رقاصہ طرسومہ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ ایک رات وہ گھبرائی ہوئی میرے پاس آئی۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ کہنے لگی
”خدا کے لئے مجھے لے کر یہاں سے بھاگ چلو۔ نہ میں یہاں رہوں گی۔ نہ تمہیں ان ظالموں کے پاس چھوڑ کر جاﺅں گی۔“
”میں نے پوچھا ۔ آخر کیا بات ہے؟“
طرسومہ رقاصہ نے بڑی مشکل سے سانس پر قابو پاتے ہوئے کہا
”وہ لوگ تمہارے کمرے کو بارود سے اڑانے والے ہیں۔“
میرے استفسار پر رقاصہ طرسومہ نے جو واقعہ مجھے بتایا وہ یہ تھا کہ رات کے عشائیے کے بعد وہ اپنے آقا کے پاس بیٹھی اپنی باتوں سے اس کا دل بہلا رہی تھی کہ ایک پراسرار شخص خلوت گاہ میں اجازت طلب کرنے کے بعد آیا۔ اس کو دیکھتے ہی سلیمان شاہ نے رقاصہ طرسومہ کو وہاں سے جانے کے لئے کہا۔ وہ اٹھ کر پہلو والے کمرے میں آگئی لیکن چونکہ اسے میں نے ہر بات کی ٹوہ لگانے کے لئے کہا تھا اس لئے وہ دروازے کے پیچھے پردے کی اوٹ میں چھپ کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے اپنے آقا سلیمان شاہ کو اس پراسرار آدمی سے کہتے ہوئے سنا کہ بارود کی ت ھیلیاں رکھنے کا کام کل تک مکمل ہونا چاہیے۔ میں چاہیتا ہوں کہ قصر کے ساتھ ہی میرے دشمن کے بھی پرخچے اُڑجائیں۔ پراسرار آدمی اثبات میں جواب دینے کے بعد چلا گیا اور طرسومہ رقاصہ وہاں سے موقع پا کر دوڑتی ہوئی میرے پاس آگئی۔ میں نے اسے یہ کہہ کر تسلی دی کہ میں دو ایک روز کے لئے غائب ہوجاﺅں گا۔ اس کے بعد یہاں سے خزانہ لے کر ایک ساتھ سوڈان کی طرف فرار ہوجائیں گے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 175 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب وہ چلی گئی تو میں اٹھا اور مہمان خانہ خاص کی شاہی عمارات کے عقب سے ہوتا ہوا بدشاہ کے محلات کی طرف آگیا۔ میرا اس نتیجے پر پہنچنا قدرتی امر تھا کہ سلطان شاہ میری قیام گاہ کو نہیں بلکہ خلیفہ مسترشد کی خواب گاہ کو بارود سے اڑانے کا منصوبہ بناچکا ہے۔ خلیفہ کے اردگرد اب حفاظتی اقدامات اس قدر سخت کردئیے گئے تھے کہ اس پر قاتلانہ حملہ تقریباً ناممکن بات تھی۔ سلیمان شاہ کے عیار دماغ میں آخر یہی ترکیب سوچی کہ بادشاہ کی خواب گاہ کو بارود سے اڑا دیا جائے۔ خلیفہ مسترشد کی خواب گاہ محل کے مشرقی جانب دوسری منزل پر اس طرح بنی ہوئی تھی کہ اس کے نیچے دوسری یا پہلی منزل کے کمروں کی بجائے ایک سیاہ ڈھلانی چٹان بنی ہوئی تھی۔ اس چٹان کے پتھروں کو نوکیلا بنادیا گیا تھا اور وہاں ہر وقت مسلح پہرہ رہتا تھا۔ میرا قیاس یہ کہتا تھا کہ سلیمان شاہ نے ان پہرے داروں کو بھی عہدوں اور دولت کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اسی جگہ چٹان کے اندر کوئی سرنگ کھود کر اسے بارود کی تھیلیوں سے بھر اجارہا ہے تاکہ جب اسے آگ دکھائی جائے تو بادشاہ کی خلوت گاہ کے پرخچے اڑجائیں اور بادشاہ کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ اس کے لئے انہوں نے کل رات کا وقت مقرر کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ بارود کی تھیلیاں کئی روز سے سرنگ میں رکھی جارہی ہوں گی۔
میں رات کی تاریکی میں سلطنا کی خواب گاہ والی چٹان سے کچھ فاصلے پر آیا تو دیکھا کہ وہاں چٹان کی بنیادوں کے پاس پراسرار سائے حرکت کررہے تھے۔ میں خاموشی سے رینگتا کچھ اور آگے چلا گیا۔ اب مجھے دو آدمی تھیلے اپنے کاندھوں پر لادے چٹان کے نیچے ایک شگاف میں جاتے دکھائی دئیے۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہاں مسلح شاہی پہرے داروں کا کچھ پتہ نہ تھا۔ میراقیاس بالکل صحیح نکلا تھا۔ سلیمان شاہ، سلطان کی خواب گاہ والی چٹان کے نیچے بارود بچھوارہا تھا۔ اب مزید انتظار کا وقت نہیں تھا۔ وقت آگیا تھا کہ میں بادشاہ کے پاس پہنچ کر اسے اس گھناﺅنی سازش سے فوراً خبردار کردوں کیونکہ کل رات کی بجائے یہ لوگ آج رات کو ہی شاہی خواب گاہ کو قیامت خیز دھماکے سے اڑاسکتے تھے۔
جونہی میں جھاڑیوں میں واپس ہونے کے لئے پلٹا کسی نے میری گردن پر تلوار کا بھرپور وار کردیا۔ وار اس قدر شدید تھا کہ جو تلوار میری گردن پر پڑی ایک چھناکے کی آواز کے ساتھ اس کے ٹکڑے ہوگئے۔ میں اندھیرے میں دیکھ رہا تھا کہ ایک پہریداروں کی وردی والا سپاہی ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار کا دستہ لئے حیران و پریشان کھڑا مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے تک رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ منہ سے کوئی آواز نکالتا میں مگر مچھ کی طرح اچھل کر اس پر جھپٹا اور سب سے پہلے میں نے اس کے منہ کو دبوچ لیا۔
میری پوری طاقت بیدا ہوچکی تھی۔ وہ میرے بوجھ سے نیچے گرگیا اور اس کا سانس رکنے لگا۔ اس نے بائیں ہاتھ سے خنجر کھینچ کر میری پشت پر وار کیا۔ میں نے اس کے منہ پر سے اپنا ہاتھ نہ اٹھایا تاکہ وہ آواز نہ نکال سکے اور اس کے کان کے قرینب منہ لے جا کر کہا
”اگر تم مجھے سچ سچ بتادو کہ یہ لوگ بادشاہ کی خواب گاہ کو کب بارود سے اڑارہے ہیں تو میں تمہاری جان بخشی کردوں گا۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہاری تلوار کا وار میری گردن کا مقابلہ نہیں کرسکا اور تمہارے خنجر کے وار بھی خالی جارہے ہیں۔ تم نے یہ بھی محسوس کرلیا ہوگا کہ میں نے اپنے جسم پر زرہ بکتر نہیں پہن رکھا۔“ اس شخص کی تو گھگی بندھ گئی۔ خنجر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ میرے جسم کا بوجھ ہاتھی سے بھی زیادہ ہوچکا تھا اور ابھی میں نے اس پر صرف اپنے بازو کا بوجھ ڈالا ہوا تھا کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہورہی تھی۔ وہ مجھے کوئی مافوق الفطرت ہستی سمجھنے لگا۔میں نے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر رکھ دئیے۔ اس کا منہ کھلا اور اس نے لڑکھڑاتی ، خرخراتی آواز میں کہا ”میں نہیں جانتا۔ ہوسکتاہے آج پچھلے پہر دھماکہ ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کل مگر میں بے قصور ہوں۔“
میں نے اس کی گردن پر اپنی انگلیوں کی گرفت کچھ مزید مضبوط کی تو اس کے حلق سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ میں نے پوچھا
”مسلح محافظوں کا دستہ سلطان کے چچا سے ملا ہوا ہے؟“
”ہاں.... ہاں.... میں بے قصور ہونَ میں لالچ میں آگیا تھا۔“
مگر میں اسے زندہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ چند ثانیوں کے بعد اس کی بے جان لاش پڑی تھی۔ میں نے لاش کو کاندھے پر اٹھایا اور گہری خندق میں لاکر پھینک دیا۔ میرے سارے خدشے اور اندازے درست ثابت ہوئے تھے۔ اب مجھے جتنی جلدی ہوسکے سلطان معظم یا طبیب شاہی کے پاس پہنچنا تھا۔ شاہی طبیب کا قیام بھی بادشاہ کے محل کے اندر ہی تھا۔ میں جب شاہی محل کے صدر دروازے پر آیا تو ترک پہرے داروں نے مجھے روک کر پوچھا کہ میں کون ہوں اور کس لئے وہاں آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ میرا اس وقت بادشاہ سلامت یا طبیب شاہی سے ملنا بہت ضروری ہے۔ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ مگر انہوں نے الٹا مجھے پکڑلیا اور شاہی محل کی ڈیوڑھی میں لے جاکر میرے پاﺅں میں زنجیریں ڈالنے لگے۔ا سی وقت مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے طرسومہ رقاصہ کی مدد سے کسی طرح شاہی انگوٹھی سلیمان شاہ کے کمرہ خاص سے برآمد کروالی ہوتی تو اس فضول کی جھک جھک سے نجات مل جاتی اور وقت بھی ضائع نہ ہوتا۔ میں نے ترک پہرے داروں سے کہا کہ مجھے بادشاہ کے پاس نہ سہی طبیب شاہی کے پاس ہی لے چلو۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ورنہ تم لوگ بعد میںپچھتاﺅ گے۔ مگر ان کی سمجھ میں میری منطق بالکل نہیں آرہی تھی۔ وہ مجھے کوئی فائر العقل آدمی سمجھ بیٹھے تھے۔(جاری ہے)