بریگیڈئیر(ر)صولت رضا کے غیر فوجی کالم (2)

آخر ہمارے محترم جج صاحبان غیر عدالتی دباؤ کے موقع پر مستعفی کیوں نہیں ہوجاتے۔ریٹائر منٹ کے بعد عدالتی ناانصافیوں کی شرمناک کہانی بیان کرنے سے بہتر تھا کہ ججز اپنے ہاتھوں سے انصاف کو قتل کرنے سے پہلے خود سپریم کورٹ سے استعفیٰ دے دیتے یا انصاف کو ذبح کرنے سے انکار کر دیتے۔مگر ہماری اعلیٰ عدالتوں کے ججز میں اتنا دم خم کہاں۔ جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو توڑا، جب پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ ہوا اور سکندر مرزا کے بعد فوجی آمر جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا، اسی طرح جب جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977 ء اور جنرل پرویز مشرف اکتوبر 1999ء میں دستور پاکستان سے انخراف کرتے ہوئے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے لیے شب خون مارا تو سپریم کورٹ کے ججز کا یہ کردار رہا کہ
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت ِ قیام آیا
صولت رضا نے اپنی کتاب میں شامل ایک کالم میں جنرل کے ایم عارف کی ایک کتاب کے حوالے سے یہ واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انوار الحق نے سید شریف الدین پیرا زادہ کو جب باقاعدہ فیصلہ سنانے سے پہلے یہ بتا دیا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نافذ کرنے کے اقدام کو آئینی طور پر درست قرار دے رہے ہیں تو جواباً شریف الدین پیر زادہ نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو قانونی طور پر درست قرار دینے کے ساتھ ساتھ آپ کو جنرل ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات بھی دینا ہوں گے۔سپریم کورٹ کسی بھی صورت ایک مارشل لاء ایڈ منسٹریٹرکو آئین میں ترمیم کے اختیارات نہیں دے سکتی تھی۔لیکن شریف الدین پیر زادہ کی دھمکی پر کہ اگر سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات کے حق میں فیصلہ نہ دیا تو جسٹس انوار الحق خود کو چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب سے فارغ سمجھیں۔سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء الحق کوآئینِ پاکستان میں ترمیم کے اختیارات بھی دے دئیے۔اس سے زیادہ ظلم یا اس سے زیادہ دستورِ پاکستان کے ساتھ بھونڈا مذاق سپریم کورٹ اور کیا کر سکتی تھی۔ صولت رضا نے اپنے ایک اور کالم میں یہ کڑوا سچ بھی لکھا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں بعض ایسے جج صاحبان بھی تھے جو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ مصافحہ کی تصاویر اخبارات میں شائع کروا کر اسے اپنے لیے دنیا اور آخرت کی کامیابی سمجھتے تھے۔مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سب ادارے جنرل ضیاء الحق کی ذات میں مرتکز ہو چکے تھے۔یہ سچائی صولت رضا کے”غیر فوجی کالم“ میں ہی بیان کی جاسکتی تھی کہ جنرل ضیاء الحق کے غیر جمہوری اور غیر آئینی دور میں ریاست کے تمام ستون آمرانہ پالیسیوں کے باعث دیمک زدہ ہوچکے تھے۔ پاکستان وہ بد قسمت ملک ہے جسے مارشل لاء کی دیمک باربار لگ چکی ہے۔ 1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو اس وقت بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کا پاکستان کی حکومت پر غاصبانہ قبضہ تھا۔ جنرل ایوب خان نے صرف 1956ء کا آئین نہیں توڑابلکہ اس نے اپنے بنائے ہوئے دستورکو اُس وقت توڑ ڈالا تھا۔جب اُس نے دستور کے مطابق اقتدار قومی اسمبلی کو منتقل کرنے کی بجائے ایک تازہ دم چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان کو منتقل کردیا اور پھر جنرل یحییٰ خان کے قوم کے منتخب نمائندوں کو حکومت منتقل نہ کرنے کے نتیجہ میں قائداعظم کا پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔میں یہ نہیں کہتا کہ المیہ مشرقی پاکستان صرف جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کی غلط پالیسیوں اور در پردہ سازشوں کے نتیجہ میں رونما ہوا۔سقو ط مشرقی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا اور پھر ہماری عاقبت نا اندیشیوں کا ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی پورا فائدہ اُٹھایا۔
صولت رضا کے ایک کالم میں یہ خوشبو دار جملہ بھی موجو د ہے کہ انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ (ق) کے سیاسی عقد کو بدبو دار رفاقت قرار دیا۔ صولت رضا نے اپنے کالموں میں ایسے سیاست دانوں پر بھی سخت تنقید کی ہے جو صرف اپنے مفادات اور ہوس اقتدار کی خاطر فوجی وردی کو آگے کر دیتے ہیں یا خود فوجی وردی کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ صولت رضا کا یہ تجربہ بھی مکمل طور پر درست ہے کہ پاکستان کی ریاست کے نظام حکمرانی کو بگاڑنے کے صرف فوجی حکمران ہی ذمہ دار نہیں ہمارے سیاستدانوں نے بھی دامے درمے سخنے سیاست کا چہرہ بگاڑنے میں بھر پور کردار ادا کیا ہے حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت جن کے پاس زیادہ طاقت تھی اور بوقت ضرورت لاٹھی گولی کا استعمال کرسکتے ہیں انہوں نے پاکستان کے نظام سیاست اور جمہور کی حکمرانی کے تصور کو زیادہ نقصان پہنچا یا ہے۔صولت رضا کا یہ جملہ تو سات زبانوں میں لکھا جانا چاہیے کہ ایک مکروہ کھیپ ہر وقت عسکری سربراہ کی خدمت کے لیے عالم سپردگی میں موجود رہتی ہے“ صولت رضا نے یہ جملہ اپنے کالم میں دسمبر 2007 میں لکھا تھا اب 2023 ہے اس وقت تو گروہ در گروہ ایسے سیاست دان موجود ہیں جو سپہ سالار کی خوشنودی کے لیے اپنا ہر اصول قربان کرنے کے لیے تیا ر ہیں۔جس طرح مکروہ سیاست دانوں کو قطار اندر قطار جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) میں جمع کیا گیا تھا 2018 میں اقتدار میں لانے کے لیے عمران خان کی تحریک انصاف کو بھی اسی طرح کے بے اصول سیاست دانوں سے بھر دیا گیا تھاعمران خان کے ناکام تجربے کے بعد جب عمران خان کی حکومت کا چوتھا سال تھا تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا کہ اب فوج سیاست سے دور رہتے ہوئے خود کو صرف اپنے آئینی کردار تک محدود رکھے گی یہاں میں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ نے صولت رضا کے لکھے ہوئے ”غیر فوجی کالم“ پہلے پڑھ لیے ہوتے تو وہ کبھی عمران خان کو غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتدار میں لانے کی کوشش نہ کرتے ہمارا چلن اور طرز زندگی یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھتے۔ بریگیڈئیر (ر) صولت رضا نے 31 سال فوج میں رہنے کے بعد اپنے کالموں کے ذریعے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ فوجی جرنیلوں کو سیاسی معاملات سے دو ر رہنا چاہیے اور سیاست دانوں کو بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی نہیں مارنی چاہیے۔قوم کو بھی ایسے سیاست دانوں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے جو محض اپنی سیاسی اغراض کی خاطر فوجی جرنیلوں کو دانستہ یا نا دانستہ طور پر سیاست کے میدان میں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔جنرل عاصم منیر نے بھی جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرح یہ اعلان کیا ہے کہ ان کے دور میں فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا اگر وہ ایک فل ٹائم چیف آف آرمی سٹاف کی طرح اپنی قائدانہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو صرف اس دائرہ کار تک محدود رکھیں گے جو آئین پاکستان میں ان کے لیے مقررہ ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ پھر فوج اور عوام میں محبت کا رشتہ مضبوط سے مضبو ط تر نہ ہوتا چلا جائے اور سازشی عناصر جو فوج اور عوام کے درمیان دراڑیں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کے مکروہ عزائم ہمیشہ کے لیے ناکام ہو جائیں گے۔(ختم شد)