”اِک نہ اِک روز شبِ غم کی سحر بھی ہوگی“

جس علاقے کو 1947ء کے بعد لاہور میں عروج اور شہرت ملی وہ سمن آباد کہلاتا ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ لاہور کی پہلی تاریخی اور خوبصورت سوسائٹی ہے اس زمانے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی کہ سمن آباد کے علاقے میں گھر مل جائے یا پلاٹ۔ سمن آباد کی خوبصورتی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ اس کے ہر بلاک میں ایک خوبصورت گراؤنڈبنائی گئی شاید ہی لاہور میں کوئی ایسی سوسائٹی ہو جس کے ہر بلاک میں سرسبز شاداب گراؤنڈ ہو۔ عوام کی سہولت کے لئے دو مارکیٹیں ایک مین مارکیٹ اور دوسری چھوٹی مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے اس میں عوام کے لئے ہر طرح کی سہولیات موجود تھیں۔ سمن آباد کے چاروں طرف ایک مین روڈ ہے اور اس مین روڈ کے ساتھ ہر بلاک کی سڑک لگتی ہے۔ اپنے زمانے کے بہترین سکول بھی ہیں جن میں قابل اساتذہ کی کمی نہ تھی جوبہترین تعلیم اور تربیت سے بچوں کی آبیاری کرتے دو بہت بڑی ڈونگی گراؤنڈیں بھی ہیں جن میں سمن آباد کے رہائشی صبح کی سیر کرتے اور شام کو تمام بچے ان گراؤنڈز میں کھیلتے اور این بلاک میں ایک اونچی گراؤنڈ بھی ہے جسے اب 5سٹارکہا جاتا ہے۔جہاں اس کے اردگرد کے رہائشی سیر کرنے، بچے کھیلتے اور نوجوان بیڈ منٹن کھیلتے اور ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں اسے آج بھی بیڈمنٹن کلب اور ویٹ لفٹنگ کلب کہا جاتا ہے۔ سمن آباد نہایت سرسز علاقہ تھا 60کی دہائی میں ملک کے نامور لوگ سمن آباد میں رہائش پذیر تھے جن میں صوفی غلام مصطفےٰ تبسم، اشفاق احمد بانو قدسیہ، الطاف حسین (اردو ڈائجسٹ)، احمد ندیم قاسمی،سید وقار عظیم، اے حمید، قتیل شفائی،ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، پروفیسر مشکور حسین یاد، ڈاکٹر ریاض، ڈاکٹر افضل وغیرہ کے علاوہ ملک کے نامور آرٹسٹ کی بھی کثیر تعداد یہاں رہائش پذیر تھی جن میں ساقی، رنگیلا، طارق عزیز، عابد علی، آغا طالش، گلوکارہ مالا، روحی بانو، مسعود رانا، صابرہ سلطانہ،عائشہ تسلیم وغیرہ شامل ہیں۔ سمن آباد میں ادبی محفلیں ہر روز ہوا کرتیں جس کا اہتمام زیادہ تر صوفی تبسم کی رہائش گاہ 8.B میں ہوا کرتا تھا۔ ان محافل میں معروف ادبی شخصیات شرکت کرتیں۔ سمن آباد میں تین (Roundabout) گول چکر ہیں انہی کے درمیان سمن آباد مین مارکیٹ ہے۔ انہی کے اردگرد جونیئر ماڈل سکول، سنٹرل ماڈل سکول، گرلز ہائی سکول،ان سکولوں میں بچوں کو داخلہ بھی بہت مشکل سے ملتا اور یہاں کے محنتی بچے عموماً ٹاپ کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سمن آباد میں سمن آباد گرلز کالج بھی ہے جو بچیوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔
سمن آباد کے باغوں اور باغیچوں کی خاص بات یہ تھی کہ ہم بچپن میں نامور شخصیات کو اکثر سیر کرتے گراؤنڈ میں دیکھتے جو اکثر ہمیں پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی نظر آتے۔ صوفی تبسم خوش قسمتی سے ہمارے دادا تھے جب بھی وہ سیر کو جاتے ہمیں بھی ساتھ لے جاتے وہاں ہم اے حمید صاحب کو بھی دیکھتے جو صوفی تبسم کے ساتھ سیر کرتے اور درختوں کے سائے میں ورزش کرتے، لمبے لمبے سانس لیتے، خوشبودار درختوں اور پھولوں کی خوشبو سے محظوظ ہوتے۔ اے حمید ہمارے گھر سے بہت قریب ہی رہتے تھے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ لاہور کی اس تاریخی اور خوبصورت سوسائٹی پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں۔ پچھلی حکومتوں نے بھی اس پر توجہ نہیں دی اب تو سمن آباد مین مارکیٹ کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی مارکیٹ میں تبدیل کیا جا رہا ہے یہاں گاڑیوں کا اتوار بازار لگتا ہے جس نے سمن آباد کے رہائشیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اصولی طور پر تو گاڑیوں کا اتوار بازار یہاں بند ہونا چاہیے ہم رہائشیوں کا وہاں سے گزرنا بھی محال ہو چکا ہے۔کچھ لوگ سمن آباد کے رہائشی علاقے مین روڈ کو شادی گھر بنائے جا رہے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہے۔ کھڈا مچھلی، سردار مچھلی،ب بیکری وغیرہ کھلنے سے سڑک کو بالکل تنگ کر دیا گیا۔ دکانداروں نے سڑک پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے تمام چولہے ٹیبل و دیگر سامان سڑک پر نظر آتے ہیں جنہوں نے ٹریفک کو بلاک کررکھا ہے۔
یوں سمن آباد کے علاقہ کی تمام خوبصورتی غارت ہو چکی ہے۔ حکومت اس پر توجہ دے یہ سب ہوٹل اور دکانوں کو رہائشی علاقے سے نکالا جائے اور اس کی قدرتی خوبصورتی کوبحال کیا جائے۔دکانداروں کو جرمانہ کیا جائے جنہوں نے اپنی دکانوں اور دکانداری کے لئے فٹ پاتھوں اور سڑکوں کو قبضہ میں لیا ہوا ہے۔صفائی کی حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، کئی کئی دن گھروں کا گند باہر پڑا رہتا ہے کچھ ایسے لوگ بھی یہاں آ چکے ہیں جو گھر کے کچرے کو اٹھوانے کی بجائے گھر سے باہر پھینک رہے ہیں۔ ان پر بھی کوئی جرمانہ نہیں کیا جاتا۔ خاص طور پر خضرامسجد کے پچھلے اطراف ڈونگی گراؤنڈ کی درمیانی سڑک کے دائیں بائیں بے انتہا گندگی کے ڈھیر سے تعفن پھیلا ہوا ہے جہاں لوگوں کا پیدل چلنا محال ہے۔ سونے پہ سہاگا اس سڑک پر اس قدر اندھیرا ہے کہ آئے دن وہاں وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ سمن آباد کے علاقے کے بُرے حالات کی وجہ سے پرانے لوگ یہاں سے مجبوراً نقل مکانی پر مجبور ہیں جو گھر فروخت ہو جاتا ہے ٹھیکیدار خرید لیتا ہے اور اس 8یا 10مرلے کے پلاٹ پر وہ دو تین گھر بنا کر بیچ دیتا ہے جس سے سمن آباد کے علاقے کی خوبصورتی ختم ہوتی جا رہی ہے۔سمن آباد اس وقت لاہور کا مرکزبنتا جا رہا ہے اس وجہ سے رہی سہی کسر یہاں پر ہرروز صبح آٹھ بجے سے ریڑھیوں والے لاؤڈ سپیکر پر اونچی آواز میں اپنے سامان کو بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سے قطع نظر کہ ان کے لاؤڈسپیکر کی آواز سے کتنے لوگ کتنے مریض تنگ ہو رہے ہیں۔ سمن آباد کا اگر یہی حال رہا تو لاہور کا خوبصورت ترین یہ علاقہ مکمل طور پر اندرون شہر کا منظر پیش کرنے لگے گا۔ سمن آباد کے رہائشی آہستہ آہستہ یہاں سے رخصت ہو کر باہر کے علاقوں جا چکے ہیں اور کچھ جانے کا سوچ رہے ہیں۔ پرانے لوگ شاذ و نادر ہی اب نظر آتے ہیں،مگر جو لوگ سمن آباد کو مجبوراً چھوڑ کر دوسری آبادیوں میں چلے تو گئے مگرآج بھی سمن آباد کی محبت کو دل سے نہیں نکال سکے۔ یہ سب لوگ آج بھی نماز عید سمن آباد ڈونگی گراؤنڈ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ ادا کرنا ایک سعادت سمجھتے ہیں۔یہ وہ جوان ہیں جن کا بچپن سمن آباد میں گزرا ہے وہ پرانی یادوں کو تازہ کرکے سمن آباد کو دیکھ کر دل مطمئن کرنے کے بعد اپنے نئے گھر کی راہ لیتے ہیں جہاں وہ آج بھی مطمئن نہیں ہیں۔