انقرہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) ترکی نے دفاعی شعبے میں نمایاں پیش رفت کی ہے اور زمینی، فضائی اور بحری صلاحیتوں میں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہے۔ الجزیرہ کے مطابق نیٹو کی دوسری بڑی فوج رکھنے والے ترکی نے نہ صرف اپنے دفاعی سازوسامان کی تیاری شروع کی بلکہ عالمی سطح پر اسلحے کا ایک اہم برآمد کنندہ بھی بن گیا ہے۔
ترکی کی دفاعی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ 2024 میں یہ 7.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو ایک دہائی قبل 1.9 ارب ڈالر تھیں۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک ترکی کے تیار کردہ ہتھیار خرید رہے ہیں۔ ترکی نے 1985 میں ڈیفنس انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ سپورٹ ایڈمنسٹریشن آفس (SAGEB) قائم کیا جو ابتدا میں بین الاقوامی تحقیق و ترقی پر توجہ مرکوز کرتا رہا۔ لیکن جب ترکی کو ہتھیاروں کی خریداری اور ان کے استعمال پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے مقامی پیداوار پر توجہ دینا شروع کی۔
سنہ 2010 کے بعد ترکی نے مکمل طور پر مقامی ہتھیاروں کے ڈیزائن اور تیاری پر کام کیا، جس کے نتیجے میں دفاعی صنعت میں زبردست ترقی ہوئی۔ آج، ترکی میں دفاعی صنعت سے وابستہ ہزاروں کمپنیاں موجود ہیں جو جدید جنگی سازوسامان تیار کر رہی ہیں۔
ترکی کی سب سے مشہور دفاعی برآمدات میں بائراقدار ٹی بی 2 ڈرون شامل ہے جو 2014 میں پہلی بار تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انکا ایس ڈرون 200 کلوگرام وزنی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ ویسٹل کارایل 70 کلوگرام کا پے لوڈ لے جا سکتا ہے۔
ترکی جدید فضائی دفاعی نظام "سٹیل ڈوم" پر بھی کام کر رہا ہے جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے فضائی خطرات کی شناخت اور ان کا تدارک کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی اپنا پہلا مقامی ففتھ جنریشن کا لڑاکا طیارہ "ترکش قان" بھی تیار کر رہا ہے، جو امریکی ایف 16 طیاروں کی جگہ لے گا۔
زمینی جنگی سازوسامان میں ترکی کا التائے مین بیٹل ٹینک نمایاں حیثیت رکھتا ہے، جو مغربی ممالک کے جدید ٹینکوں جیسے جرمن لیوپرڈ اور امریکی ابرامز کا متبادل سمجھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بارودی سرنگوں سے محفوظ گاڑی کرپی اور جدید بکتر بند گاڑیاں کپلن اور پارز بھی ترک فوج کے استعمال میں ہیں۔
بحری دفاع کے شعبے میں بھی ترکی نے بڑی پیش رفت کی ہے۔ "ملجم" منصوبہ 2004 میں شروع کیا گیا جس کے تحت جدید جنگی بحری جہاز تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت آدا کلاس کارویٹ اور استنبول کلاس فریگیٹ تیار کی جا چکی ہیں، جبکہ مزید جدید جنگی جہاز اور آبدوزیں بنانے کا منصوبہ جاری ہے۔
ترکی کی سب سے بڑی بحری کامیابی ٹی سی جی انادولو ہے، جو 2023 میں تعینات کی گئی تھی۔ یہ ایک جدید ڈرون بردار حملہ آور بحری جہاز ہے، جو ترک بحریہ کی سب سے بڑی جنگی کشتی سمجھی جاتی ہے۔ ترکی نے جدید میزائل اور سمارٹ ایمونیشن سسٹمز میں بھی خاصی ترقی کی ہے۔ ان میں بورا شارٹ رینج بیلسٹک میزائل اور اتماجا لانگ رینج میزائل شامل ہیں۔
ترکی کی دفاعی صنعت کی ترقی کا ایک سبب عالمی دباؤ اور اسلحے کی خرید و فروخت پر عائد پابندیاں بھی ہیں۔ سنہ 1970 کی دہائی میں امریکہ نے قبرص میں ترک مداخلت کے بعد ترکی پر اسلحے کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ سنہ 1990 کی دہائی میں جرمنی نے بھی اسلحے کی برآمد پر پابندی لگا دی، جب ترکی پر الزام لگا کہ وہ جرمن بکتر بند گاڑیاں اندرونی جھڑپوں میں استعمال کر رہا ہے۔
سنہ 2020 میں امریکہ نے ترکی پر روسی ایس 400 دفاعی نظام خریدنے کی پاداش میں پابندیاں عائد کیں مگر اس وقت تک ترکی ایک مستحکم اسلحہ ساز ملک کے طور پر ابھر چکا تھا۔ آج ترکی میں تقریباً تین ہزار دفاعی کمپنیوں کی موجودگی ہے۔ 2020 سے 2024 کے دوران ترکی عالمی سطح پر اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں 11ویں نمبر پر آ گیا ہے اور اس کی برآمدات عالمی دفاعی تجارت کا 1.7 فیصد بن چکی ہیں۔
گزشتہ سال ترکی کے اسلحے کی برآمدات 178 ممالک تک پہنچیں جو 2015-2019 کے مقابلے میں 103 فیصد زیادہ تھیں۔ سب سے بڑے خریدار متحدہ عرب امارات، پاکستان اور قطر رہے۔ ترکی کی سب سے مشہور دفاعی برآمد بائراقدار ٹی بی 2 ڈرون، کم از کم 31 ممالک کو فروخت کیا جا چکا ہے، جن میں عراق، یوکرین، کینیا، بنگلہ دیش اور جاپان شامل ہیں۔
ترک کمپنی بائکار نے 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے جس کے تحت وہ اپنے ڈرونز کے لیے خود انجن تیار کرے گی، تاکہ بین الاقوامی سپلائی چین کے مسائل سے بچا جا سکے۔ کمپنی کا ہدف آکنجی ڈرون کے لیے انجن تیار کرنا اور پھر قزل ایلمہ نامی بغیر پائلٹ والا فضائی جنگی طیارہ تیار کرنا ہے، جو اس وقت یوکرینی انجن استعمال کر رہا ہے۔