اقبالؒ اور رومی ؒ

حضرت ڈاکٹر علامہ اقبالؒ ایک مردمومن ، ایک عظیم فلاسفر، ’’ایک بے مثال شاعر‘‘ ایک بہت بڑے حقیقت پسند اور حقیقت نواز، ایک رنگیں نواسخنور اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک سچے عاشق رسولؐ، امت مسلمہ کے حقیقی غمخوار، نوجوانان امت کو بلند نگاہی، سخن دلنوازاور جان پُرسوز رکھنے کا درس دینے والے عظیم رہنما تھے۔ وہ معرفت الٰہی کے سلسلے میں سب سے زیادہ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کو پسند کرتے تھے، بلکہ انہیں اپنا پیرو مرشد تسلیم کرتے تھے، وہ فرماتے ہیں :
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
(پیر رومی نے خاک کو اکسیر بنادیا اور میری خاک سے کئی جلوے تعمیر کردکھائے ۔ )
حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کا تعلق ترکی کے شہر قونیہ سے ہے۔ آپ ایک متبحر عالم دین اور بے مثال سکالر تھے۔ ایک دن جبکہ آپ تصنیف و تالیف کے سلسلے میں مصروف تھے، ایک درویش خدامست اچانک تشریف لائے اور آپ سے سوال کیا کہ یہ کیا لکھ رہے ہو ؟ رومی نے جواب دیا یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔ درویش نے وہ مسودہ پکڑا اور پاس والے تالاب میں پھینک دیا۔ مولانا بہت پریشان ہوکر کہنے لگے کہ یہ تو میری ساری زندگی کا حاصل تھا آپ نے یہ کیا کیا۔ اس پر آپ نے تالاب میں ہاتھ ڈال کر وہ مسودہ باہر نکالا تو بالکل خشک تھا۔ پانی نے اسے چھوا تک نہیں تھا۔ مولانا یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور پوچھا یہ سب کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے ۔ اس جواب سے مولانا بہت مبہوت ہوئے اور ایسا لرزہ طاری ہوا کہ مدہوش ہوگئے اور جب وہ درویش وہاں سے روانہ ہوئے تو مولانا بھی سب کچھ چھوڑ کر پیچھے پیچھے ہو لئے۔ انہوں نے پوچھا میرے پیچھے کیوں آرہے ہو ؟ تم کیا چاہتے ہو، کہا مجھے اپنا غلام بنالیں اور اپنا علم عطا فرمائیں ؟پھر آپ نے مولانا کو بیعت فرمایا۔ مولانا پر جذب ومستی غالب آگئی۔۔۔یہ درویش خدامست کون تھے؟۔۔۔ یہ حضرت شاہ شمس تبریزتھے، جنہوں نے بیعت فرماتے ہی مولانا کو اپنے رنگ میں رنگ دیا اور آپ مولانا روم بن کر نشۂ وحدت حقیقی میں سرشار ہو گئے اور فرمایا:
مولوی ہرگز نشد مولائے روم تاغلام شمس تبریری نہ شد
یعنی مولوی اس وقت تک مولانا روم نہیں بن سکتا جب تک وہ شمس تبریزی کی غلامی میں نہ آئے ، اور حضرت شاہ شمس تبریزی نے فرمایا کہ اب کتاب لکھو، دنیا اس سے فیض حاصل کرے گی۔ پھر آپ نے مثنوی لکھنا شروع کی جو مثنوی مولانا روم کے نام سے چھ جلدوں میں شائع ہوئی اور عوام الناس کے علاوہ خواص اور خاص الخاص حضرات نے بھی استفادہ کیا اور تاحال کررہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا روم اور علامہ صاحب کی ملاقات کیسے ہوئی، جبکہ دونوں کے زمانے میں کئی صدیوں کا فاصلہ ہے، یعنی مولانا روم علامہ سے 66سال پہلے گزرے ہیں۔ واضح رہے کہ شب معراج جب تاجدار انبیاء سرکار مصطفی ؐ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کی طرف اپنے براق پر سوار ہو کر تشریف لے جارہے تھے تو راستے میں دیکھا کہ حضرت موسیٰ ؑ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ، اور پھر بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی، حالانکہ تمام انبیائے کرام سرکار مدینہؐ سے صدیوں پہلے کے تھے۔ اس قسم کی ملاقات کو مثالی ملاقات کہتے ہیں اور اس قسم کی ملاقاتیں یا اجتماعات عالم مثال میں ہوتے ہیں، یعنی وہ ہستیاں اپنے روحانی اجسام کے ساتھ اپنی لطافت کے سبب جہاں چاہے جا سکتی ہیں اور جاتی رہتی ہیں۔ معراج شریف کے واقعہ کے مطابق تمام انبیائے کرام اپنے مثالی اجسام کے ساتھ عالم مثال میں اکٹھے ہوئے اور نماز ادا کی۔ چونکہ منصب نبوت ختم ہو چکا ہے اور اب محشر تک کوئی نبی نہیں آسکتا، اس لئے تبلیغ وارشاد کا فریضہ منصب ولایت کو سونپ دیا گیا۔ اسی طرح اولیائے کرام بھی نبوت کے جانشین ہونے کی وجہ سے دنیا میں کہیں بھی اپنے مثالی جسم سے آجاسکتے ہیں۔ عالم مثال میں ایسے بے شمار واقعات تاریخ عالم میں رونما ہو چکے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ یہی نہیں، بلکہ اولیائے کرام ایک جسم کو بیک وقت ستر جگہ پر ظاہر کرسکتے ہیں اور زمانہ ماضی ، حال اور مستقبل میں بھی ظہور پذیر ہو سکتے ہیں، لہٰذا علامہ صاحب اور مولانا روم کی ملاقات عالم مثال میں ہوسکتی ہے اور ہوئی ہے، علامہ صاحب حضرت مولانا روم کو پیر رومی اور اپنے آپ کو مرید ہندی کہہ کر سلسلہ کلام چلاتے ہیں۔ آپ اردو میں سوال کرتے ہیں اور مولانا روم اس کا فارسی میں جواب دیتے ہیں۔
علامہ صاحب مولانا روم سے سوال کرتے ہیں:
چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں
علم حاضر سے ہے دین زار و زبوں
مولانا روم اس کا جواب پورا دیتے ہیں :
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
تشریح:علامہ صاحب پیر رومی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ جناب مَیں موجودہ علم، طرز تعلیم اور اس کے اثرات سے بہت پریشان ہوں۔ موجودہ علوم وفنون کے اثرات، جو نوجوان نسل پر اثر انداز ہورہے ہیں، وہ بہت نقصان دہ ہیں، خصوصاً یہ دین خداوندی اور شریعت نبوی ؐ علی صاحبھا الصلوۃٰ والسلام کی حقیقی روح کو مجروح کررہے ہیں اور یہ سب کچھ دیکھ کر میری حق رسا آنکھ خون کے آنسو روتی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟حضرت پیر رومی اس کے جواب میں جو فارسی کا شعر فرماتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کے دوہی مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ علم کو تن پروری کی غرض سے حاصل کیا جائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ علم کو دل کی دنیا آباد کرنے کے لئے حاصل کیا جائے۔ اس کے بعد اس کے نتیجے سے آگاہ کرتے ہیں کہ اگر علم تن پروری، جسمانی زیب و زینت اور سامان عیش و عشرت مہیا کرنے کی نیت سے حاصل کیا جائے گا تو وہ آئندہ چل کر سانپ بن کر ڈسے گا اور ناگہانی موت کا سبب بنے گا اور اگر علم کو دل کی دنیا آباد کرنے کی نیت سے حاصل کیا جائے گا تو وہ تمہارا بہترین دوست بن جائے گا۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ دونوں میں سے جس کا بھی انتخاب کرلو۔ علم کو اپنا بہترین ، غمخوار بلکہ یار غار بنانا چاہے تاکہ ہرمصیبت ، دکھ، تکلیف اور پریشانی میں کام آئے اور اس سے نجات دلائے یا علم کو اپنا بدترین دشمن آستین کا سانپ بنانا چاہتے ہو تاکہ کسی وقت بھی ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جناب حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشار ہے :
رضینا قسمۃ الجبار فینا
لنا علم وللجھال مال
فان المال یفنیٰ عن قریب
وان العلم لیس لہ زوال
ترجمہ: ہم اپنے خدائے ذوالجلال کی تقسیم پر خوش اور شکرگزار ہیں کہ ہمارے حصے میں علم کی دولت آئی اور جاہلوں کے حصے میں دنیا کی دولت آئی۔ (ہم اس لئے خوش ہیں کہ ) یقیناایک نہ ایک دن دنیاوی مال و دولت فنا ہوجائے گا، لیکن علم کی دولت کو کبھی بھی زوال نہیں آئے گا۔
دراصل علامہ صاحب کا مدعا یہ ہے کہ علم حاضر، یعنی علوم جدیدہ ضرور حاصل کئے جائیں ،کیونکہ ان کی موجودہ زمانے میں اشد ضرورت ہے۔ جو قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں، ان کے لئے موجودہ علوم کا حصول ضروری ہے اور جو قومیں آج ارتقاء کے عروج پر ہیں، وہ موجودہ علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کو حاصل کرکے کامیاب ہوئیں۔ اہل اسلام اور مسلم امہ کے لئے بھی سائنس اور آئی ٹی کی تعلیم ضروری ہے، مگر فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں سب کچھ ان علوم ہی کو نہیں سمجھنا چاہئے ،بلکہ سب سے اولین ترجیح دین خدا اور محبت مصطفی ؐ کو دینی چاہئے ،اگر ہم ان دونوں باتوں پر مضبوطی سے ڈٹ جائیں تو پھر جو علوم وفنون بھی حاصل کرلیں۔ نتیجہ بہترہی نکلے گا ۔علامہ ہی فرماتے ہیں:
گہر میں ہو لاالٰہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ
اور اپنا تجربہ بیان فرماتے ہیں :
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے مری آنکھ کا خاکِ مدینۂ ونجف
کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا وعدہ ہے :
کی محمد سے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں