اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 178
آدم چلا گیا۔ سلیمان شاہ بے چینی سے نیم تاریکی میں وہیں ٹہلتا رہا۔ ہم انجیر کے درخت تلے خاموش سانس روکے بیٹھے تھے۔ ذرا سی دیر میں وہ آدمی واپس آگیا۔ اس نے کہا کہ سالار کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ سلیمان شاہ نے مضطرب ہوکر کہا
”دیکھو میں جارہا ہوں۔ سالار سے کہنا کہ بارود گیلا ہے یا نہیں۔ میں ہر حال میں چاہتا ہوں کہ آج پچھلے پہر اسے آگ لگادی جائ۸ے۔ بس ۔ اگر اس نے میری حکم عدولی کی تو تم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔“
یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے کی طرف مڑا ہی تھا کہ خلیفہ اندلس نے زور سے تالی بجادی۔ تالی کا بجنا تھا کہ آس پاس تاریکی میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور سلطان کے مخالفین ننگی تلواریں لہراتے درختوں اور جھاڑیوں میں سے نکل آئے اور انہوں نے سلیمان شاہ کو گھیرے میں لے لیا۔ سلیمان شاہ ہکا بکا ہوکر محافظین سلطان کا منہ تکنے لگا۔ اب خلیفہ اندلس اور شاہی طبیب بھی اندھیرے سے نکل کر سلیمان شاہ کے سامنے آگئے تھے۔
”چچا! تم سے مجھے یہ امید نہ تھی۔“
سلطان نے غضب ناک آواز میں کہا۔ سلیمان شاہ نے اندھیرے میں مجھے پہچان لیا اور اپنا سر جھکا دیا۔ اس کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔ وہ رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا تھا۔ سلطان نے اسی وقت اپنے چچا کی گرفتاری کا حکم صادر کرتے ہوئے یہ حکم بھی دیا کہ بارود کی تھیلیاں شگاف میں رکھنے والے آدمیوں کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر قلعے کی فصیل سے نیچے گرادیا جائے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 177 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلیمان شاہ کو اسی وقت گرفتار کرلیا گیا۔ سلطان اندلس میری اور شاہی طبیب کی معیت میں خفیہ دروازے سے ہوتا ہوا واپس اپنے محل میں آگیا۔ صبح ہونے سے پہلے پہلے سلیمان شاہ کے محل خاص اور خواب گاہ کی ایک ایک چیز کی تلاشی لی گئی اس کی الماری کے ایک خفیہ خانے سے وہ انگوٹھی بھی برآمد ہوگئی جس کے مرجان پر سلطان اندلس کا نام کندہ تھا او رجو بادشاہ نے خاص طور پر مجھے مرحمت فرمائی تھی۔
سلطان اندلس نے مجھے انعام و کرام سے نوازا۔ رقاصہ کنیز طرسومہ کو جب پتہ چلا کہ سلیمان شاہ اصل میں خلیفہ اندلس کو ہلاک کرنے کے لئے بارود بچھا رہا تھا تو وہ حیران ہو کر رہ گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ سلطان کا چچا تخت اندلس پر قبضہ کرنے کے لئے سلطان کو قتل کرنے والا تھا اور میں اس سازش کو بے نقاب کرنے میں لگا ہوا تھا۔
سلطان نے مجھے دربار میں اپنے مقربین کی جگہ عطا کی اور رفیق الملک کے خطاب سے بھی نوازا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ میں نے سلطان کی جان بچائی تھی۔ جنوبی قرطبہ کی درگاہ کے متولی لیوپارڈی کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ بظاہر تمام سازشی کیفر کردار کو پہنچ چکے تھے لیکن ابھی ایک چھپا ہوا عنصر باقی تھا۔ جس کی مجھے خبر بھی نہ تھی۔ اس پوشیدہ عنصر کا انکشاف رقاصہ طرسومہ کی و جہ سے ہوا۔ رقاصہ کنیز طرسومہ اپنے آقا کی موت کے بعد اپنی مرضی سے میرے محل میں آگئی تھی۔ میرے حالات نہ صرف یہ کہ بدل گئے تھے بلکہ بہت بہتر ہوگئے تھے۔ اس لئے طرسومہ کی خواہش تھی کہ اس میں سے شادی کرلوں لیکن میں اس سے شادی کرکے اسے زندگی کی مسرتوں سے محروم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے کہ میرا کچھ پتہ نہیں تھا کہ آج اندلس میں ہوں تو تقدیر یا حادثات واقعات مجھے کل کہاں کھینچ کر لے جائیں گے لیکن میں نے طرسومہ کو اپنے محل میں مالکہ کا درجہ دے رکھا تھا۔ دوسری کنیزیں اس کی خدمت پر مامور تھیں۔ میں اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا تھا۔
