”نوازشریف نے دستاویزات چھپائیں ، فیصلہ کرنا ہے کیس نیب کو بھیجنا ہے یا نوازشریف کو نااہل کرنا ہے“، سپریم کورٹ نے پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی

”نوازشریف نے دستاویزات چھپائیں ، فیصلہ کرنا ہے کیس نیب کو بھیجنا ہے یا ...
”نوازشریف نے دستاویزات چھپائیں ، فیصلہ کرنا ہے کیس نیب کو بھیجنا ہے یا نوازشریف کو نااہل کرنا ہے“، سپریم کورٹ نے پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ کہنا غلط ہے کسی کو موقع نہیں دیا گیا ، سب کو موقع دیا گیا مگر کسی نے کہا یاد نہیں اور کسی نے کہا اکاوئنٹنٹ کو پتہ ہو گا ۔بتایا گیا تھا اثاثوں کے ذرائع اور تمام دستاویز ات موجود ہیں مگر ہم ایک سال سے ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔دستاویز کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے کہ کیس نیب کو بھیجنا ہے یا نوازشریف کو نااہل کرنا ہے۔نوازشریف کے جواب سے معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔نوازشریف نے دستاویزات چھپائیں۔اثاثے نوازشریف کے ہیں تو وضاحت بھی انہیں دینی ہے۔لندن فلیٹس کا مالک کون ہے فیملی کو کچھ پتہ ہی نہیں۔سوالات کے جواب میں کہا گیا میں نہیں جانتا، یاد نہیں ، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔وزیر اعظم سے لندن فلیٹس کا پوچھا گیا تو جواب دیا معلوم نہیں ۔ انکی سوچ تھی کچھ تسلیم نہیں کرنا۔ وزیر اعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے مگر علم کسی کو نہیں۔رپورٹ کے کسی حصے کی تردید نہیں کی گئی ۔ فلیٹس کا معاہدہ پیش کردیا جاتا تو بات ختم ہو جاتی ، ملک کے وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں بیان دیا ۔ رپورٹ میں مزید بہت کچھ سامنے آگیا یہ الگ بات ہے۔نوازشریف نے خود کہا تھا میں تفصیلات خود فراہم کرونگا ۔دستاویزات شریف خاندان نے فراہم کرنا تھیں۔ اصل ایشو 4فلیٹس کے گرد گھومتا ہے۔نوازشریف نے اثاثے تسلیم کیے اور کسی بھی سطح پر اعتراض نہیں اٹھایا۔ملکیت کو دستاویز سے ثابت کرنا پڑیگا یہاں کریں یا ٹرائل کورٹ میں۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سنے ، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں فریقین کے اثاثوں کی مکمل چھان بین نہیں ہو سکتی۔کیا 13سوالات کی بنیاد پر ختم مقدمات کی دوبارہ سے پٹتال نہیں ہو سکتی ؟ انکوائری کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ، حدیبیہ کو شامل کرنا ہے یا نہیں فیصلہ ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے۔ عدالت فیصلہ اس وقت کرتی ہے جب حقائق غیرمتنازع ہوں ۔ اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر فیصلہ نہیں دے سکتے۔ تفتیش پر فیصلہ ٹرائل کورٹ کرتی ہے۔جے آئی ٹی اور اس کی رپورٹ تفتیشی افسر کی رپورٹ ہے۔ہم نے جے آئی ٹی کی رائے نہیں مٹیریل دیکھنا ہے۔
بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بہت سے معاملات آپس میں جڑے ہوئے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جا سکتا ۔دیکھنا تھا کہ رقم کہاں سے آئی ۔۔ اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا ۔جائزہ لینا الگ معاملہ ہے اور از سر نو تعین الگ بات ہے۔جہاں تک مجھے یاد ہے لندن فلیٹس پر پہلے بھی تحقیقات ہو تی رہی ہیں۔ جہاں تک مکمل تحقیقات نہ ہوں مکمل معاملے کو دیکھنا وہ گا ۔ اسحاق ڈارکا بیان التوفیق کمپنی سے منسلک ہے ۔اثاثے نوازشریف کے ہیں تو وضاحت بھی انہیں دینی چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا ۔جائزہ لینا الگ معاملہ ہے اور از سر نو تعین الگ بات ہے۔جہاں تک مجھے یاد ہے لندن فلیٹس پر پہلے بھی تحقیقات ہو تی رہی ہیں۔ جہاں تک مکمل تحقیقات نہ ہوں مکمل معاملے کو دیکھنا وہ گا ۔ اسحاق ڈارکا بیان التوفیق کمپنی سے منسلک ہے ۔۔ آپ کے موکل نے تو اپنے خالو کو بھی نہیں پہچانا ، کیاآپ کی اپروچ یہ تھی کہ جے آئی ٹی کو کچھ نہیں بتانا ؟