بلوچستان پر ”اے پی سی“

  بلوچستان پر ”اے پی سی“
  بلوچستان پر ”اے پی سی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے خلاف معمول ”میرا لاہور کا پروفیشنل دور“ کے موضوع پر کالموں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسے معطل کرکے بلوچستان (کے پی کے سمیت) میں امن و امان کی تازہ صورت حال پر غور کرنے اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کے وزیراعظم  کے فیصلے پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ کالم نگاری کے موجودہ مرحلے میں جو بیرون پاکستان رہنے کے تیسرے عشرے میں داخل ہے خاص طور پر میں نے پاکستانی سیاست پر بوجوہ براہ راست تبصرے سے احتراز کیا ہے۔ تاہم دہشت گردی کی تمام صورتوں پر شدید نکتہ چینی میں، میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہوں۔

میں نے سابق صدر پرویز مشرف مرحوم کے آمرانہ اقتدار اور بعد کے دور میں ان کے ”فارمانائٹ“ ہونے کے مشترک تعلق کے باعث ذاتی تعلقات اور ان سے ہمدردی کے باوجود ان کی غیر جمہوری سیاست کی حمایت نہیں کی۔ تاہم اقتدار سے اترنے کے بعد جب وہ انفارمیشن میڈیا کی سرکاری اور غیر سرکاری حمایت سے محروم ہو گئے تو پبلک ریلیشنز کے محاذ پر میں نے ایک قدم پیچھے رہ کر ان کے نقطہ ء نظر کی تشہیر کرنے میں دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے کچھ سپورٹ ضرور کیا۔ بہت سی اور چیزوں کے علاوہ انہوں نے اپنی ”آل پاکستان مسلم لیگ“ کے لئے اپنے دور اقتدار میں جو پوزیشن اختیار کی اس کی Justification کے لئے اپنی روداد انگریزی میں لکھی۔ اپنی اس ”داخلی دستاویز“ کو انہوں نے مجھ سے شیئر کیا۔  پھر ان کی خواہش کے مطابق اس کا اردو ترجمہ میں نے کیا اور اسے روزنامہ ”پاکستان“ کے ایڈیٹر قدرت اللہ چودھری مرحوم کو درخواست کرکے اس اخبار کے ادارتی صفحے پر کئی قسطوں میں شائع کروایا۔ تاہم کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ جنرل مشرف نے جس طرح دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور ان کے کئی فیصلے امریکی پالیسی کی حمایت کی بناء پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تو ان کا دفاع میں نے کھل کر کیا۔ انہوں نے بلاشک یہ سمجھا کہ میں ”فارمانائٹ“ ہونے والی دوستی نبھا رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے یہ سب کچھ اصولی بنیاد پر کیا۔ میں اپنے نوجوان قارئین کو خصوصاً یہ بات بتانا چاہتا ہوں جو سن کر شاید ان کو حیرانی بھی ہو کہ ایک وقت ایسا تھا کہ سوات کی پوری ریاست پر ”مذہبی دہشت گردوں“ نے قبضہ کرلیا تھا اور وزیرستان بھی کافی حد تک حصہ   ان کے زیر اثر تھا۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ مذہبی کارڈ کھیلنے والے یہ دہشت گرد پاکستانی عوام میں اسلام کا نام لینے کی وجہ سے کافی مقبول تھے۔ کچھ ایسے مذہبی رہنما اس وقت کی سیاست میں بھی سرگرم ہیں اور انہوں نے آج تک اپنے سابقہ اقدامات پر شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ معذرت کی۔ مطلب اس وقت ”پاکستانی طالبان“ کی حمایت پر اور مجھے آپ کو بتاتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ وہ حکومتِ وقت کو اسلام کے نام  پر شیطانی  کھیل کھیلنے والے ان غاصب شرپسندوں دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے پر مجبور کررہے تھے۔ لاحول ولا قوۃ۔

