عمران خان کو محاذ آرائی کے ٹریپ سے باہر نکلنا ہو گا

عمران خان کو محاذ آرائی کے ٹریپ سے باہر نکلنا ہو گا
عمران خان کو محاذ آرائی کے ٹریپ سے باہر نکلنا ہو گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: سہیل چوہدری

کپتان عمران خان کی 22سال کی جد جہد رنگ تو لے آئی لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کے مشتعل اراکین کے پر زور احتجاج نے کافی حد تک رنگ میں بھنگ ڈالا، گزشتہ روز پر امن انتقال اقتدار کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل تھا ، اپوزیشن کے دھاندلی کے الزامات نے ایوان میں انتقال اقتدار کی اس تقریب کو قدرے گہنا دیا ، اگرچہ ایوان میں اپوزیشن گزشتہ روز منقسم ہوگئی تھی ، یہ کوئی غیر متوقع پیش رفت نہیں تھی ، پاکستان پیپلزپارٹی کے حلقوں سے تواتر سے ایسی اطلاعات مل رہی تھیں کہ ’’جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا‘‘ کے مصداق پی پی پی بوجوہ اپوزیشن کے اتحاد سے الگ ہوکر رہے گی اور اس کیلئے بہت بے تابی سے پھڑ پھڑا رہی تھی ۔ ایک طرف پاکستان پیپلزپارٹی مجید انور کی گرفتاری سے پہلے ہی پریشان تھی اوپر سے گزشتہ روز دارالحکومت میں صبح ہی سے پارٹی کے کو چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کے وارنٹ جاری ہونے کی اطلاعات زیر گردش تھیں ، اس بنا ء پر پی پی پی نے عین ’’توقعات‘‘ کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب سے ’’پرہیز ‘‘ کرنا ہی مناسب سمجھا کیونک سابق صدر زرداری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہی ہوتا ہے ، پہلے انہوں نے ایک دو دفعہ ’’بد پرہیزی ‘‘کی تو انہیں سخت ’’تکلیف ‘‘ سے گزرنا پڑا، گزشتہ روز نہ صرف پی ٹی آئی کیلئے تاریخی دن تھاکہ کپتان بالآخر قائد ایوان کی نشست پر بیٹھ گئے بلکہ ایک طرح سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ’’احیا‘‘کے حوالے سے غیر معمولی گردانا جارہاتھا کیونکہ پی پی پی کے ہونہار چیئرمین بلاول بھٹو کی عملی سیاست میں لانچنگ تھی ، اگرچہ ان کی لانچنگ اپوزیشن بنچوں سے ہوئی لیکن ان کی پر تاثیر تقریر کے باوجود پریس گیلری میں یہی تاثر تھا کہ ایوان میں ان کی جماعت کا مجموعی رویہ فرینڈلی اپوزیشن والا تھا ، تاہم بلاول بھٹو کی تقریر ایوان میں دونوں بڑی جماعتوں اوران کی قیادت کیلئے قدرے ناصحانہ تھی ، ان کی وعظ نما تقریر کشیدہ سیاسی ماحول میں اپوزیشن کے تقاضوں سے زیادہ میل نہیں کھارہی تھی ، تاہم پی ٹی آئی کے بعض حلقوں نے پی پی پی اور بلاول بھٹو کے رویہ کو خوب سراہا ، گزشتہ روز قائد ایوان کے انتخاب کا عمل مقررہ وقت سے کافی تاخیر سے شرو ع ہوا کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی جماعت کا اجلاس شہباز شریف کی صدارت میں غیر ضروری طوالت اختیار کرگیا تھاجس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کا پوسٹرا یوان میں نہیں لے جایا جائے گا، کپتان عمران خان ایوان میں بروقت آگئے تھے اور زیادہ وقت اپنی نشست پر ہی بیٹھے بیٹھے تسبیح کا ورد کرتے رہے یا پھر ملنے کیلئے آنے والے اراکین سے مصافحہ کرتے رہے ، ایوان میں مہمانوں کی گیلریاں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے کچھا کھچ بھری ہوئی تھیں ، پی ٹی آئی کے کارکن اور عہدیدار بڑی تعدا دمیں پارلیمنٹ میں موجود تھے ، پارکنگ ایریا بھر گئے تھے پارلیمنٹ کی غلام گردشوں سے گیلریوں تک تمام جگہیں پی ٹی آئی کے جوشیلے کارکنوں سے اٹی پڑی تھیں ، جب شہبازشریف کی قیادت میں لیگی ارکان ایوان میں داخل ہوئے تو پارلیمانی روایات کے برعکس مہمانو ں کی گیلریوں سے ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور فقرے کسے گئے جس کے ردعمل میں خواجہ آصف نے کہا کہ ہم عمران خان کو تقریر نہیں کرنے دینگے اور پھر یہی ہوا جبکہ ن لیگ کے پارلیمانی اجلاس کی طوالت کی وجہ بھی ایوان میں احتجاجی حکمت عملی پر غور و خوض تھا ، جبکہ سابق اپوزیشن رہنماء سید خورشید شاہ نے بھی سپیکر کی توجہ گیلریوں میں بد نظمی کی طرف مبذول کروائی جس پر سپیکر نے گیلریوں میں بیٹھے مہمانان کو بار بار ڈسپلن کی خلاف ورزی نہ کرنے کی تلقین بھی کی لیکن گیلریوں سے ایوان میں موجود ن لیگی ارکان اور قیادت پر ’’ہوٹنگ ‘‘ کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری رہا اور ہلڑ بازی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے’’ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘ جبکہ ایوان میں وزیراعظم کے انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد سپیکر کی جانب سے ووٹوں کی تعداد تو بتائی گئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ عمران خان کو قائد ایوان کی نشست پر بیٹھنے اور تقریر کرنے کا کہتے ن لیگی ارکان نے سپیکر کے ڈائس اور عمران خان کی نشست کے درمیان میں کھڑے ہوکر شدید نعرے بازی شروع کردی جو غیر معمولی طورپر آدھے گھنٹہ سے زائد جاری رہی جس پر کپتان عمران خان سمیت بیشتر پی ٹی آئی قیادت صاف زچ ہوتی نظر آرہی تھی عمران خان نے ایک ہاتھ سے سر پکڑ کر تسبیح کا ورد جاری رکھا او ر انہیں پی ٹی آئی کے اچھے ڈیل ڈول والے ارکان نے اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا لیکن اپوزیشن کے احتجاج کی طوالت اور زور دونوں بڑھتے ہی جارہے تھے ، پہلے پہل سب کا خیال تھا کہ کچھ دیر بعد احتجاج ٹھنڈ اپڑ جائیگا لیکن جب ایسا نہ ہوا تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو شہباز شریف سے بھی آکر ملے لیکن صورتحال جوں کی توں رہی جبکہ پی ٹی آئی کے اراکین بالخصوص خواتین اراکین نے فواد چوہدری کے کہنے پر شریف خاندان کے خلاف بھی نعرے بازی کا آغاز کردیا اور اس پر شور ماحول میں بالآخر شاہ محمود قریشی کی مشاورت سے سپیکر کو 15منٹ کیلئے اجلاس ملتوی کرنا پڑا، لیکن جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو وہی منظر تھا تاہم سپیکر نے شور شرابے میں ہی نہ صرف عمران خان کو قائد ایوان منتخب ہونے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں اپنی مخصوص نشست سنبھالنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی خطاب کی دعوت بھی دیدی ، قائد ایوان عمران خان تب تک خاصے غصیلے لگنے لگ گئے تھے ، اور شائد انہوں نے پہلے سے طے شدہ تقریر سے ہٹ کر ایوان کے سیاسی ماحول کے رد عمل میں ایک غصیلی تقریر کی، ایوان میں قائد منتخب ہونے کے بعد پہلی تقریر ہونے کی بناء انتہائی غیر معمولی اہمیت کی حامل گردانی جاتی تھی ، پوری دنیا اور پاکستان کے عوام ان سے ’’ نئے پاکستان ‘‘ کے اصلاحاتی ایجنڈے کے خدو خال اور انکے ملک وقوم کیلئے اہداف اور ان کے حصول کیلئے لائحہ عمل سننا چاہتے تھے لیکن قائد ایوان عمران خان شائد اپنے فوکس سے ہٹتے ہوئے ن لیگ کے رد عمل کے زیر اثر نظر آئے ، انہوں نے ن لیگ کو ڈی چوک میں دھرنے کی دعوت دیکر ایک طرح سے اپوزیشن کو مزید احتجاجی رویہ اپنانے پر مجبور کیا، انہو ں نے احتساب کی بات کی جوکہ پہلے ہی ایک متنازعہ بات ہے ، ایسا لگ رہا تھا کہ کپتان عمران خان ایوان میں اپوزیشن کے رویہ سے نالاں ہوکر ٹریپ ہوگئے کیونکہ محاذ آرائی اور احتجاج کی سیاست تو اپوزیشن کی غذا ہوتی ہے جتنی محاذ آرائی بڑھے گی اتنا ہی اپوزیشن پھلے پھولے گی ، تاہم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں انتخابات کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے ایک کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے اور اس کیلئے حکومت کوایک ماہ کی ڈیڈ لائن بھی دی ، شہبازشریف نے اپنی تقریر میں نوازشریف کے ترقیاتی کام بھی گنوائے اور واضح کیا کہ ان کی جماعت پی ٹی آئی کی طرح پارلیمنٹ پر حملے نہیں کریگی جبکہ بلاول نے اگرچہ’’ اپنا اپنا راگ اپنی اپنی ڈفلی‘‘کے مصداق اپنی طرز کی اپوزیشن کے تحت تقریر کی تاہم ان کی اپوزیشن کو جو مرضی نام دیا جائے لیکن گزشتہ عام انتخابات کو انہو ں نے متنازعہ قرار دیتے ہوئے ایک انکوائری کمیشن کی حمایت کی جس سے یہ تاثر واضح ہوتا ہے کہ آنیوالے دنوں میں انتخابات کے آزادانہ ،غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہونے کا ایشو سر اٹھا تا رہے گا ، جب کہ گزشتہ دن اسمبلی میں شروع ہونے والی محاذ آرائی اور احتجاجی سیاست آنیوالے دنوں کیلئے اچھی نوید ثابت نہیں ہوسکتی ، عمران خان نے اپنی تقریر سے یہ تاثر دیا ہے کہ اس احتجاج کا مقصد کسی کو کوئی نیا این آر او کرنا ہے ، عمومی طورپر انتخاب سے قبل محاذ آرائی اور گرما گرمی کا ماحول ہوتا ہے لیکن بعد میں نہیں ،اس میں تبدیلی آئی ہے اگر کپتان عمران خان نے نیا پاکستان بنانا ہے اور ملک کو درپیش مہیب چیلنجز سے عہدہ برآ ہونا ہے ،عوام کی امنگوں اور آرزوؤں پر پورا اترنا ہے تو انہیں محاذ آرائی کے ٹریپ سے باہر نکلنا ہوگا، الیکشن تو لڑ کر ہی جیتا جاتاہے اب بطور وزیراعظم ان سے قوم کی بڑی امیدیں ہیں انہیں اب لڑنے کی بجائے منقسم قوم کے دل جیتنا ہونگے ، یہی سیاست کا اصل ورلڈ کپ ہے کیونکہ اپوزیشن بے شک متحد نہیں لیکن اس کا دامن کافی وسیع ہے حتیٰ کہ فاٹا سے دو منتخب اراکین بھی گزشتہ روز کے انتخاب سے دور رہے ۔۔۔ یہ لمحہ فکریہ ہے !
تجزیہ سہیل چودھری

مزید :

تجزیہ -