فیملی کی اپروچ کیا ہے آپ دیکھ رہے ہیں ، ۔ جے آئی ٹی خود کرے جو بھی کرنا ہے۔ جب ہر بات کی تردید ہوتی رہی تو جے آئی ٹی کو کیا کرنا چاہیے تھا؟وزیر اعظم نے قطری خط نہ دیکھنے کا موقف اپنایا۔شریف خاندان نے جواب میں کہا یا دنہیں ، پتہ نہیں، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ منی ٹریل کی رقم سیاستی مقاصد کیلئے استعمال کی گئی تو جواب آیا نہیں۔والیم 10شواہد سے متعلق نہیں ہے۔ہل میٹل کی رقم سے جماعت کو 10کروڑ کی گرانٹ دی گئی ۔نوازشریف نے دستاویزات چھپائے ۔ نوازشریف نے خود کہا تھا میں تفصیلات فراہم کرونگا ۔
بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نوازشریف نے اڑھائی گھنٹے بعد خالو محمد حسین کو پہچانا ۔وزیر اعظم نے جواب دیا شائد ریکارڈ سپیکر کو دیا ہو یاد نہیں ۔ وزیر اعظم نے جواب دیا شائد حسن مالک ہے۔ بتایا جائے وزیر اعظم نے دبئی میں کام کرنے کیلئے اقامہ تو لیا تھا نہ؟جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وزیر اعظم نے ایف زیڈ ای کی بنیاد پر 2012ءمیں اقامہ لیا تھا ۔ وزیر اعظم کے خالو کا 40سال قبل انتقال ہو گیا تھا ۔شریف فیملی آپس میں بہت قریب ہے۔ہم نے رپورٹ پر فیصلہ نہیں کرنا ، جے آئی ٹی رپورٹ نہیں بلکہ دستاویز دیکھیں گے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اس کی سفارش کر دی ۔جے آئی ٹی اپنی تجاویز اور سفارشات دے سکتی ہے۔ عمل کرنا ہے یا نہیں فیصلہ عدالت نے کرنا ہے ۔عدالت نے اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنا ہیں۔ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں ۔ حکم جاری کرنے کا اختیار جے آئی ٹی کو نہیں بلکہ عدالت کو حاصل ہے۔ ہم الفاظ کے چناﺅ میں اختیاط کر رہے ہیں ۔ آپ نے اپنے جواب میں دستاویزات کی تردید نہیں کی جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری درخواست قانونی نکات پر ہے۔ وزیر اعظم تو کہتے رہے کچھ معلوم ہی نہیں۔والیم 10کو جے آئی ٹی نے خفیہ کہا ہم نے نہیں ۔اصرار کرتے ہیں تو والیم 10کو بھی کھول دیتے ہیں۔ بتایا جائے نوازشریف ایف زیڈای کے چیئرمین ہیں یا نہیں ؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایف زید ای کے مالک حسن ہیں ۔وزیرا عظم ایف زیڈ ای سے تنخواہ نہیں لیتے ۔ آپ کو دستاویز جمع کرانے کا موقع دیا گیا ۔ خیال یہی تھا اپنا موقف کھل کر پیش کریں۔
سماعت کے آغاز میں وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کیخلاف کسی مقدمے کو دوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا ۔ عدالت نے جے آئی ٹی کو13سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا ۔خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے لائی گئی دستاویز تصدیق شدہ نہیں اور نہ ہی وہ نوازشریف کے سامنے رکھی گئی تھیں۔ ایک کیس جس کا فیصلہ ہو چکا اسے دوبارہ کھولنے کا نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی مزید گواہ سے پوچھ گچھ کا کہا گیا ۔جے آئی ٹی اپنی سفارشات میں کیس کھولنے کا نہیں کہہ سکتی۔ جے آئی ٹی کو وزیر اعظم اور زیر کفالت افراد کے اثاثوں کی چھان بین کا حکم دیا گیا ۔ ایف آئی اے ، نیب کے پاس شواہد اور لندن فلیٹس کے جائزے کا کہا گیا ´۔ وزیر اعظم نوازشریف ایف زیڈ ای کے مالک نہیں اور نہ ہی تنخوا ہ لیتے ہیں ۔ وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک نہیں۔وزیر اعظم 1985ءتک کاروبار کرتے رہے جس کے بعد انکا کاروبار میں کوئی کردار نہیں۔جے آئی ٹی نے 13سوالات کے ساتھ مزید 2سوال اٹھائے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ وہ 2سوال کون سے ہیں ؟ آپ کہناچاہتے ہیں جائیدادوں کی نشاندہی کا مینڈیٹ جے آئی ٹی کے پاس نہیں ۔

وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل( بدھ) تک ملتوی کر دی ، کل بھی انکے دلائل سنے جائیں گے۔

مزید :

قومی -اہم خبریں -