میں جس نواز شریف کو جانتا ہوں

نقل کفر کفر نہ باشد ،مجھے فون پر ایک سینئر جرنلسٹ کا پیغام موصول ہوا،لکھا تھا کہ احتیاطی تدبیر کے طور پر وزیراعظم نے اپنے استعفے اور ریاستی میڈیا پر خطاب کے ڈرافٹ کی منظوری دے دی ہے۔ ان کی تقریر ریکارڈ ہو چکی اور اس کی کاپی ایک نجی چینل کو بھی دی جا چکی ہے۔اس مبینہ ڈرافٹ اور تقریر میں وزیراعظم نے اپنے اقتدار سے نکالے جانے کی ذمہ داری پاکستان دشمن قوتوں پر عائد کی ہے اور بیان کیا ہے کہ انہیں،انہی قوتوں نے نکالا جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کوپھانسی پر لٹکایا، منتخب حکومتوں کو الٹایا، کارگل کا مس ایڈونچر کیا، امریکہ کی طرف سے ایک کال پر سر جھکا دیا اور ملک کو اندھیروں اور دہشت گردی کے حوالے کر دیا، نظریہ ضرورت والی عدلیہ مشرف اور دیگر آمروں کو کچھ نہ کہہ سکی مگرمنتخب لوگ اس کا آسان ترین شکار رہے ۔۔۔ پیغام کے مطابق یہ سکرپٹ گیارہ صفحوں پر پھیلا ہوا ہے اور ان میں سے تین صفحات استعفے کے حوالے سے ہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ پیغام کسی ساکھ کا حامل نہیں مگر میں جو کچھ جانتا ہوں وہ دوسرے نہیں جانتے۔میں نے یہ پیغام اپنے فون میں محفوظ کر لیا، اس لئے نہیں کہ میں مذکورہ صحافی سے بحث کرکے اسے غلط ثابت کروں گا کیونکہ آپ کتنے لوگوں سے بحث کر سکتے اور افواہ سازی پر باز پرس کر سکتے ہیں،یہ فنکارلوگ ہیں، یہ اس ہنر سے آگاہ ہیں کہ آئین اور جمہوریت کی حمایت پر آپ کو جاہل اور کرپٹ قرار دے دیں،آپ کے خلاف مہم چلا دیں یہ لوگ میڈیا کے شیخ رشید ہیں،میسج بھیجنے والے سے بھی کہیں آگے درفنطنیاں چھوڑنے والے روزانہ مختلف ٹی وی سکرینوں پر قوم کو گمراہ کرتے ہیں، یہ اپنی غلط بیانیوں اور افواہ سازیوں پر سینے پھلاتے ہیں ،میں نے پیغام اس لئے محفوظ کیا کہ اب سائبر کرائم کا قانون موجود ہے۔
مجھے ایک دوسرے جرنلسٹ نے کہا،یہ جرنلسٹ ریاستی اداروں کے خود ساختہ ترجمان اور مفادات کے پاسبان بنتے ہیں، یہ محفلوں میں بتاتے ہیں کہ ان کے تعلقات کہاں، کہاں ہیں اور لیکچر دیتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی اداروں کے اصل مفادات کیا ہیں۔ میں نے ریاستی اداروں کے مبینہ دوست سینئر جرنلسٹ کا پیغام دوبارہ پڑھا اور شدید افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے اداروں کودوست بھی کیسے نامعقول ملتے ہیں۔ کیا اس پیغام کی زبان ریاستی اداروں سے دوستی نبھانے والی ہے ، ہرگز نہیں، ایک دوسرے دوست نے وضاحت کی کہ اس کے ذریعے وہ صحافی ایک خاص موقف کے حق میں فضا ہموار کر رہے اور عوامی ردعمل چیک کر رہے ہیں کیونکہ لوگ انہیں باخبر سمجھتے ہیں ۔مجھے عاصمہ جہانگیر کا ایک پروگرا م میں بیان یاد آگیا کہ’ انہیں ‘اچھے دوست کیوں نہیں ملتے اور ایک شخص کی ریچھ سے دوستی کی کہانی بھی، اس شخص نے ریچھ کو ذمہ داری دی کہ وہ جب سوئے تو وہ اس پر سے مکھیاں اڑاتا رہے، ریچھ مکھیاں اڑاتا رہا مگر ایک مکھی بہت ضدی تھی ، اڑانے کے باوجودبار بار ناک پر آبیٹھتی تھی، ریچھ نے مکھی ناک پر بیٹھتی ہوئی دیکھی تو قریب پڑا ہوا ایک بڑاپتھر اٹھایا اور سوئے ہوئے شخص کی ناک پر دے مارا، مجھے مکھی کے انجام کے بارے علم نہیں کہ وہ پتھر کے نیچے دب کر مری یا نہیں مگر اس شخص کے انجام کا ضرور علم ہے جس کا دوست وہ ریچھ تھا۔اب ریچھ تعداد میں کافی سارے ہیں اورمختلف ٹی وی چینلوں ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اس امر کا جواز پیش کر رہے ہیں کہ پتھر کا استعمال بہت ضروری ہے۔
کہتے ہیں کہ گیارہ صفحوں پر مشتمل ڈرافٹ ہے جس میں سے تین صفحے استعفے بارے ہیں اور یہ تقریر ریکارڈ بھی ہو چکی ہے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ یہ محض بالکل اسی طرح پروپیگنڈہ ہے جس طرح ایک چھوٹے ٹی وی چینل میں کام کرنے والے کھیلوں کے رپورٹر نے خبر دی کہ اڈیالہ جیل میں ایک خاص مہمان آنے والا ہے اور جیل کی صفائی شروع کر دی گئی ہے۔ میں جس نواز شریف کو جانتا ہوں وہ استعفا دینے اور سرنڈر کرنے والا نہیں ہے۔ بارہ اکتوبر ننانوے کی شام کا میں بعد میں ذکر کروں گا، میں اس سے پہلے پنجاب کے ایک گورنر کی با ت کروں گا جس نے میاں نواز شریف کی حکومت جانے پر اپنا عہدہ از خود ہی چھوڑ دیا تھا اور میاں نواز شریف نے سرنڈر کرنے کے اس جرم پراسے کبھی معاف نہیں کیا اور بعد میں وہ شخص مسلم لیگ نون کو توڑ کر بنائے جانے والی قاف لیگ کا پہلا صدر بنا ۔مجھے ایک دوسرے شخص کا بھی علم ہے جو سابق جج تھا اور ایوان صدر میں موجود تھا مگر مارشل لاء لگنے کے باوجود ایوان صدر میں ڈٹ کے بیٹھا رہا اور میاں نواز شریف کووہ شخص بہت پسند آیا ۔اس شخصیت کا ایوان صدر میں بیٹھے رہنا بعد میں شریف خاندان کے کام بھی آیا تھا۔ نواز شریف جس سیاسی رہنماکا نام ہے اس سے بارہ اکتوبر کی شام بندوق کی نوک پر اسمبلیاں توڑے جانے اور استعفا دئیے جانے کی تحریر پر دستخط کروائے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی، نواز شریف کو اچھی طرح علم تھا کہ نہ صرف ایوان وزیراعظم بلکہ لاہور میں ان کے گھر میں بھی پرویز مشرف کے وفادار گھس چکے ہیں، اس گھر میں سب سے بڑا اثاثہ بزرگ والدین بھی موجود تھے اورجان سے پیاری اولاد بھی مگر نواز شریف نے اپنے آئینی اور قانونی حق سے بندوق کی نوک پر بھی دستبردار ہونے سے انکا رکر دیا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف اس حوالے سے اب بھی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دوٹوک فیصلے کااعلان کر چکے ہیں مگر نجانے لوگ خوابوں کی دنیا کیوں بسائے ہوئے ہیں۔
