قائد اعظم، تقریر 11اگست اور بھٹو مرحوم
دستور ساز اسمبلی میں قائداعظم کی تقریر 11اگست 1947ء ہر لحاظ سے نپی تلی اور جامع تھی۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا مودودی وغیرھم سب نے تقریر سنی پڑھی اور اپنے کاموں میں لگ گئے۔اڑھائی عشرے تک سناٹا رہا۔ متعلقہ لوگ فوت ہو گئے۔1981ء میں جنرل ضیا کے فکری رد عمل میں اس تقریر پر پہلی ضرب لگائی گئی۔ دعویٰ گیا کہ تقریر کو "اوپر سے " سنسر کرنے کا حکم آیا تھا۔حامد جلال نامی ایک صاحب نے 1981ء میں پہلا مضمون تب لکھا جب "اوپر" کے سنسر والے حاکم اور متعلقہ صحافی فوت ہو چکے تھے۔ لکھا گیا کہ الطاف حسین ایڈیٹر ڈان کو حکم ہوا تھا کہ تقریر کے کچھ حصے نہ چھاپیں کہ ان سے دو قومی نظریے پر زد پڑتی ہے لیکن انہوں نے انکار کردیا اور دھمکی دی کہ میں جناح صاحب کو بتا دوں گا۔اور یہ کہ یہ بات الطاف صاحب نے اسمبلی پریس گیلری میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بھی کی تھی۔ مضمون تب لکھا گیا جب ایک کے سوا تمام گواہ فوت ہو چکے تھے۔
مضمون میں مذکور کردار اجلے صحافی تھے لیکن سب فوت ہو چکے تھے۔ الطاف صاحب سمیت کسی نے اپنی زندگی میں اس انتہائی اہم خبر کا ہلکا سا ذکر بھی نہیں کیا۔ عام قاری کو گمراہ کرنے کے لیے ایسے "انکشافات" صحافت میں بہت عام ہیں. ایک اس مضمون ہی کا کیا ذکر، من گھڑت حدیثیں تو لوگوں نے نبی اؐکرم سے بھی منسوب کر رکھی ہیں۔ تقریر سنسر کر دی جاتی تو کیا اسے اسمبلی مباحث سے بھی حذف کیا جا سکتا تھا جو شائع ہوتے ہیں؟ ہر کوئی انہیں خرید کر پڑھ سکتا ہے اور اگر یہ مباحث بگڑی شکل میں چھپتے تو چوتھائی غیر مسلم اور کانگریسی ارکان اسمبلی کیا خاموش رہتے؟ لیکن مضمون نگار نے اپنے صرف ایک گواہ کے سنسنی خیزی بھرے بیان پر جھوٹ کا پورا اہرام مصر کھڑا کر دیا کہ الطاف صاحب نے صحافیوں کے ایک گروپ کے سامنے انکشاف کیا تھا۔ اس کی کوئی ایک معتبر شہادت ابتدائی اڑھائی عشروں میں نہیں ملتی۔ یہ مضمون چھپا تو پھر چل سو چل، سنسنی خیز تحریریں شروع ہو گئیں۔ تاہم یہ یاد رہے کہ قائد کی یہ تقریر من و عن چھپ چکی ہے۔ "انکشافات"بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس تقریر کو اپنی سیاسی بائبل کہنے والے صرف ایک وضاحت کر دیں۔
یہ بتائیے کہ قائد کی یہ تقریر آپ کے نزدیک کیا واقعی حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر ہاں تو الحمدللہ! کیونکہ اسی تقریر میں قائد کا کہنا ہے کہ دستوریہ کے دو اہم کاموں میں سے ایک دستور سازی ہے جس کے لئے میری کوئی سوچی سمجھی رائے نہیں ہے، دستور سازی نمائندگان جمہور کا کام ہے۔لہٰذا انہوں نے اپنی رائے دینے سے معذوری ظاہر کی،چنانچہ اسی اسمبلی نے فرمان قائد کے مطابق قرارداد مقاصد کی شکل میں دستوری اصول وضع کیے تو قرارداد کی مخالفت میں اتنا واویلا کیوں؟قائد کی تقریر اسلامی ہے یا سیکولر یہ جائزہ بعد میں، لیکن قرارداد مقاصد اسی اسمبلی نے منظور کی تھی جس اسمبلی نے قائد کو گورنر جنرل منتخب کیا تھا۔ آپ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ کس قماش کی جمہوریت چاہتے ہیں؟
میرے قارئین مجھے دیگر قلم کاروں طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ میں فلاں کے رد میں لکھوں، فلاں کی تصحیح کروں۔ میں توجہ نہیں دیتا، لیکن کچھ عرصے سے چند قلم کار اکابر تحریک پاکستان سے جھوٹ منسوب کر کر کے ان کی کردار کشی کر رہے ہیں لہٰذا قارئین بہت بے چین ہیں۔ مجھے اس بات میں وزن ملا کہ بھلے مناظرہ کیا جائے نہ کسی کی تردید، لیکن معصوم نئی نسل کو سچ بتانا تو سب کا فرض ہے۔ اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں: "ہمارے کام کے پیچھے یہ فرمان الٰہی ہے کہ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو نمو دیتا ہے، سوچا سود کو میں نہیں مٹا سکتا، لیکن صدقات کو عام تو کر سکتا ہوں۔ چنانچہ ہمارا ادارہ صدقات کو عام کرنے کی عاجزانہ سی کوشش ہے“۔
ڈاکٹر امجد کے قول سے یہ روشنی ملی کہ جھوٹ کا مقابلہ تو نہیں ہو سکتا، سچ کو البتہ عام کیا جا سکتا ہے۔ اخباری "مورخین" مولانا شبیر عثمانی کی بصیرت افروز تقریر چھوڑ کر ان کی باد فاسدا کا تعاقب کریں یا وہ گوش بر آواز ریح سید مودودی رہیں، بھلے ہوتے رہیں، یہ خاکسار تو ہمہ آفتاب بینم ہمہ آفتاب گوئم کی شاہراہ پر نور پر رہ کر صدق کا متلاشی ہے۔ ایک نور متعلق بہ قرارداد مقاصد مجھے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ملا۔ بالمقابل مسلم "مورخین"کو بھٹو کا اسلامی سوشلزم بطور "کلمہ کفر" خوب یاد رہتا ہے، ایوب خان کو بھٹو کا ڈیڈی کہنا بھی انہیں یاد ہے، وہ یہ کہتے بھی نہیں تھکتے کہ وہ امریکہ کا پلانٹڈ تھا۔ لیکن دونوں کو یہ یاد نہیں کہ بھٹو صاحب ایوبی دستور 1962ء میں اسلام کے کس قدر قد آور وکیل تھے۔ 34سالہ بھٹو تب تیسری دنیا کا رہنما تھا نہ پیپلز پارٹی کا چیئرمین، نہ اس کی کوئی شناخت تھی۔ تماشا یہ کہ وہ ایوب خان کا وزیر بھی تھا۔
1962 ء میں پہلے اسمبلی اجلاس ہی میں یہ قرارداد آ گئی کہ اسلام کے نام پر بنے ملک کے نام سے لفظ اسلامی اور دستور سے اسلام کیوں غائب ہے۔ عباس علی خان بولے: "قرارداد مقاصد کے مطابق تو یہ طے تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہوگا اور کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں ہوگا"۔ 3جولائی 1962ء کو قرارداد کے حق میں بھٹو مرحوم کے الفاظ یوں تھے: "دستور بالوضاحت قرار دیتا ہے کہ پاکستان کے مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے تحت زندگی گزاریں گے۔قرآن و سنت ہمارے قوانین کی بنیاد ہوں گے مسلمان اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دیں گے۔۔۔ زکوۃ، وقف اور مساجد کو باقاعدہ ادارہ جاتی طور پر یقینی بنایا جائے گا(اسمبلی مباحث، ج 1 ص 1, 1962)۔ انہی بھٹو صاحب کو نیا دستور بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے اسلام کو پالیسی اصولوں والے کمزور حصے سے اٹھا کر دستور 1973ء کے مضبوط اور قابل عمل آرٹیکل 227میں سمو دیا۔ 1956ء اور 1962ء کے دساتیر میں کٹی پھٹی اور لنگڑی سی قرارداد مقاصد کا اصل متن دستور 73میں ڈالا۔ انہوں نے قوم کو وہ اسلامی دستور دیا کہ گزشتہ دونوں دستور اس کے سامنے نمونہ بیچارگی بن کر رہ گئے۔
قیام پاکستان کے بعد تقریباً 40سال تک سیاسیات اسلام کے خوبصورت مظاہر میں سے قائد کی زیر نظر تقریر ہو یا قرارداد مقاصد، یا کچھ اور،سب کچھ متفق علیہ رہا۔ ان کی مخالفت میں اٹھنے والی تمام آوازیں بہت لاغر اور نحیف تھیں۔ کیفیت آج بھی یہی کچھ ہے، لیکن جنرل پرویز مشرف نے ان بکھری مجہول آوازوں کو متحد، توانا اور مقوی کر کے متفق علیہ دستور 1973ء کے بالمقابل لا کھڑا کر دیا۔ قائد کی تقریر اور ان بقیہ امور پر انشاء اللہ اگلی دفعہ گفتگو ہوگی۔