نیشنل ایکشن پلان،دہشتگردی اور سوشل میڈیا 

  نیشنل ایکشن پلان،دہشتگردی اور سوشل میڈیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 16 دسمبر 2014 کو جب پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے قائد اور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بلا تاخیر آل پارٹیز کانفرنس طلب کی۔اس آل پارٹی کانفرنس میں تمام ملکی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مشترکہ طور پر نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی۔ اس نیشنل ایکشن پلان کے نمایاں نکات تھے”دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، انتہا پسند ی،فرقہ واریت،عدم برداشت کو پروان چڑھانے والے اور نفرت انگیز لٹریچر پر پابندی عائد کر دی جائے،انتہاپسندی کی سوچ کی تشہیر کرنے والے اخبارات اور رسائل شائع نہیں ہو سکیں گے،دہشت گردوں کے خیالات یا نظریات کی تشہیر کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے گا، کا لعدم تنظیموں کو حقیقی معنوں میں کالعدم سمجھا جائے گا انہیں نام تبدیل کر کے کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی نیکٹا جیسے قومی ادارے کو فعال بنایا جائے گا، سوشل میڈیا سے متعلق موثر اقدامات کئے جائیں گے تاکہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے دہشت گردوں کے بیانیے اور انتہا پسندی کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال نہ ہو سکے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اصلاح اور ضروری اقدامات کے لیے قانون سازی کی جائے گی“۔یہ نیشنل ایکشن پلان کے چند ایک اہم ترین نکات ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے کے دوران جس طریقے سے بھارتی میڈیا نے ان دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا بالکل ایسے ہی افغانستان سے آپریٹ ہونے والے کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور پاکستان سے ایک مخصوص جماعت کے آفیشل پارٹی اکاؤنٹ اور ان کے حمایت یافتہ اندرون و بیرون ملک بیٹھے لوگوں نے کالعدم بی ایل اے کے ایجنڈے کے مطابق فیک نیوز، فیک ویڈیوز، اے آئی ویڈیو اور پرانی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر پھیلایا، سکیورٹی اداروں سے متعلق فیک معلومات اور من گھڑت افواہیں پھیلا کر عوام میں خوف و ہراس پھیلایا گیا تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان کے سکیورٹی ادارے کمزور ہیں اور دہشت گرد طاقتور ہیں۔ بھارت اور افغانستان تو پاکستان مخالف ایجنڈے کو پروموٹ کر سکتے ہیں لیکن جو جماعت کل تک اقتدار میں رہی ہو اس کی طرف سے دہشت گردوں کہ حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم چلانے سے بظاہر تاثر یہی مل رہا ہے کہ اس جماعت کا ایجنڈا بی ایل اے اور بھارت سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ دہشت گردی کا متاثرہ صوبہ خیبر پختون خواہ ہے جبکہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی گزشتہ 11 سال سے حکومت ہے۔کے پی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔خیبر پختونخواہ میں ٹی ٹی پی مکمل طور پر منظم ہو چکی ہے لیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت کو اس کی رتی برابر پرواہ نہیں ہے۔ خیبر پختونخواہ کے عوام دہشت گردی کے رحم و کرم پر ہیں اور یہاں کی حکومت کو جیل میں بیٹھے ایک شخص کی فکر ہے نا کہ صوبے کے چار کروڑ سے زائد عوام کی فکر ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو گزشتہ دور حکومت میں پس پشت ڈالا گیا۔اسکو پس پشت ڈالنے والا وہی شخص تھا جو پوری دنیا میں طالبان خان اور طالبان کا حمایتی ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ پھر افغانستان میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اسی طالبان خان اور اسکی حمایتی اہم شخصیات نے افغانستان سے 10 ہزار سے زائد دہشت گردوں کو لا کر پاکستان بسایا۔جس کا انہوں نے دیدہ دلیری کے ساتھ دفاع بھی کیا۔ اسی فیصلے کا نتیجہ آج خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے لوگ بھگت رہے ہیں۔ یہ جماعت آج بھی دہشت گردوں کی مذمت کرنے کی بجائے ان کے ایجنڈے کا دفاع کرنے میں مصروف عمل ہے۔پاکستان میں دہشت گردی دوبارہ تیزی کے ساتھ پھیلنے کی ایک بڑی وجہ گزشتہ دو سے تین ماہ کے دوران پاکستان میں غیر ملکی حکمرانوں کی آمد اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم معاہدے ہیں کیونکہ پاکستان مخالف قوتیں یہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو،سعودی عرب عرب امارات، قطر، ترکیہ سمیت کئی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے کر چکے ہیں۔جس کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر ایک نئی پہچان بنانے میں کامیاب ہو رہا ہے لیکن کچھ ملک دشمن قوتوں کو پاکستان آگے بڑھتا ہوا کھٹک رہا ہے۔ موجودہ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ تمام ملکی سیاسی قیادت کو پاکستان اور اس کے عوام کے تحفظ اور بہتر مستقبل کے لیے یکجاں ہونا پڑے گا۔نیشنل ایکشن پلان کا ازسر نو جائزہ لیا جانا چاہیے اور اس پربلا تاخیر عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔ ہاں البتہ جو دہشت گرد سیاست کے لبادے میں چھپے ہوئے ہیں ان کو کسی بھی قومی پالیسی یا قومی پلیٹ فارم پر مدعو نہیں کرنا چاہیے۔جو لوگ دہشت گردوں کے حمایتی ہیں وہ ان کے خلاف کبھی فیصلے کر سکتے ہیں نہ ہی کوئی قومی پولیسی بنانے میں سنجیدہ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال پاکستان کی عوام کو دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا دلانے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے اور نہ ہی مزید کوئی اور راستہ ہے۔ پاکستان اب آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے مزید آگے ہی بڑھنا ہے لیکن اسکے ساتھ ہمیں دہشتگردی کے ناسور اور اسکے سہولت کاروں کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -