اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 177

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 177

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آہن گر میرے پاﺅں میں لوہے کی زنجیر ڈال کر اس کے کنڈے آپس میں بند کررہا تھا۔ میں نے ایک چھنا کے سے زنجیر کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ سپاہیوں اور پہرے داروں نے تلواریں کھینچ لیں۔ میں صدر دروازے کے بغلی طاق کی طرف دوڑا۔ مجھ پر پیچھے سے تیروں، نیزوںاور تلوار کے وار پڑ رہے تھے۔ میں نے دوڑتے ہوئے اپنا آپ بغلی طاق سے ٹکرادیا۔ طاق دو ٹکڑے ہوکر کھل گیا۔ میں محل کے پائیں باغ میں دوڑ پڑا۔ یہاں اندھیرا بھی تھا اور روشوں پر کافوری فانوس بھی روشن تھے۔ میں سرو کے تاریک جھنڈوں کی طرف بھاگا۔ ان کے پیچھے شاہی طبیب کا محل تھا۔ سپاہی میرا پیچھا کررہے تھے۔وہاں ایک افراتفری سی مچ گئی تھی۔ تیروں کی بوچھاڑ مجھ پر پڑرہی تھی۔ مگر میں دوڑتا چلا جارہا تھا۔ شاہی طبیب کی محل سرا کے دروازے پر بھی پہرہ لگا تھا۔ میں وہاں پہنچا تو وہاں بھی مجھ پر پہرے داروں نے حملہ کردیا۔ میں نے بھی ایک پہرے دار کی تلوار چھین کر مقابلہ شروع کردیا۔ میں بڑی آسانی سے ان تمام سپاہیوں اور پہرے داروں کو تہ تیغ کرسکتا تھا کیونکہ ان کے کسی وار کا میرے جسم پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ اب وہ بھی کچھ خائف ہوگئے ت ھے اور لڑتے لڑتے پیچھے ہٹنے لگے تھے۔ تلوار کی جھنکار اور سپاہیوں کا شور و غوغا سن کر شاہی طبیب نے بارہ دری میں سے جھانک کر نیچے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیسا شور مچا رکھا ہے؟ میں نے بلند آواز میں کہا
”عالی جاہ! میں عبداللہ ہوں اور حسب وعدہ سلطان معظم کے لئے ایک خاص پیغام لے کر آیا ہوں۔“
”اسے کچھ نہ کہو۔ اوپر آنے دو میرے پاس۔ جاﺅ سب واپس جاﺅ۔“
سپاہی اور پہرے دار حیرت زدہ چہروں کے ساتھ واپس چلے گئے۔ میں شاہی طبی ب کی خواب گاہ میں پہنچا تو اس نے دروازے کے آگے پردہ گرادیا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کیا خاص پیغام لایا ہوں۔ میں نے ساری بات بیان کردی۔ طبیب شاہی ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔
بولا
”میرے ساتھ آﺅ۔“