بعض دوستوں کاکہنا ہے کہ جنگ میں کبھی کبھار پیچھے ہٹنا شکست کا اعلان نہیں بلکہ حکمت عملی کاتقاضا ہوتا ہے مگر میرا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں سرنڈر کرنا دراصل پہاڑ سے پھسلنے کے مترادف ہے، ایک مرتبہ آپ ہاتھ ،پاوں اور حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں تو اس کے بعد پاوں کسی سطح پر جمانا اور ہاتھ کسی جھاڑی میں اٹکانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ میاں نواز شریف اگر اس وقت ڈٹ گئے تو ان کی نااہلی سے ان کا کھیل ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد ہی اصل کھیل شروع ہو گا۔ میاں نوازشریف کی طرف سے یہ پیغام بہت ساروں کے لئے پریشانیاں لا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے دشمن قلعے کے دروازے کو اندرکی جانب سے بھی کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے اگلے چند دن بہت اہم ہیں اوریہ بات گذشتہ کالم میں بھی ہو چکی کہ اگر نواز شریف ڈٹ گئے تو میر جعفر اور میر صادق ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی جرات نہیں کریں گے لیکن اگر انہوں نے کمزوری ظاہر کی تو وہ امن اور استحکام کے نام پرسیاسی قلعے کا دروازہ اندر سے کھول دیں گے۔میاں نوازشریف کے دوست جانتے ہیں کہ اس جنگ میں یا تو غازی ہوتے ہیں یا سیاسی شہید اور پیپلزپارٹی جیسی کرپٹ اور نااہل حکومت بھی خواہاں تھی کہ اسے سیاسی شہید کر دیا جائے تاکہ وہ عوام میں سر اٹھا کے جا سکے۔میاں نواز شریف نے اس سینئر جرنلسٹ کے پیغام کی طرح اگر استعفے کا فیصلہ کر لیا تو وہ قانون کی عدالت میں تو اس استعفے کو اعتراف جرم کے طور پر لیا ہی جائے گا مگر اس کے ساتھ ہی وہ عوام کی عدالت سے بھی اپنا وہ مقدمہ ہار جائیں گے جسے وہ دن بدن مضبوط کرتے چلے جا رہے ہیں۔
میں نے ایک خاتون اینکر کا پروگرام ٹھنڈے ٹھارسٹوڈیو کی بجائے لاہور کی سڑکوں پر دیکھا، اس نے ٹوئیٹر پر حیرت کا اظہار کیا کہ زندہ دلان لاہور کس طرح اپنے لیڈر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اس زمینی صورتحال کا اندازہ یقینی طور پر سٹوڈیوز اور ڈرائنگ روموں کے دانشوروں کو نہیں ہوپاتا اور شائد یہی وجہ تھی کہ محترمہ کے شوہر نامدار ایک دوسرے ٹی وی پروگرام میں میاں نواز شریف کے سرنڈرکی بھرپور وکالت کر رہے تھے۔میں نے اپنے بہت سارے دوستوں سے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی بھی ایسا شخص ملا جس نے پچھلے عام انتخابات میں نواز شریف کو ووٹ دیا ہو اور پاناما کے بعد وہ ان کی قیادت سے برات اور سیاست سے بے زاری کا اظہار کر رہا ہو، انہوں نے گواہی دی کہ ایسا ایک بھی شخص موجود نہیں، میں نے کہا ہو سکتا ہے کہ دس میں سے ایک شخص ایسا ہو مگر آپ کو پی ٹی آئی اور پی پی پی کو ووٹ دینے والے دس میں سے پانچ ضرور ان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے نظر آئیں گے، ہاں ، ایک سوال میاں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات کا بھی ہے تو اس کا جواب زوردار قہقہے کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