”پاکستانی طالبان“ کی حمایت کرنے والے پاکستان کے مذہبی رہنماؤں نے سادہ دل پاکستانیوں (جن سے اسلام کا نام لے کر کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے) کو گمراہ کرکے ملک میں ایسی فضاء بنا دی کہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا حلف اٹھانے والی سیکیورٹی فورسز بھی ملک میں فساد برپا ہونے کے ڈر سے پہلے پہل ان کے خلاف ٹھوس آپریشن سے احتراز کرتی رہی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا میں اصولی طور پر صدر جنرل پرویز مشرف کی انسداد دہشت گردی  کی پالیسی کی حمایت کرتا رہا لیکن جب سوات میں آپریشن شروع نہیں کیا جا رہا تھا تو میں نے ایک کالم میں اس وقت کے آرمی چیف سے سیدھا سوال کر دیا۔ میرے کالموں کے انتخاب پر مبنی کتاب میں ”کیانی صاحب! ایک منٹ ٹھہریں“ کے عنوان سے یہ کالم موجود ہے جس میں، میں نے واضح کیا کہ میں اپنے ”فارمانائٹ ساتھی“  یعنی صدر مشرف کو بائی پاس کرکے آپ سے براہ راست مخاطب ہوں۔ لاہور پریس کلب میں اس کتاب کی رونمائی کے دوران ایک مقر ر نے یہ نکتہ اٹھایا کہ آج کے دور میں اگر ایسا کالم میں لکھتا تو پکڑ میں آ جاتا۔وہاں تو میں نے جواب نہیں دیا لیکن یہاں میں اس کا جواب دے سکتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ”غیر سیاسی“ بندہ ہوں اور سیاست پر اول تو تبصرہ نہیں کرتا لیکن کبھی اظہار رائے کروں تو وہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے برعکس محض سرسری سا ذکر ہو سکتا ہے۔ رہی بات پاکستانی فوج کی تو جب سے میں نے کالم نگاری شروع کی اس وقت سے آج تک میں نے ملک کے دفاع کے لئے اس کی سرگرمیوں کی حمایت ہی کی ہے۔ اپنے کالج فیلو اور دوست صدر مشرف کے دور میں  فوج پر تنقید نہیں کی بلکہ اسے حوصلہ دیا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب فوجی آپریشن ہوگا تو ”پاکستانی طالبان“ کے مخالف افراد جو ان کی ”مصنوعی حمایت“  کرنے لگیں گے۔ میں اس کام میں اکیلا نہیں تھا فوج کو یہ مشورہ دینے والے اور بھی بہت تھے۔ صرف میں نے ”بلند آواز“ سے فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔

جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد کارروائی کی مجھے ذاتی طور پر بھی بہت تکلیف ہوئی جو میری پسندیدہ ٹرین تھی جس پر میں پشاور میں ورلڈ بینک کی تعیناتی کے دور میں تقریباً ڈیڑھ برس ہر مہینے میں دو تین دفعہ لاہور آتا جاتا تھا۔ اس کارروائی میں سیکیورٹی اہل کار سمیت 26مسافر شہید ہوئے۔ یہ یقینا پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد اتنا بڑا افسوس ناک واقعہ ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے طالبان یا خوارج زیادہ تر خیبرپختونخوا میں سرگرم ہیں، لیکن بلوچستان میں ایک عرصے سے ”بلوچستان لبریشن آرمی“ جیسے گمراہ شرپسند مصروف کار ہیں، اگر علیحدگی کی تحریک کا حوالہ آتا ہے تو قدرتی طور پر ملک دشمن قوتیں اس کا فائدہ اٹھائیں گی جس سے معاملہ مزید حساس ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے اپنا قابل ستائش کردار ادا کر دیا اور اب اس مسئلے کو سلجھانے کا کام قوم یا قوم کے نمائندوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام سیاسی گروہوں کی طرف سے ”گمراہ شدت پسندوں“ سے مذاکرات کرنے کے لئے ”اے پی سی“ بلانے پر اتفاق ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے عوام اگر بجا طور پر محرومیوں کا شکار ہیں تو صرف بیانات دینے کی بجائے عملی اقدامات کئے جائیں، تاکہ علیحدگی کے مذموم لغرے لگانے والے افراد کو اس صوبے کے شہریوں کی حمایت نہ ملے اور اگر ”بی ایل اے“ کی لیڈرشپ واقعی اپنے صوبے کے عوام کو حقوق دلانے میں مخلص ہے تو بات چیت سے اس کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -