پنجاب پبلک لائبریری پر قبضہ

بلوچستان کے معاملات کب پیچیدہ ہوئے یا کیے گئے یہ نکتہ کئی دنوں سے ذہن میں پھانس کی مانند چبھ رہا تھا۔ خیال بار بار کابینہ مشن پلان کی جانب دوڑتا کیوں کہ اس میں ریاستوں کو ان کی حقیقی حالت میں آزاد کیے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ جب بھی اس منصوبے پر تاریخ کی کتب کو کھنگالا تو ان کے صفحات اس معاملے میں خاموشی کے حصار میں لپٹے نظر آئے۔ کہیں کہیں چیدہ چیدہ نکات پڑھنے کو ملے۔ مکمل شرح و بسط کے ساتھ سیر حاصل گفتگو نظروں کے سامنے سے نہ گزری۔ غالبا، ہر لکھاری نے اپنے اپنے زاویہء نظر کے مطابق اس کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوئی اس بنیادی قضیے کو قلم بند کرتا دکھائی نہ دیا کہ کابینہ مشن پلان سے قبل ریاست قلات کی سیاسی صورتِ حال کیا تھی اور اس کے پیش کیے جانے کے بعد کیسی ہو گئی۔ بہت کچھ اب بھی تحقیق طلب ہے۔ احمد سلیم صاحب نے اس سلسلے میں خامہ فرسائی کی ہے لیکن انھوں نے بھی سرسری باتوں ہی پر اکتفا کیا ہے۔ اس کے باوصف، پاکستانی تاریخ پہ ان کی کتب رطلِ گراں کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ، گزشتہ چنددنوں سے اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ اچانک ذہن میں خیال کا ایک کوندا لپکا کہ کیوں نہ اس بارے میں اس دور کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ وہ اس سے متعلق کیا رقم کر رہے تھے۔ عین ممکن ہے کہ کہیں پہ خان آف قلات کے بیانات بھی اخبارت کے صفحات کی زینت بنے ہوں یا اس وقت اسٹیٹ میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹ اس بارے میں کچھ کہتے پائے جا رہے ہوں۔
اس سلسلے میں پنجاب پبلک لائبریری جانے کا قصد کیا۔ اگر وہاں آزادی سے قبل 1946ء کے اخبارات کے فائل دیکھ لیے جاتے تو یقینا گوہر مراد ہاتھ آ سکتا تھا۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ اس ضمن میں معاون ثابت ہو سکتا تھا۔ واضح رہے کہ پنجاب پبلک لائبریری میں قدیم کتب کا کافی ذخیرہ موجود ہے اور آزادی کے بعد کے اخبارات بھی پائے جاتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعات کے لحاظ سے یہ جگہ ہر دور میں اہم رہی ہے۔ اب کی بار جب وہاں پہنچا تو لائبریری کی ہیئت ہی بدلی ہوئی تھی۔ لائبریری کمپلکس میں اخبارات کو پرانی والی جگہ سے اٹھا کر وہاں موجود آڈیٹوریم میں منتقل کیا جا چکا تھا۔ پرانی عمارت پر جگہ جگہ والڈ سٹی اتھارٹی کی تختیاں جگ مگ جگ مگ کر رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر دل خون ہو کر رہ گیا۔ لائبریری کے عملے سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا ہے کہ پنجاب پبلک لائبریری میں موجود بارہ دری اور اس سے آگے کا حصہ جہاں جہاں پر تعمیر کا کام چل رہا ہے والڈ سٹی اتھارٹی کے زیر تسلط آ چکا ہے۔ یہ ادارہ اس کی تزئین و آرائش کر کے سیاحت کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔
پنجاب پبلک لائبریری کی خوبصورتی جہاں کتابیں اور اخبارات ہیں وہاں یہ بارہ دری اس کے جمال میں اضافہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دورانیہاں آنا اور بیٹھ کر مطالعہ کرنا معمول کا حصہ تھا۔ کتنے دن ہم نے کتابوں کے مطالعے میں بارہ دری میں بیٹھ کر شام کیے۔ گرمیوں کے چلچلاتے دنوں اور شام کے بڑھتے سایوں میں بالخصوص بارہ دری میں اور اس ساتھ ہی برگد کے درخت کی گھنیری چھاؤں تلے بیٹھے بے شمار طلباء مقابلہ جات کے امتحانات کی تیاری میں غرق ہوتے۔لائبریری کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی اخبارات کے سیکشن کی عمارت تھی جہاں متعدد قدیم اخبارات کے فائل موجود تھے جو کشادہ ہال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک الماریوں میں چنے ہوئے تھے۔ یہاں ہال کے وسط میں میز کے اردگرد بیٹھے محققین اخبارات کی دنیا میں گم ہوتے۔یہ تمام اخبارات ایک ترتیب کے ساتھ موجود تھے۔ بغیر کسی تردد کے چند ہی منٹوں میں نہ صرف پرانی خبریں بلکہ بہت کچھ ان اخبارات سے معلوم کر لیا جاتا۔ اس کے ساتھ سکین کی جدید سہولت موجود تھی۔ لیکن اب یہ تمام ختم ہو چکا ہے گو ایک بنا بنایا ادارہ چند لوگوں کی خواہشات کی خاطر ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔
اس جگہ کی از سرِ نو آرائش کے لیے یہاں سے اخبارات کے تمام فائل آڈیٹوریم میں منتقل کروائے گئے۔ ان آرکائیوز کی ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیلی سے قبل آڈیٹوریم ہر ہفتے کوئی نہ کوئی پروگرام منعقد ہوتا۔ مختلف النوع علمی سرگرمیاں ہوتیں۔ اب وہاں محض اخبارات ہیں جو کہ چھت تک چن دیے گئے ہیں جن تک حصول مشکل ہو چکا ہے۔ اخبارات کی اس پردرد ہجرت کے دوران متعدد اخبارات کے فائل بے ترتیبی کا شکار ہوئے اور اب ان کے بکھرے شیرازے وہاں چیخ رہے ہیں۔ اب وہاں بیٹھ کر تحقیق کرنا جاں جوکھوں کا کام بن چکا ہے۔ اول تو آڈیٹوریمکسی طور اخبارات کے لیے مناسب مقام نہیں تھا۔ دوم الماریوں کے درمیان سے گزرنے اور اخبارات کو نکالنے کے لیے جگہ انتہائی تنگ ہے۔سوم اخبارات کو بہ مشکل الماریوں میں سے نکال کر آڈیٹوریم میں بنے ہوئے سٹیج پر لے جا کر بیٹھنا پڑھنا جو کہ خاصہ اونچا ہے امرِ دشوار ہے۔ اب اتنا تردد کون کرے گا؟ سکیننگ کا جو مکمل سیٹ اپ تھا، اس منتقلی کے دوران غائب ہو چکا ہے۔ ورثے کو محفوظ کرنے کا مقصد یہ تو نہیں ہوتا کہ موجودہ اثاثوں کو تہ و بالا کر دیا جائے، طلباء سے ان کے بیٹھنے کی سہولت چھین لی جائے، تحقیق کے مواد کو ادنی جان کر پھینک دیا جائے؟ ترقی یافتہ ممالک جنہوں نے ورثے کو محفوظ کیا ہے یا کر رہے ہیں وہ ایسے اقدام کے مرتکب کیوں نہیں ہوتے۔ شاید، وہ ان کی اہمیت اور حساسیت سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔
پنجاب پبلک لائبریری میں متوسط طبقے کے طلباء آ کر بیٹھتے اور مطالعہ کرتے ہیں۔ امتحانات کے دنوں میں یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ ہزاروں کی تعداد میں طلباء کی لمبی لمبی قطاریں ہوتی ہیں جن میں سے محض سو ڈیڑھ سو کے قریب طلباء کو وہاں بیٹھنے کی اجازت ملتی ہے۔ اس صورت میں لائبریری کی کشادگی کے بارے میں سوچنے، بارہ دری کو استعمال میں لانے اور زیادہ سے زیادہ طلباء کے بیٹھنے کا انتظام و انصرام کرنے کی بجائے اس کی کتر بیونت کرنا افسوس ناک امر نہیں تو کیاہے؟ پاکستان میں ہر شے کی الٹی ہی کنگا بہتی ہے۔ جس شخص کے پاس جو ادارہ آتا ہے وہ خود کو اس کا بادشاہ تصور کرنے لگتا ہے۔ پورس کا ہاتھی بن جاتا ہے۔ ملکِ پاکستان میں کتاب دوستی کا ماحول پہلے ہی کم ہے، تحقیق کا رویہ نایاب ہے اس دوران جو چیز موجود ہے اسے بھی ختم کرنا صریح ظلم ہے۔ امریکہ، جرمنی، اور لندن میں آج تک ہزاروں سال پرانے کاغذات موجود ہیں اور پاکستان میں موجود ایسی چیزوں کے بارے میں ہمارے رویے افسوس ناک ہیں۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ پنجاب پبلک لائبریری کا کوئی بھی سربراہ موجود نہیں ہے۔ جن اداروں کے سربراہ نہ ہوں وہاں ایسی واردات ہونا کبھی مشکل نہیں ہوتا۔ اپنے اخبار کے توسط سے ہم اپنی محترم وزیر اعلی سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس غریب لائبریری کی حالتِ زار پر توجہ فرمائیں اور موجود اثاثے سے واقف ہوں اور ایسے عناصر جو اس کی بیخ کنی کر رہے ہیں کی حوصلہ شکنی کریں۔