تختی لکھنے کیلئے چراغ روشنائی استعمال ہوتی تھی جو لالہ موسیٰ میں بنتی تھی، روشنائی بنانے والا یہ خاندان اب انگلستان میں کامیاب زندگی بسر کر رہا ہے

تختی لکھنے کیلئے چراغ روشنائی استعمال ہوتی تھی جو لالہ موسیٰ میں بنتی تھی، ...
تختی لکھنے کیلئے چراغ روشنائی استعمال ہوتی تھی جو لالہ موسیٰ میں بنتی تھی، روشنائی بنانے والا یہ خاندان اب انگلستان میں کامیاب زندگی بسر کر رہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:53
 تختی لکھنے کے لئے چراغ روشنائی استعمال ہوتی تھی جو لالہ موسیٰ میں بنتی تھی۔ اپنی لالہ موسیٰ تعیناتی کے دوران مجھے یہ روشنائی بنانے والے آصف پرویز(آصف پرویز مشتاق کے سکول میں ہم جماعت تھا۔)اور میاں جاوید سے ملنے کا اتفاق ہوا لیکن تب تک تختی لکھنے کا رواج بہت سمٹ چکا تھا اور اس روشنائی کی مانگ بھی کم ہو چکی تھی۔ روشنائی بنانے والا یہ خاندان انگلستان میں الیکٹرونکس کے کاروبار سے منسلک کامیاب زندگی بسر کر رہا ہے۔
ہمارا ایک زمانہ تھا۔پانچویں جماعت تک سلیٹ پر لکھتے اور جو بھی لکھتے بعض بار زبان سے چاٹ کر صاف کرتے تھے۔ اس سے شاید آج تک ہمیں کیلشیم کی کمی نہیں ہوئی۔ ہمیں صرف پاس یا فیل کا پتہ ہوتا فیصد سے ہم لاتعلق تھے۔کتابوں میں ”مور پنکھ“ اس لئے رکھتے کہ اس سے ذھانت میں اضافہ ہوتا تھا۔ ایسا ہمارا اعتقاد تھا۔ہر سال نئی جماعت کی کاپیوں کتابوں پر کور چڑھنا سالانہ تقریب ہی ہوتی تھی۔ مجھے بہنوں کی کتابوں کاپیوں پر بھی کور چڑھانے پڑتے تھے۔ مار کھانے یا مرغا بننے سے ہماری انا کبھی بھی ہمارے درمیان نہ آئی تھی۔
 میرے دور کے بچے والدین سے کبھی بھی نہ کہہ سکے کہ ”ہمیں ان سے محبت ہے۔“نہ ہی ہمارے والدین یہ کہہ سکے i love you.۔ایسے کہنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ تب محبتیں زبانی نہیں ہوا کرتی تھیں بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سر شار ہوتی تھیں۔اس دور کے انسانوں کی اکثریت اپنی قست پر راضی رہی۔ وہ زمانہ خوش بختی کی علامت تھا۔ اس دور کا موازانہ آج کی زندگی سے کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔  parents day کو کوئی تصور نہ تھا۔ والدین کو استاتذہ پر بھروسہ ہوتا تھا۔ویسے بھی ابھی سکولوں میں کمرشیلزم کا دور نہیں آیا تھا۔
پانچویں کے بعدبعد تختی اور گاچنی سے جان چھوٹ جاتی اور اب سیاہی والے فونٹین پن سے لکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اُن دنوں ’ایگل“ کے قلم(پن) کی بڑی مانگ تھی اور پن کی نب کی خوش خطی جانچنے کے لئے پن کی نب کو بغیر سیاہی کے کاغذ پر پھیرا جاتا اگر نب کاغذ پر روانگی سے چلتی تو وہی پن خریدا جاتا تھا۔ایگل کی قیمت 2 روپے کا تھا اس دور میں مہنگا پن تھا جبکہ”بہادر“ غالباً8 آنے کا تھا۔ کالج پہنچے تو چینی ساختہ”ونگ سنگ“(یہ15روپے کا تھا)بھی مارکیٹ آ چکا تھا لیکن ایگل ایگل ہی تھا۔    
میری پھوپھیاں؛
  میری 6 سگی پھوپھیاں تھیں۔گوجرانوالہ میں میری 2پھوپھیاں ”پھوپھو نشاط“آج کی ڈی سی کالونی سے کچھ آگے رہتی تھیں۔ میرے پھوپھا ایم ای ایس گوجرانوالہ کے کمانڈر تھے۔ ابا جی کی ایک خالہ زاد بہن اور رشتہ میں میری پھوپھی ”پھوپھی رضیہ“(ابا جی کی خالہ زاد بہن تھیں۔)آج کے کمشنر آفس کے بالکل سامنے رہتی تھیں۔ ان کے میاں احسان الحق گوجرانوالہ کے نامور وکیل تھے۔امی جی کی خالہ”خالہ خورشید“گلی نمبر 10 باغبانپورہ رہتی تھیں۔ ان کے خالوشیخ محمد شریف پھلوریہ کی دال گر اں بازار میں سٹیل کے برتنوں کی بڑی دوکان تھی۔ وہ پھلور(انڈیا) کے رہنے والے اور رئیس آدمی تھے۔ میرے والدین اور بہن بھائی تانگے پر انہیں ملنے جاتے جبکہ میں سائیکل پر تانگے کے پیچھے پیچھے ہوتا۔ اس دور میں سڑکوں پر تانگے ہی زیادہ چلتے تھے اور بھیڑ تو بالکل نہیں تھی۔ نہ رکشا نہ ٹیکسی۔ سالم تانگہ بھی صاحب حیثیت لوگ ہی افورڈ کرتے تھے۔ میرا پھوپھی زاد بھائی عمر(جمی) میرا ہم عمر تھا اور جب بھی ہم ان کی کوٹھی کے بڑے لان میں کرکٹ کھیلتے وہ خوب روند مارتا۔ اکثر ہمارا کھیل لڑائی میں ختم ہوتا اور بعض دفعہ میں اس کے روند کی وجہ سے رو بھی پڑتا تھا۔ دیہات کا سیدھا سادہ بچہ۔ ایسے موقع پر میری پھوپھی مجھے پیار کرتی اور جمی کو مصنوعی ڈانٹ پڑ جاتی تھی۔
میری والدہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔ میرا کوئی ماموں تھا نہ خالہ۔ ہم پیار کے ان رشتوں سے محروم ہی رہے۔ نہ کوئی ماموں زاد اور نہ کوئی خالہ زاد۔یوں ہمیں کبھی احساس ہی نہ ہوا کہ یہ کتنے پیار اور محبت کے رشتے ہیں۔ پھوپھیاں تھیں مگر ان سے میل ملاپ کم تھا۔ بچپن ہی سے ہم بہن بھائی شرمیلے جبکہ میں تو کم گو بھی تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -