حفاظت سے ہراسگی تک
کہانی کا آغازچھ سال قبل ہوا جب بتول نے بزنس میں ماسٹرز کے بعد ایک سرکاری دفتر میں پہلی ملازمت شروع کی۔ اچھی کارکردگی کے باعث اعزاز حاصل کئے، لیکن مزید ترقی کی امیدوں پر اْس وقت پانی پھرگیا جب عباس اس کا افسر بنا۔ عباس بتول سے ذومعنی باتیں کرتا۔
اس کے خلاف کمپنی کو بھیجی گئی شکایت میں، جس کی کاپی بی بی سی اردو کے پاس ہے، بتول نے لکھا کہ وہ اسے کہتا تھا:۔۔۔ "آج یہ پٹاخا لگ رہی ہے"اور "آج مجھ سے کام نہیں ہو رہا کیونکہ۔۔۔"۔ بتول کے دفتر کے ایک ساتھی مدثر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک بار عباس نے سب کے سامنے بتول کو کہا، "اتنے ڈھیلے کپڑے کیوں پہنتی ہو۔۔۔۔"۔ بالآخر تنگ آکر، بتول نے عباس کے خلاف کمپنی کے سربراہ کو شکایت کا خط لکھا۔
جب اس شکایت کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا، تو پھر بتول نے، جنسی ہراسیت سے تحفظ کے لئے، دفاتر میں قائم کئے گئے وفاقی محتسب کے سیل میں کیس درج کرا دیا۔
چھ ماہ تک کارروائی چلی اور اس سال (2014) فروری کو عباس کو جبری ریٹائرمنٹ کی سخت سے سخت سزا سنائی گئی، تاہم، اس تمام کارروائی کے باوجود، عباس کی ترقی ہوگئی ہے اور سزا وہیں کی وہیں ہے۔ کیا بی بی سی کی یہ رپورٹ دلخراش نہیں ؟
ہیتھرکی وکیل کا کہنا ہے کہ ہراسگی کا شکار خواتین آگے آنے سے خوفزدہ ہیں۔ آواز بلند کرنا گویا پیشہ وارانہ سفر کی خودکشی (کیرئیرسیوسائڈ) ہے۔ ہیتھر ٹورنٹو پولیس میں کانسٹیبل ہے۔ 33 سالہ ہیتھر کو روزانہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ ہیتھر کا مبینہ طور پر کہنا ہے کہ اسے جنسی لطیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھٹیا ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
ہیتھرکی وکیل کیٹ کا کہنا ہے کہ ہراسگی کا عمل علی الاعلان پریڈ کے دوران بھی ہوتا ہے جب شفٹ کی تبدیلی پرسب قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وکیل نے مزید کہا کہ کاغذوں میں پولیس فورس کی ہراسگی کے خلاف اعلٰی پالیسی ہے، لیکن عملی طور پر سپروائزر خواتین کو "ڈائنوسارس" کہتے ہیں۔ کیا سی بی سی کینیڈا کی یہ خبردلدوزنہیں ؟
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ملازمت کے اشتہار اور معلوماتی کمرشلز خواتین کو راغب کرتے ہیں۔ خصوصی ٹریننگ اور خاص وردی کے لئے مغربی امداد دی جاتی ہے، لیکن جب خواتین پولیس ملازمت اختیار کر لیتی ہیں تو علم ہوتا ہے کہ بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں۔ اگر وردی پہن کر دفترآتی ہیں تو مخالف عناصرکی گولی کا آسان نشانہ بنتی ہیں۔
اگر دفتر آ کر تبدیل کرتی ہیں تو بغیر لاک کے غلیظ اور مشترکہ بیت الخلاء استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ایک خاتون باہر کھڑے ہو کر چوکیداری کرتی ہے اور دوسری بیت الخلاء استعمال کرتی ہے۔ خواتین کو ان کے ساتھی مرد اہلکار ان مشترکہ واش رومز میں شکار کرتے ہیں جو الگ تھلگ ہوتے ہیں۔ قریبی بیت الخلاء لاک کے بغیرہوتے ہیں اورعموما ان میں درزاورشگاف ہوتے ہیں۔ کیا گارڈین کی یہ خبردلگیرنہیں ؟
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے ’نہ‘ کا مطلب ہے کہ ’’اچھا اس کے جواب میں، میں زبردستی کروں گا تو لڑکی مان جائے گی۔
ہمارے ہاں، مردوں کو رضامندی کا مطلب معلوم نہیں ہے‘‘۔ یہ الفاظ 20 سالہ زینب قریشی کے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی زینب قریشی کا اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا حلقوں میں خاصا چرچا ہے۔
انہوں نے ملک کی موسیقی کی بڑی ویب سائٹ ’پٹاری‘ کے بانی رْکن، خالد باجوہ پر انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ زینب قریشی کے یہ الزامات، خالد باجوہ پر پہلے ہی ایک اور خاتون، مہرآور کی جانب سے لگائے گئے اسی قسم کے الزامات کے بعد سامنے آئے ہیں، مگر اب اس سکینڈل کے نتیجے میں خالد باجوہ کو ’پٹاری‘ کے چیف ایگزیکیٹو کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ خبردل حزیں نہیں ؟
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ویمن پولیس عالمی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ اس فکر کا علمبردار ہے کہ خواتین آفیسر ہراسگی کے خوف میں زندگی نہ گزاریں۔ عزت اور یکساں سلوک ان کا حق ہے۔" پولیس ویمن: لائف ود آ بیج " نامی کتاب میں مصنف نے خواتین افسران کے لئے روزمرہ ہراسگی کا ذکر کیا ہے۔
جنسی ہراسگی میں "عنایت خاص" کے عوض ترقی اور تنخواہ کے وعدے کئے جاتے ہیں۔ ہراسگی کی دیگر صورتوں میں نامناسب لمس، جسمانی ساخت کے بارے میں ریمارکس، اور ایسے جملے جو کسی فرد کی تذلیل کریں۔ ویمن اینڈ پولیس نیوز وائر کے مطابق 80 فیصد خواتین پولیس افسران کو ملازمت کے دوران ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا یہ حقائق دل شکستہ نہیں ؟
وطن عزیز میں کام کرنے کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کا قانون مارچ 2010ء میں نافذ ہوا اور اس مقصد کے لئے وفاقی محتسب سکرٹیریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان دنوں کشمالہ طارق اس کی سربراہ ہیں۔ اس قانون کے تحت تمام پبلک اور پرائیویٹ اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے کام کرنے کے ماحول کو سازگار بنانے کے لئے اپنا اندرونی ضابطہ اخلاق اپنائے اور شکایات سیل بنائے۔
ہراساں کرنے کی تعریف یوں کی گئی ہے: خوف وہراس سے مراد ،کوئی ناخوش گوار جنسی تعلق، جنسی میلان کی استدعا کرنا یا کوئی زبانی یا تحریر ی مراسلت یا کوئی جنسی نوعیت کے اقدام یا جنسی تذلیل جیسا رویہ مراد ہے۔
کام کی انجام دہی میں مداخلت کا سبب بننا یا نا موافق اور جارحانہ ماحول پیدا کرنا، یا مذکورہ بالا تقا ضے پورا نہ کرنے پر مستغیث کو سزا د ینے کی کو شش کرنا، یا ملازمت کو اس فعل سے مشروط کرنا۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کی ویب سائٹ کو وزٹ کریں تو آپ کو عدالتی فیصلے/ احکامات کا صفحہ خالی نظر آئے گا۔ کیا یہ حیران کن نہیں ؟
" انتہائی مؤدبانہ عرض ہے کہ ہم لڑکیاں پولیس ہیڈکوارٹرز میں ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں مجبوریوں کے بعد دنیا کی ستائی پولیس محکمہ جوائن کیا۔۔۔ آپ سے التماس ہے کہ لائن سے کالی اور گندی بھیڑوں کو نکالیں۔۔۔ آئندہ کے لئے آنے والی ہماری نئی بہنوں کی عزت بچانے کے لیئے صرف لیڈیزکے لیئے ایک سپیشل افسر تعینات کی جائے، جس کی ریڈر لیڈی ہو"۔
یہ درخواست کے چند بے ضرر سے جملے ہیں۔ مکمل درخواست کے الفاظ سے بے بس خواتین کی بے توقیری اوربے حس ظالموں کی بے ضمیری ٹپک رہی ہے۔
الفاظ نہیں انگارے ہیں جودرخواست کے وجود میں سلگ رہے ہیں۔ سیاہی نہیں سوختگی و سیاہ کاری ہے جو درخواست پر بکھری ہے۔ پڑھ کرہاتھ لرزنے لگے، کنپٹیاں سلگنے لگیں، آنکھ بھر آئیں۔
سوشل میڈیا پر اس درخواست کی نقل موجود ہے، جودل تھام سکتا ہے وہ نظر ڈال لے۔ خواتین پولیس اہلکاروں کی جانب سے ہراسگی کے خلاف درخواست چیف جسٹس شکایات سیل کو دی گئی۔
انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ تفتیش جاری ہے۔ تین پولیس افسران کو مبینہ ہراسگی کے الزام کے نتیجہ میں معطل کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ خبردل سوزنہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس دل فگار اور دل آزار خبرنے دل چاک کر دیا ہے۔ اضطراب اور اذیت کی کیفیت گویا رگ و پے میں دوڑ گئی۔
جب بیٹیاں بے عزت ہونے لگیں، جب محافظ حفاظت کو ترسیں ، جب محافظ حفاظت کے درپے ہوں ، جب حق رسی کی بجائے حیلہ سازی دستور ہوجائے، جب حفاظت کی بجائے ہوس مقصد بن جائے، تو منزلیں گم ہو جاتی ہیں۔