کے لئے اب بھی سب سے بہتر وہی کانسٹیبل ہے جسے آپ سب سے برا، گندا اور کم تر سمجھتے ہیں۔ یہ کانسٹیبل ناکے پر بغیر کسی سیکورٹی اور جدید اسلحے کے سولہ ، سولہ گھنٹے کھڑا رہتا ہے اور اس کی پرفارمنس کا مقابلہ لاہور کے پل کراس کرتے ہوئے ناکوں پر کھڑے ہمارے ان جوانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کی ڈیوٹی ہر چار گھنٹے بعد بدل جاتی ہے۔ ا ن کے پاس جدید ترین اسلحہ ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی تربیت ،تنخواہ اور مراعات بھی بہت بہتر ہوتی ہیں۔ آپ نے کوئیک رسپانس فورس اور ڈولفن والوں کو اچھی تنخواہیں دے دیں اور سوچا کہ اس سے پولیسنگ بہتر ہو گی مگر اس سے عام کانسٹیبل ، محرر اور اے ایس آئی جیسے اہلکاروں میں احساس محرومی مزید بڑھا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے یوں پنجاب پولیس کو برا بھلا کہا جیسے تمام برائیوں کی جڑ یہی ہے، کیا دلچسپ بات ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے صوبے کی پولیس کی بے عزتی کرتے ہیں اور عمران خا ن اپنی پولیس کی مارکیٹنگ کرتے ہیں حالانکہ اگر پنجاب سے اعلیٰ شخصیات کے بیٹے اغوا اورقیمتی گاڑیاں چوری ہوجائیں تو ان کے لئے ڈیل پشاور اور کوہاٹ میں ہوتی ہے۔ منشیات کے ساتھ ساتھ ناجائز اسلحے کی بات ہو تویہ سوغاتیں قبائلی علاقوں سے خیبرپختونخوا کا سفر طے کرتے ہوئے پنجاب پہنچتی ہیں۔ خود کش حملہ آوروں کی فیکٹریاں بھی انہی علاقوں میں لگی ہوئی ہیں۔ پشاور کے صحافی باباگل کی رپورٹیں پڑھ لیں،کراچی میں آپریشن شروع ہونے کے بعد پشاور اور اس کے ملحقہ علاقے دہشت گردوں کی محفوظ کمین گاہیں بن گئے ہیں مگر وہاں کے سیٹلڈ ایریاز میں کسی آپریشن کی بات تک نہیں کی جاتی جو کہ عمران خان کی دوسروں پر چڑھائی کی سیاست کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ نون لیگ ہو یا پنجاب۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ دفاعی پوزیشن پر رہنا پڑتا ہے۔ مجھے خیبرپختونخواہ کے علاقے میں بہت سارے قلعے نما گھروں کے بارے بتایا گیا کہ یہ فلاں سمگلر کا گھر ہے اور یہ دوسرے فلاں سمگلر کی رہائش گاہ ہے ، انہی سمگلروں نے کے پی کے ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کی معیشت کا بھی بیڑہ غرق کر رکھا ہے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر خیبرپختونخوا کی پولیس ذمہ دار اور پروفیشنل ہو، اپنے علاقے کے جرائم پیشہ لوگوں کو روکنے ، پکڑنے او رکیفر کردار تک پہنچانے کی اہل ہو توہمسایہ صوبے پنجاب میں ہونے والے جرائم میں بھی پچیس سے پچاس فیصد کمی ہوجائے۔


کیا دلچسپ امر ہے کہ بہت سارے اینکرز بھی پنجاب پولیس بارے عمران خان صاحب کے لہجے اور طریقے میں ہی بات کرتے ہیں۔ وہ لاہور اور اسلام آباد کے ٹھنڈے اور محفوظ سٹوڈیوز میں بیٹھ کے کچے کے علاقے کے ماہر بنتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پولیس نے وہاں بہت زیادہ غلطیاں کی ہیں۔یہی چہرے ایک روز پہلے کراچی کی سیاست کے ماہر ہوتے ہیں، دوسرے روز پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے ایکسپرٹ بن جاتے ہیں اور تیسرے روز کچے کے علاقے اور پولیس مقابلوں بارے ماہرانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ عموماً یہ وہی تجزیہ کار ہوتے ہیں جن کے ساتھ متعلقہ فیلڈ کے لوگوں کو نہیں بٹھایا جاتا اور اگربلانے کی زحمت کی جاتی ہے تو صرف ان کو جنہیں ٹی وی پر اپنی تصویر دیکھنے اور آواز سننے کے شوق میں بہر صورت ان کی ہر آئیں بائیں شائیں کی تصدیق ہی نہیں کرنی پڑتی بلکہ دو، چار بڑھا کے بیان کرناپڑتی ہیں تاکہ اگلے پروگرام میں انہیں دوبارہ مدعو کیا جا سکے۔ مشہور ہے کہ ان اینکرواں اور تجزیہ کار وں کوجب اچھی سبزی لانے، کرنٹ مارتے سوئچ کو بدلنے یا ٹپکتی ہوئی ٹونٹی کو ٹھیک کرنے بارے کہاجائے تو کھسیانا سا منہ بنا لیتے ہیں۔ ان کے پاس ایسی اطلاعات ہوتی ہیں جن کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی مگر وہ انہیں دنیا کا آخری سچ بنا کے پیش کرتے ہیں۔ یہ ٹی وی سکرینوں پرنواز شریف اور عمران خان کو تو بے لاگ تنقید کا نشانہ ہی نہیں بلکہ گالیاں تک دینے کی ہمت رکھتے ہیں مگر سول اور ملٹری بیوروکریسی تو ایک طرف رہی، حقیقی ملاقات پر علاقے کے ایس ایچ او کے بھی ہاتھ چوم اور جوتے سیدھے کر رہے ہوتے ہیں۔ یک طرفہ پروپیگنڈہ ایک نئی وبا کے طور پر ٹی وی چینلوں پر پھیل گیا ہے،جہاں حقائق ڈھونڈے نہیں جاتے بلکہ تراشے جاتے ہیں۔


پنجاب پولیس کے جوانوں کی حمایت، وکالت اور صفائی، توبہ توبہ، کیا مجھے سوشل میڈیا پر گالیاں کھانی ہیں، پنجاب کی پولیس ہو یا حکمران ، انہیں گالیاں دینا تو فیشن ہے لہذ ا اس سے ہٹ کر بات کرنا اپنی عزت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔ یوں تو چھوٹو گینگ کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ عشروں سے موجود ہے مگر گالیاں تو اسی کو دی جانی چاہئیں جس نے اسے ختم کرنے بارے سوچا اور وہاں پر آپریشن شروع کیا۔ ان لوگوں بارے تو بات بھی نہیں کرنی چاہئے جو آپریشن سے پہلے انٹیلی جنس گیدرنگ میں ناکام رہے، وہاں آپریشن کے لئے مناسب حکمت عملی تشکیل دینے میں نااہلی دکھائی، چھوٹو گینگ کے مقابلے کے لئے پوری تیاری نہ کرسکے، یہی بہترین موقع ہے کہ پنجاب پولیس کو گالی دی جائے تو اس سنہری موقع کو ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ چاہے اس کے جوان اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہوں، انہیں قربانی کے بکروں کی طرح یرغمال بننے کے لئے پیش کیا جا رہا ہو۔ مجھے تو تبصرے سنتے ہوئے بسااوقات یوں بھی لگا کہ ہمارے محب وطن اور سچے تجزیہ نگار کچے کے علاقے میں اپنی حکومت، پولیس اورقانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی بجائے غلام رسول عرف چھوٹو کے عملی طور پر ساتھی نہیں بھی ہیں تو وہ کم از کم پکے کے علاقے میں بیٹھ کے اس کے گینگ سے دلی ہمدردی اور نظریاتی ہم آہنگی ضرور رکھتے ہیں۔

مزید :

کالم -