بطور مسلمان ہم سب جانتے ہیں کہ شیطان نے جب اللہ کی حکم عدولی کا اِرتکاب کیا تو وہ راندہ درگاہ کر دیا گیا۔ مردُود ہو گیا۔ جنت سے نکال دیا گیا۔ لیکن رب العزت کے دربار سے نکلتے نکلتے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک زندہ رہنے کا نہ صرف پروانہ لینے میں کامیاب ہو گیابلکہ چلتے چلتے اللہ کریم کو چیلنج بھی دے دیا کہ اس اشرف المخلوقات کی میَں ”مت مار“دوں گا اور دیکھوں گا کہ اللہ کا بنایا ہوا یہ شاہکارمیرے ہتھکنڈوں سے کیسے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کا چیلنج قبول تو کر لیا لیکن ساتھ ہی Damage Control کے فوری انتظامات شروع کر دیئے۔ بنی نوع انسان کی رہنمائی اور اُسے شیطانی چکروں سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں اور نبیوں کی قطار لگادی،وحی کی صورت میں اپنی کُتب ہم اِنسانوں کی ہدایت کے لئے یکے بعد دیگرے نازل کر دیں۔شیطان کے نرغے سے بچنے کے لئے ہمیں ہدائت کر دی کہ ہر نماز سے پہلے قرآن کی ہر سورت سے پہلے اور ہر اچھا کام شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطان ارجیم کا دعایہ کلمہ پڑھو۔ یعنی شیطان کے بہکاوے سے محفوظ رہنے کی دُعا۔
چونکہ حضرتِ انسان کا ٹاکر ا شیطان سے اس دنیا میں ہر موقع پر ہونا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مناسب حفاظتی اِنتظامات کر کے اور اُنہیں اچھے بُرے کا شعور دے کر تجسُس کی جبلّت پیدا کر کے اور ایک حد تک با اختیار بنا کر اُنہیں میدانِ جنگ میں اُتار دیا۔ شیطان اللہ تعالیٰ کا کوئی معمولی مدِ مقابل تو نہیں تھا۔ اُس کو اللہ نے اپنا قرب خود ہی عطا کیا تھا۔ ابلیس اسی قربت اور افراطِ عبادت کی وجہ سے تکبّر میں آیا اور صرف ایک سجدے سے انکاری ہواجس کی وجہ سے وہ جنت سے نکال دیا گیا۔ روزِ ازل سے ہی اب وہ ہم کمزور بندوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ انسانی جبلّت کو پوری طرح سمجھ کر اور اِنسان کے اندر کی پیدائشی کمزوریوں پر مکمل عبور حاصل کر کے،ابلیس آہستہ آہستہ صدیوں سے انسان پر ھاوی ہوتا جا رہا ہے۔ ابلیس یہ تو جانتا تھا کہ انسان کے خمیر میں اللہ تعالیٰ نے تجسُس کے علاوہ خفیف سی آمیزیش شیطانی خصلتوں یعنی جھوٹ، لالچ، حسد، غیبت، انتقام اوربہتان کی بھی رکھی ہے۔ بقیہ انسانی بُرائیاں ان ہی بڑی کمزوریوں سے جنم لیتی ہیں۔ مثلاً، دھوکہ دہی، چوری، حرام خوری، موقع پرستی،وعدہ خلافی، عدم برداشت وغیرہ۔
اسے آپ میری خام خیالی تصورکر لیں، میرے نقطہء نظر سے شیطان کی اپنی کوئی بُری یا اچھی خصلت نہیں ہے۔ یہ سب خصلتیں ہم انسانوں میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ شیطان دراصل ہمارے اندر ہی دُبک کر بیٹھا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی انسان کو بے انتہا لالچی دیکھتے ہیں تو ہم اُس کو شیطانی خصلت والا انسان کہہ سکتے ہیں۔ حالانکہ لالچ کا منفی جذبہ تو اُس بندے میں پہلے سے موجود ہوتا ہے، شیطان صرف یہ کرتا ہے کہ اُس منفی جذبے کو اتنا شدیدکر دیتا ہے کہ انسان لالچ کے زیر اثر ہو کر ذخیرہ اندوزی، چوری، ڈکیتی، رشوت، دھوکہ، ملاوٹ اور ہر قسم کی دو نمبری کا اِرتکاب کرتا ہے۔دولت کا حصولِ اُس کی زندگی کا واحد مقصد بن جاتا ہے۔ لالچ کا ایک منفی رُخ حسد بھی ہے۔ میَں جب اپنے ہمسائے، دوست یا رشتہ دار کو خوشحال دیکھتا ہوں، اچھی زندگی گذارتے دیکھتا ہوں تو مجھے رشک ہونے کی بجائے حسد شروع ہو جاتا ہے۔ میَں خوشحالی حاصل کرنے اور دولت کے حصول کے لئے وہی ناجائز طریقے استعمال کروں گا جو میں نے لالچ کی تسکین کے لئے استعمال کئے مثلاً رشوت، دھوکہ دھی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ وغیرہ۔اگر میَں شیطان کی حقیقت کو فلسفے کے حوالے سے آسان زبان میں بیان کروں تو اللہ تعالیٰ کی Thesis انسان تھا اور اللہ نے خود ہی اس کی Anti-thesis شیطان کی شکل میں پیدا کر دی۔ غالباً علامہ اقبال کی اِسی نظری سوچ کے تحت مکالمہ ابلیس، جبریل کی نظم پڑھ کر شیطان سے کچھ ہمدردی سی پیدا ہو جاتی ہے۔ بقول حضرت جبریل ”کھودیئے اِنکار سے تو نے مقامات بلند“ اور ابلیس کا یہ کہنا کہ ”ہے میری جُرأت سے مثتِ خاک میں ذوقِ نمو“ شیطان کا یہ جملہ دراصل ہماری دنیا کی روز بروز بڑھتی ہوئی چکا چوند کی وجہ بیان کرتا ہے۔بُرائی اور اچھائی کا ٹکراؤ ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ زرتشت مذہب میں ”اھرمن(بُرائی) اور ”مازدا (اچھائی)“ ہندو مذہب میں دھرم اور راکشش، سکھ مذہب نے بُرائی کے پانچ ”کارن“ (Source) بنا دیئے یعنی ”موہ، لوبھ، کرودو، کام اور افکار“ اُردو میں اِن کا ترجمہ ہوا ”دنیاوی لگاؤ، لالچ، غصہ، نفسانی خواہش اور خود پر گھمنڈ“۔ بھائی مذہب کے مطابق بُرائی اور اچھائی دونوں اِنسان کے اپنے اندر موجود ہیں۔ مسیحی اور یہودی مذاہب میں شیطان کا الگ وجود ہے جس طرح کہ مذہب اسلام میں ہے۔
سچ پوچھیں توحقیقت ہے کہ اِنسانی منفی جبلتوں نے ہی اس دنیائے رنگ و بو کو رونق بخشی، اِنسان کا ہر منفی جذبہ اس دنیا کی ترقی کا باعث بنتا چلا گیا۔ میَں قدیم اِنسانی معاشرے کو پیچھے چھوڑتا ہوا، مسلمانوں کی تاریخ جو رسولِ کریمؐ کی وفات کے 24 سال بعد سے شروع ہوتی ہے، اُس میں پہلا فتنہ جو حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ کے درمیان جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا وہ دراصل بنی اُمیہ اور بنی ہاشم کے درمیان دو صدیوں کا ”حسد“کا شیطانی جذبہ تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اِبتدائی تاریخ میں خونریزی نظر آتی ہے جو حسد، انتقام اور لالچ کے اِنسانی یا شیطانی جذبوں کا نتیجہ ہے۔ اِنسان کے اجتماعی لالچ کی بہترین مثال سامراجی دور (Colonialism) کی شروعات ہے۔ صنعتی اِنقلاب کے بعد یورپ کے ملک ایشیاء اور افریقہ کے ممالک پر خام مال حاصل کرنے کے لئے چڑھ دوڑے۔ کمزور ملکوں پر قبضہ کرنے کی کوشش تو ہر یورپی ملک نے کی لیکن اِن میں پیش پیش برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال اور سپین رہے۔ جرمنی اور اٹلی اس لوٹ مار کے کھیل میں پیچھے رہ گئے۔ خام مال حاصل کرنے کا لالچ تو اِن کو بھی تھا لیکن یہ دونوں صنعتی ملک سامراجی دوڑ میں بڑے ڈاکوؤں کا مقابلہ نہ کر سکے۔ جرمنی کے ہٹلر کو برطانیہ کے ہاتھوں پہلی جنگِ عظیم کی شکست کا غصہ اِنتقام کی شکل میں بدل چکا تھا۔ خام مال کے حصول کا لالچ جرمنی کو بھی تھا۔ یعنی شیطانی خصلت غصہ، انتقام اور لالچ، ہر سہ عناصر دوسری جنگِ عظیم کا باعث بنے۔ غصہ اور اِنتقام ایٹم بم کی ایجاد کا باعث بنا اور دنیانے پہلی مرتبہ لاکھوں اِنسانوں کو پلک جھپکتے ہی موت کے منہ میں جاتے دیکھا۔ عرب ممالک میں تیل کی پیداوار نے امریکہ کے لالچ کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ جدید دنیا میں ہر دو جنگِ عظیم لالچ اور اِنتقام کی خون آشام شکلیں تھیں۔ اِن جنگوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بنیادی سامانِ حرب کی ایجادیں ہوئیں جو ہائی ٹیکنالوجی کی شکل میں جنگ کے خاتمے کے بعد شہری آبادی کے آرام اور آسائش کا باعث بنیں۔ ہوائی سفر، ٹیلیفون، ٹیلی ویژن، موٹر سائیکلیں اور جیپیں (Jeeps)، کمپیوٹر، مصنوعی ریشم، دوائیں، کیمیکل رنگ، خوشبویں، پلاسٹک، قسم قسم کے تعمیراتی سامان،Tools، مصنوعی چمڑا۔اِتنی ساری ایجادات اور مصنوعات اِنسانی بہبود کے لئے معرضِ وجود میں نہیں آئی تھیں بلکہ یہ تو شیطان کی بھڑکائی ہوئی عظیم جنگوں کے استعمال کے لئے ایجاد کی گئی تھیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد یہی ایجادیں کچھ ردوبدل کے ساتھ دنیا والوں کی آسائشوں کا سبب بنیں۔
جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد نیا سامراج امریکہ کی شکل میں قریباً نصف دنیا پر مسلط ہو گیا۔ تیل کی دولت نے عربوں کی”مت“ماردی۔ عیش و عشرت کی اِنتہا کر دی۔ سونے کی مانگ ہوس کی شکل اختیار کر گئی۔ بُرائیوں سے اجتناب کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے احکامات بھیجے، اپنا رسولؐ بھیجا تاکہ عرب کے لوگ شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچے رہیں،اِن ہی ممالک نے مجرمانہ اسراف، شراب، بدکاری، عریاں ڈانس، جوئے خانوں کو اپنے عوام کے لئے عام کر دیا۔ بلند و بالا عمارتوں میں مالی اور اخلاقی گناہ، جن سے اللہ تعالیٰ نے بچنے کے لئے کہا ہے، وہی بِلا روک ٹوک ہونے لگے۔ سُود اور سٹہ شیطانی فعل ہیں جو صرف عرب ممالک میں ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان ممالک میں اعلاناً یا چوری چھپے انجام دیئے جاتے ہیں۔ جن کاموں کو اللہ تعالیٰ شیطانی کھیل کہتا ہے اُسے ہم لوگ ترقی کہتے ہیں۔ قرآن اور حدیث کی اپنی مرضی سے تشریح کرتے ہیں۔ شیطان یقینا اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ قرآن کا فرمان ہے، لیکن اِنسان کے اندر بھی شیطان کی خصلتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم انسان عیش و عشرت کی صورت میں، کمزور انسانوں کا حق مار کر، قتل و غارت گری کے ذریعے، عورتوں بچوں کی عزت کی پامالی کر کے، لوٹ مار کا بازار گرم کر کے، ملک سے غداری کر کے، شیطانی خصلتوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ ذرا سوچئے، اگر شیطان کا وجود اِنسانوں کی شکل میں نہ ہوتا تو اَخباروں کا کاروبار کیسے چلتا، چٹخارے دار خبریں اور مباحثے ہمیں کہاں نظر آتے، ہر اِشتہار میں نوجوان لڑکیاں اپنے جسمانی خدوخال کی نمائش کرتی کس طرح نظر آتیں، کالے دھن سے خریدی ہوئی چمک دمک نظر آتی ہے،ہم اِنسانوں کی زندگی پھیکی پھیکی ہوتی اگر شیطان نہ ہوتا۔ پھر علامہ اِقبال یاد آتے ہیں جب اِبلیس حضرت جبریل ؑ کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔
گر کبھی خلوت میّسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہِ آدم کو رنگین کر گیا کس کا لہو