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 176 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
طبیب شاہی کی محل سرا کے اندر ہی اندر سے ایک راہ داری بادشاہ کے محل کو جاتی تھی۔ سلطان کے قصر خاص میں پہنچ کر شاہی طبیب نے اندر پیغام بھجوایا۔ سلطان نے ہمیں اسی وقت اندر بلوالیا۔ وہ خاب گاہ سے نکل کر پہلو والی آرام گاہ میں بیٹھا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ میں کیا خاص پیغام لایا ہوں۔ میں نے سارا قصہ سلطان کے گوش گزار کردیا۔ سلطان نے اسی وقت اپنی خوابگاہ سے ملکہ کو نکلوا کر دوسرے قصر شاہی کی خواب گاہ میں بھجوادیا۔ پھر سلطان اور شاہی طبیب مجھ سے مزید تفصیلات معلوم کرنے لگے۔ میں نے ایک ایک بات کھول کر من و عن بیان کردی اور کہا
”سلیمان شاہ وہاں پر نہیں ہے مگر ایک ترکیب ایسی ہے کہ اگر اس پر عمل کای جائے تو وہ خود وہاں پہنچ سکتا ہے۔“
سلطان اور شاہی طبیب نے مجھ سے وہ ترکیب پوچھی تو میں نے انہیں بیان کردی۔ سلطان نے فوراًاپنے خاص محافظین کے سالار کو بلوایا۔ ان محافظین سلطان کی تعداد پندرہ ہزار تھی۔ سلطان نے اسے حکم دیا کہ ایک صد جانثاروں کو سیاہ لبادے اوڑھا کر خواب گاہ کی چٹان کی حفاظت گاہ کے اردگرد خفیہ مقامات پر چھپادیا جائے اس کے بعد خود بادشاہ اور طبیب شاہی نے اپنے جسم سیاہ فرغاﺅں میں چھپائے۔ پندرہ جانثاروں کو ساتھ لیا اور محل کے خفیہ دروازے سے نکل کر خواب گاہ والی چٹان کی حفاظت گاہ کے عقب میں آکر جھاڑیوں میں پہنچ گئے۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ حفاظتی دستے کا سالار بادشاہ کی خدمت میں موجود تھا۔ رات کی تاریکی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بادشاہ نے اندھیرے میں چٹان کے اندر بنائے ہوئے شگاف کا مشاہدہ کرلیا تھا اور انگشت بدنداں تھے۔ اب وہ اپنے چچا کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتے تھے۔ سلطان نے سالار سے کہا کہ حفاظتی چوکی کے تمام سپاہیوں کو کوئی آواز نکالے بغیر خاموشی سے قتل کردیا جائے۔ سالار نے تلوار کھینچ لی اور تعظیم کرنے کے بعد اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ سالار اس سارے علاقے اور حفاظتی چوکی کے حدود اربعہ اور سپاہیوں کی تعداد سے واقف تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کی ہلالی تلوار میں سے خون ٹپک رہا تھا۔ اس نے عرض کی کہ حسب الحکم چوکی کے تمام پہرے داروں کو جہنم واصل کردیا گیا ہے۔ سلطان نے اب میری طرف دیکھا۔ میں نے سالار کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ اس کی رہنمائی میں مَیں نے ایک پہرے دار کی لاش پر سے اس کی وردی اتر کر خود پہن لی۔ اس کی سیاہ اور سرخ پٹی والی پگڑی اپنے سر پر جمائی۔ تلوار کمرے سے لگائی اور سالار سے کہا
”آپ سلطان معظم کے پاس چلے جائیں۔ خفیہ مقامات پر چھپے ہوئے جانثاروں کو چوکس رکھیں۔ انہیں آپ کی ہی آواز پر کمین گاہوں سے نکل کر مدد کو پہنچ جانا ہوگا۔“
”ایسا ہی ہوگا۔“ سالار نے جواب میں کہا اور خود اندھیرے میں انجیر کے اس درخت کی طر ف چل پڑا جو چٹان کے بالکل سامنے ایک اونچی جگہ پر اگا ہوا تھا۔ اور جس کی اوٹ میں سلطان اندلس اور طبیب شاہی چھپے بیٹھے تھے۔ میں نے اندھیرے میں دیکھا کہ حفاظتی چوکی کے اردگرد اور چوکی کے اندر مسلح سپاہیوں کیلاشیں پڑی تھیں۔ میں چٹان کے شگاف کے قریب آگیا۔ یہاں دو آدمی شگاف کے اندر سے باہر نکلے۔ انہوں نے دائیں بائیں دیکھا اور حفاظتی چوکی کی طرف بڑھے۔ انہوں نے چٹان کے شگاف کے منہ پر جھاڑیاں اور جھاڑ جھنکاڑ ڈال دی تھیں۔
میں راستے میں ہی کھڑا تھا۔ انہوں نے اپنے سامنے حفاظتی دستے کے ایک مسلح پہرے دار کو دیکھا تو کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ حفاظتی دستے کے سارے سپاہی ان کی سازش میں برابر کے شریک ہیں۔ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو اپنے قریب بلا کر کہا ”اس بارود میں قلمی شورے کی مقدار کم ہے اور ویسے بھی یہ چٹان کی نمی سے گیلا ہوگیا ہے۔ مجھے شک ہے کہ اسے آسانی سے اڑایا نہیں جاسکے گا۔“ میں اندھیرے میں کھڑا تھا۔ میں نے ویسے بھ ی حفاظتی عملے کے ایک سپاہی کی وردی پہن رکھی تھی۔ وہ آدمی مجھے اپنا ہی ہم سازش سمجھا۔ میری بات پر پریشان ہوکر بولا
”یہ بات ہمیں ذی جاہ، عالی وقار امیر کو فوراً بتانی ہوگی۔ کیونکہ وہ کل رات یا ہو سکتا ہے آج پچھلے پہر اسے اڑانے کا حکم صادر کرنے والے ہیں۔“
یہی میں چاہتا تھا میں نے اس آدمی سے کہا کہ فوراًسلیمان شاہ کو جاکر حالات سے آگاہ کرو۔ پھر وہ جیسا کہیں گے ویسا ہی کریں گے۔ وہ آدمی اسی وقت گھوڑے پر سوار ہوکر اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ دوسرا آدمی چٹان کے شگاف کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ میں ادھر اُدھر کچھ دیر ٹہلتا رہا۔ پھر ایک تودے کے عقب سے ہوکر سلطان اندلس اور طبیب شاہی کے پاس آگیا اور انہیں بتای اکہ میں نے یہ چال چلی ہے اور غدار سلیمان شاہ کوئی دم میں آنے والا ہے۔ سلطان نے اسی وقت حفاظتی دستہ خاص کے سالار کو بلواکر حکم دیا کہ میرے تالی بجانے پر فوراً اپنے آدمیوں کو لے کر یہاں پہنچ جانا۔
تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ ہمیں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ میں وہیں سلطان کے پاس ہی کھڑا تھا کیونکہ سلیمان شاہ مجھے اس وردی میں بھی پہچان سکتا تھا۔ اندھیرے میں سے دو گھڑ سوار نمودار ہوئے۔ ان میں سے ایک وہی آدمی تھا اور دوسرا سلطان اندلس کا چچا سلیمان شاہ تھا۔ سلطان نے اپنے چچا کو دیکھا تو ایک گہرا سانس لے کر خاموش رہے۔ سلیمان شاہ گھوڑے سے اتر کر سب سے پہلے چٹان کے شگاف کے پاس گیا جہاں بارود کی تھیلیاں بھری جاچکی تھیں۔ وہاں بیٹھے ہوئے آدمی سے کوئی بات کی پھر ہمارے اور چٹانی شگاف کے وسط میں آکر دوسرے آدمی کو بولا
”عملے کا سالار کہاں ہے، اسے بلاﺅ۔“(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 178 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں