ملا عمر ایک پراسرار شخصیت (1)

ملا عمر کون تھا کس کی تخلیق تھا۔ کس نے اس کی شخصیت کا ہیولا بنایا تھا اور کون اسے موت کے منہ میں لے گیا؟قتل ہوا یا طبعی موت؟ اور حیرت ہے کہ اسے اس طرح دفن کیا گیا کہ نہ اس کا مقام معلوم ہے اور نہ یہ معلوم ہوسکا ہے کہ کس نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور کہاں اس نے جان کی بازی ہاری ہے؟ آیا وہ افغانستان میں دفن بھی ہوا یا نہیں؟ نہ جانے کتنے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں ابھریں گے اور کون ان کا جواب دے گا ایک پراسرار شخصیت جو پراسرار طریقے سے اس جہاں فانی سے رخصت ہوا سب مہر بلب ہیں وہ کون تھا جو اس کے اتنے اہم بیانات جاری کرتاتھا؟ اس کی موت کو کیوں اتنا پوشیدہ رکھا گیا وہ اس دنیا سے جاچکا تھا پھر بھی اس کے بیانات جاری ہوتے تھے 30 جولائی کو اخبارات میں بیان آیا کہ ملا عمر اپریل 2013ء میں فوت ہوگئے تھے یہ بیان حکومت افغانستان کے ترجمان کی جانب سے آیا اور اس کے ساتھ طالبان کی تردید تھی کہ وہ زندہ ہیں ایک طالبان کمانڈر کابیان اسی دن شائع ہوا کہ ملا عمر 2010ء میں بم دھماکے میں زخمی ہوگئے تھے یہ بیان فدائی محاذ کی جانب سے شائع ہوا اس بیان میں انکشاف کیاگیاکہ ملا عمر کو ملا اختر منصور اور گل آغا نے قتل کیا۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ ملا عمر اور ملا منصور میں افغان مذاکرات کے حوالے سے سخت جملوں کاتبادلہ ہوا اور تلخی پیدا ہوئی اس کے بعد ملا عمر قتل ہوگئے۔ طالبان کے مختلف نمائندے اس خبر کی تردید کرتے رہے اور کہتے رہے کہ وہ فوت ہوئے ہیں یہ تردیدی بیان قاری یوسف احمدی اور ذبیح اللہ دیتے رہے۔ وہ مزید بات چیت سے بھی آشکار کرتے رہے بزرگ طالبان کا موقف کچھ یوں تھا کہ اس خبر کو پھیلانے کا مقصد مذاکرات کو ناکام بنانا ہے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ مذاکرات اچھا عمل ہے۔
ملا عمر نائن الیون کے بعد روپوش ہوگئے تھے جب کابل طالبان کے ہاتھ سے نکل گیا اور فوجیں قندھار کا رخ کررہی تھیں، اس دوران بعض کمانڈر کوئٹہ آگئے تھے اور آگے جانا چاہتے تھے ایک نوجوان مجاہد سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ جب کابل ہاتھ سے نکل گیا تو اسامہ قندھار آگئے اور ملا عمر اور ان کے اہم کمانڈروں کو ساتھ لے کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئے روانگی سے قبل اسامہ نے عرب مجاہدین سے کہاکہ آپ نے قندھار ایئر پورٹ پر مزاحمت کرنی ہے تاکہ ہمارے لئے اپنے راستے پر جانا آسان ہوجائے۔ اس کے بعد عرب مجاہدین نے قندھار ایئر پورٹ اور دیگر مقامات پر بڑی سخت مزاحمت کی اور کوئی بھی فرار نہیں ہوا۔ اس مجاہد نے بتایا کہ جب وہ کابل اور قندھار سے نکل گئے تو بعض اہم حصوں کے طالبان نے امریکہ کو اطلاع دی اس کے بعد ان خفیہ کمپاؤنڈز پر شدید بمباری کی گئی اور تمام عرب مجاہدین مارے گئے اس نے بتایا کہ ہمارا کمپاؤنڈ اور عرب مجاہدین کا کمپاؤنڈ ملا ہواتھا اور ہم والی بال کھیلتے تھے ملاعمر نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ان عرب مہمانوں کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری بال ان کے کمپاؤنڈ میں چلی جاتی تھی ہم اس کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔ اسامہ اس بات پر ناراض تھے کہ طالبان نے کابل میں مزاحمت نہیں کی۔
قارئین محترم:۔ اب ذرا معاملات پر غور کریں تو ایک بات بڑی واضح ہوکر سامنے آرہی ہے اور وہ یہ کہ ملا عمر پاکستان سے مذاکرات کے حامی تھے اور انہیں پاکستانی طالبان سے شکایت تھی کہ وہ پاکستان کے اندر دھماکے اور دیگر کارروائیوں میں ملوث ہیں وہ اس طریقے کے حامی نہیں تھے اب ان کی موت کی خبر کھلنے کے بعد یہ تجزیہ کرنا آسان ہوگیا ہے کہ طالبان حکومت افغانستان سے مذاکرات میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور یہ مرحلہ بہت پہلے شروع ہوچکا تھااور میرا اندازہ یہ ہے کہ ملا عمر کی موت کاسبب مذاکرات بنے ہیں اور یہ احتمال موجود ہے کہ انہیں اس گروہ نے قتل کردیا جو مذاکرات کا مخالف تھا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گروہ کی پشت پر کون تھا؟ امریکہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ وہ مذاکرات کا حامی تھا اور جنرل راحیل شریف کو اسی نے آمادہ کیا کہ پاکستان ان مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرے۔ اور چین بھی ایسا ہی چاہتا تھا اس لئے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری پر کامیابی چاہتا ہے۔ چین 46 ارب ڈالر اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان میں لگا رہا ہے اس نے ہلمند میں تین ارب ڈالر کے معاشی منصوبے تشکیل دیئے ہیں اس لئے وہ بھی چاہتا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات مکمل کریں اور کسی بہتر حل کی طرف جائیں ایران بھی مذاکرات کا حامی ہے اس لئے کہ داعش افغانستان اور عراق میں قوت حاصل کررہی ہے۔ ایران داعش کو ہر صورت میں روکنا چاہتا ہے اس لئے اب وہ طالبان کی مدد کررہا ہے داعش سے پاکستان کو بھی خطرہ ہے اس لئے ایران کی پوری کوشش ہے کہ طالبان اورا فغان حکومت مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور انہیں کامیاب کریں۔
ایک سوال اور بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ ملا عمر کی موت کا انکشاف اتنا عرصہ گزرنے کے بعد کیوں کیا گیا؟ اور وہ بھی اس وقت جب طالبان اور افغان حکومت آمنے سامنے پاکستان میں مذاکرات کررہے ہیں ان مذاکرات کا آغاز تو 2011ء میں ہوگیا تھا اس کا انکشاف امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنے ایک مضمون میں کیایہ مضمون گارجین میں شائع ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جرمنی میں ملاعمر کے نمائندوں اورامریکہ کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کاایک دور ہوچکا تھا اس کے بعد مذاکرات قطر میں شروع کئے گئے اور اب پاکستان میں شروع ہوئے۔
طالبان کی جانب سے ملا عمر کا بیان 27جولائی کو جاری کیاگیا جس میں انہوں نے کہاکہ میں مذاکرات کا حامی ہوں پاکستان یا ایران کاایجنٹ نہیں ہوں مجاہدین کو پاکستان اور ایران کاایجنٹ کہنا درست نہیں ہے اسلام نے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات سے منع نہیں کیا ہے تمام مجاہدین اس بات پر یقین رکھیں کہ ہم بات چیت میں ان کے قانونی حق اور موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے یہ بیان صاف ظاہر ہے ملا عمر کا نہیں تھا اس لئے کہ وہ تو اس جہان فانی سے بہت پہلے رخصت ہوگئے تھے اس بیان کے بعد 30 جولائی کو انکشاف ہوا کہ ملا عمر اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہیں تو یہ بیان اپنی اہمیت کھوگیا اور تمام حالات یکسر بدل گئے چند گھنٹوں میں سب کچھ درہم برہم کردیا گیا اور مسئلہ مذاکرات سے ملا عمر کی موت کی طرف منتقل ہوگیا۔ یکم اگست کو امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے پاکستان و افغانستان رابن فیلڈ نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور مذاکرات کے حوالے سے ان کے کردار کوسراہا اور کہاکہ امید ہے کہ افغان امن مذاکرت جلد بحال ہوں گے۔(جاری ہے)
(دوسری قسط )
قارئین محترم:۔ اس سے قبل23 جولائی کوامریکی جان ایف کیمبل نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی انہوں نے آپریش ضرب عضب کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور افغان امن مذاکرات کے حوالے سے بھی جنرل راحیل شریف کے مخلصانہ کردار کوسراہا اور اعتراف کیا کہ ان کی کوشش سے یہ مرحلہ شروع ہوا ان مذاکرات کے نتیجے میں اس خطہ میں امن بحال ہوجائے گا اور یہ مذاکرات خوش آئند ہیں۔ اب افغانستان میں وہ کون سی قوت ہے جو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان گفتگو کے بجائے تصادم چاہتی ہے اس کو ڈھونڈنا ہوگا۔
ملا عمر کی پراسرار مو ت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اب خبر آئی ہے کہ ان کے صاحبزادے کو قتل کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایمن الظواہری کی موت کی خبر بھی چل رہی ہے ملا عمر کی موت کے انکشاف نے طالبان کے اندر تقسیم کو واضح کردیا ہے اب ایک نئی کشمکش ملا عمر کی جانشینی کے حوالے سے جنم لے چکی ہے۔ ملا عمر کو امیرالمومنین کا درجہ دیا گیا تھا اب کوئی بھی امیرالمومنین کا خطاب حاصل نہیں کرسکے گا ملا عمر کے خاندان نے تو اعلان بغاوت کردیا ہے اور ملا منصور کی قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ ملا عمر کی موت کو ملا منصور نے کیوں پوشیدہ رکھا؟ اور ملا عمر کی موت کے انکشاف کے ساتھ ہی وہ طالبان کا رہبر بن گیا کیا طالبان کمانڈروں کا اجلاس بلایا گیاتھا؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ طالبان کمانڈروں اور علماء کا اجلاس بلایا جائے اور ایک متفقہ لیڈر چناجائے۔ جب تک یہ مرحلہ طے نہیں ہوگا طالبان کے درمیان وحدت برقرار نہیں رہ سکے گا۔
چند دن پہلے انکشاف ہوا کہ جلال الدین حقانی بھی فوت ہوچکے ہیں لیکن دو اگست کو بیان آگیا کہ وہ حیات ہیں اور انہوں نے ملا منصور کی قیادت کو تسلیم کرلیا ہے اور بیعت کرلی ہے۔ انہوں نے ملا قیوم ذاکر سے اختلافات کی تردید کردی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ملا منصور کے انتخاب سے مطمئن ہیں اور تمام رہنماؤں اور کارکنوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ملا منصور کی مکمل اطاعت اور بیعت کریں اور اتحاد اور اتفاق قائم رکھیں تاکہ بیس سالہ جدوجہد رائیاں نہ جائے۔ اختلافات افغان عوام پر منفی اثرات ڈالیں گے اور اس کے اثرات عالم اسلام پر بھی پڑیں گے۔ ملا عمر کے خاندان کی طرف سے بھی بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی طالبان کی تقسیم نہیں چاہتے مگر فیصلے اتفاق سے ہونے چاہیں اور شخصی فیصلے تحریک طالبان کے لئے نقصان دہ ہیں اس لئے ضروری ہے کہ انتخاب کے لئے جنگجو کمانڈروں علماء مشائخ اور جنگ میں مصروف طالبان رہنماؤں پر مشتمل شوری بلائی جائے اور متفقہ فیصلہ کیا جائے۔ یہ شوری جوبھی فیصلہ کرے گی ہم اسے تسلیم کرلیں گے۔ ملا عمر کے خاندان کو طریقہ کار سے اختلاف ہے باقی کسی چیز سے نہیں۔
طالبان کے نئے امیر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ وہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے موقف کو رد کرتے ہیں کسی کوبھی طالبان کے امور طے کرنے کا اختیار نہیں ہے انہوں نے جہاد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور افغان عوام کے دل جیتنے کا کہا ہے اور کہا ہے کہ ان کی کوشش ہوگی کہ ملا عمر کے طریقہ کار کو اپنائیں۔ دشمن ہر طرف سے اتحاد کو توڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں ان سے بچاجائے اور جہاد کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔ مشکلات کاحل ایک دوسرے کو سننے اور مل بیٹھنے میں ہے ناراض دوستوں کو ساتھ ملائیں گے اور ان کو ساتھ ملانا فرض ہے۔ ہمارا ظاہر اور باطن ایک ہونا چاہیے افغانستان میں اسلامی نظام کے قائم ہونے تک جہاد جاری رہے گا امن اور صلح کی باتیں دشمن کی چال ہے اب امن مذاکرات کی کوئی اہمیت نہیں ہے امن افغانستان میں شرعی نظام قائم ہونے کے بعد ہوسکتا ہے۔ ہمارے درمیان علماء موجود ہیں قرآن کو درمیان میں رکھ کر بات کریں گے جو کمانڈر جہاں ہے اور جس علاقے کا ذمہ دار ہے وہ وہاں اسی طرح سرگرم رہے۔ اور اطاعت لازمی ہے۔ نظم وضبط لازمی شرط ہے جس جس نے امارت کے فیصلوں سے اختلاف کیا ہے اس کے لئے معافی ہے مجھے امیر بناکر مجھ پر بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے اور مجھ سے کہا تھا یہ ذمہ داری آپ اٹھائیں گے اور میں نے کہہ دیاہے کہ جب بھی مجھ سے یہ ذمہ داری واپس لی گئی تو میں بخوشی اس کو لوٹادوں گا ناحق کشت وخون منع ہے اور جو کوئی فیصلوں کی خلاف ورزی کرے گا اسے شرعی اصولوں کے مطابق سزا ہوگی۔
ملا منصور کا یہ خطاب ایک کمرے میں تھااور آڈیو بیان ہے اس محفل میں بڑی تعداد میں طالبان موجودتھے۔
قارئین محترم:۔ افغانستان میں ملا عمر کے تنہائی میں زندگی گزارنے نے کئی ابہام پیدا کئے اور اس کے نتیجے میں داعش وجود میں آگئی اب نئے امیر کے سامنے دو طرح کی مشکلات ہیں ایک تو طالبان کے اندر کے اختلافات ہیں جو ان کے لئے مشکلات پیدا کریں گے اور ان سے نمٹنا ہوگا دوسری مشکل افغان حکومت سے مذاکرات کا مرحلہ ہے اب طالبان میں ایک طبقہ مذاکرات چاہتا ہے ملا منصور نے اپنے خطاب میں اس کو رد کردیاہے، اس لئے ایک نئی کشمکش اندر پیدا ہوگئی ہے ملا منصور کے اس بیان کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بیان جاری کیا ہے کہ وہ مختلف طالبان سے مذاکرات کرے گا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ چین اور پاکستان کا اس میں کیا کردار ہوگا اور امریکہ کیا رخ اختیار کرے گا اشرف غنی کو امریکہ نے صدر بنایا ہے اس لئے فیصلے کا اختیار اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ کو نہیں ہے بلکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ہے اس تبدیلی سے پاکستان کی مشکلات بڑھ گئی ہیں چین بھی ان مذاکرات کے حق میں ہے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ کس طرح اثر انداز ہوگا مذاکرات کے حوالے سے نئے امیر کا پیغام امریکہ کے لئے بھی باعث تشویش ہوگا امریکہ افغانستان کی دلدل سے مکمل نکلنا چاہتا ہے اب اس کی دم رہ گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ دوبارہ افغانستان لوٹ آئے جبکہ سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنے مضمون میں امریکہ سے کہا تھا کہ وہ 2014 ء کے بعد افغانستان کی دلدل سے ایسے نکلے کہ دوبارہ مڑ کر افغانستان کی طرف نہ دیکھے ( یہ مضمون گار جین میں شائع ہوا تھا ) اور اس میں ہنری کسنجر نے امریکہ کو یہ بھی نصیحت کی تھی یا مشورہ دیا تھا کہ وہ افغانستان سے اس طرح نکلے کہ یہ تاثر قائم نہ ہوکہ وہ شکست کھاکر نکل رہا ہے کیا امریکہ اس تاثر سے باہر نکل سکا ہے ؟ وہ تو ایک شکست خوردہ سپر پاور کی حیثیت سے افغانستان سے لوٹ رہاہے اب اگر اس نے پیچھے مڑکر دیکھا تو یہ اس کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا مگر طالبان نے اسے سبق سکھادیا ہے اس کی بہترین مثال ہیں اب امریکہ اس زوال کو ضرور دیکھے گا اس لئے کہ تاریخ ہر جنگ کے بعد اثرات ضرور قائم کرتی ہے اور اب ہم تاریخ کے اس فیصلے کو بھی دیکھیں گے لیکن فی الحال ہم اس کا مشاہدہ کریں گے کہ طالبان اپنی وحدت کو قائم رکھتے ہیں یا انتشار کی جانب جاتے ہیں خواہش ہے کہ ایک مسلم اور طاقتور افغانستان امن و خوشحالی کے دور میں لوٹ جائے ۔