ان ہی دنوں ملک کے جنوبی حصے میں بغاوت ہوگئی۔ خلیفہ لشکر لے کر بغاوت فرو کرنے کے لئے گیا ہوا تھا۔ امور سلطنت وزیراعظم کے سپرد تھے۔ ایک روز میں دربار سے فارغ ہوکر اپنے محل میں واپس آیا تو پتہ چلا کہ رقاصہ طرسومہ وہاں نہیں ہے۔ خادماﺅں نے بتایا کہ وہندی پر غسل کرنے گئی ہوئی ہیں۔ جب اسے خاصی دیر ہوگئی تو مجھے فکر لگی۔ میں نے دو غلاموں کو ساتھ لیا اور ندی پر پہنچ کر طرسومہ کو تلاش کیا۔ وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ اچانک ایک جگہ جھاڑیوں میں مجھے ان دو حبشی کنیزوں کی لاشیں پڑی ملیں جو اس کی حفاظت کے لئے ساتھ گئی تھیں۔ بات بالکل واضح تھی کہ کسی نے محافظ حبشی کنیزوں کو قتل کرکے طرسومہ کو اغوا کرلیا ہے۔ میں نے اردگرد ساری جگہ دیکھی۔ گھاس ہونے کی وجہ سے وہاں کسی کے قدموں کے نشان نہیں تھے۔ کہیں کہیں سے گھاس گھوڑوں کے سموں نے کچل دی تھی۔ کوئی گھڑ سوار طرسومہ کو اغوا کر کے لے گیا تھا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ خلیفہ کے خلاف قتل کی سازش کے طشت ازبام ہوجانے کا ہی شاخسانہ ہے۔ ورنہ کسی کو طرسومہ سے کیا دشمنی ہوسکتی تھی۔ مجھے طرسومہ کے بارے میں سخت تشویش ہوئی۔ خطرہ تھا کہ اگر اس کو سازش کے ناکام ہونے کی وجہ سے پکڑا گیا ہے تو کہیں اسے ہلاک نہ کردیا جائے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوکر سامنے آگئی تھی کہ غدار سلیمان شاہ کے کچھ ساتھی ابھی تک باقی ہیں۔ بہرحال ابھی تک میرا ذہن اس بارے میں پوری طرح صاف نہیں تھا۔ اس وقت صرف طرسومہ کی جان بچانے اور اسے بازیاب کرنے کی ضرورت تھی۔ شہر کے چاروں جانب سپاہی دوڑا دئیے گئے۔ گھر گھر کی تلاشی لی جانے لگی۔ مگر طرسومہ برآمد نہ ہوسکی۔
ایک روز میں نے بھیس بدلا اور طرسومہ کی تلاش میں شہر کے گلی کوچوں میں نکل کھڑا ہوا۔ میں نے عام مصری مسلمانوں طبیبوں ایسا لباس پہن رکھا تھا اور آدھا چہرہ سیاہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مجھے پہچانے اور کسی کو یہ خبر ہو کہ میں شاہی رقاصہ طرسومہ کی تلاش میں ہوں۔ مسلمان عرب بادشاہوں کے عہد کا قرطبہ کوئی معمولی شہر نہیںتھا۔عربوں نے قرطبہ کو خوشحالی، علمی عظمت اور اقلیتوں سے رواداری کے جذبے کو اس عروج تک پہنچایا کہ یہ عروج مسلمانوں کے بعد ہسپانیہ کی سرزمین دوبارہ کبھی حاصل نہ کرسکی۔
میں سارا دن شہر قرطبہ کی آوارہ گردی کرتا رہا۔ کئی چھتی ہوئی نیم روشن گلیوں میں بھی گیا۔ پرانی حویلیوں میں بھی جھانک کر دیکھا بازاروں اور کاﺅں سراﺅں میں بھی طرسومہ کا سراغ لگانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ میں اب شہر سے نکل کر قرب و جوار کی پہاڑیوں کی طرف نکل آیا۔ سورج آہستہ آہستہ پہاڑوں کے پیچھے غروب ہورہا تھا۔ میں ایک ویران میدان میں چلا جارہا تھا جہاں مجھے ایک پرانی دیوار کے احاطے کے اندر درختوں کے جھنڈ دکھائی د ئیے۔ احاطے میں کچھ قبریں بنی ہوئی تھیں۔ یہ قبر عیسائیوں کی تھیں اور ان کے پتھر اور کتبے شکستہ ہورہے تھے۔ قبرستان کے کونے میں ایک چبوترے پر بوسیدہ کوٹھری ایک طرف کو جھکی ہوئی تھی۔ یہ کوٹھری رومن زمانے کی لگتی تھی۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ سیاہ بادل امڈے چلے آرہے ہیں اور بجلی رہ رہ کر چمکنے لگی ہے۔ میں واپس جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دم سے بارش شروع ہوگئی۔ میں نے سوچا کہ یہاں تھوڑی دیر کسی جگہ ٹھہر کر بارش رکنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ میں اسی بوسیدہ رومن طرز کی کوٹھری میں آگیا۔ کوٹھری کے دروازے غائب تھے۔ فرش خاک آلود تھا۔
میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ فرش کی مٹی پر کسی انسان کے قدموں کے نشان تھے۔ یہ نشان کوٹھری کی دیوار کے پاس جاکر غائب ہوگئے تھے۔ یہ کس کے قدموں کے نشا ہوسکتے تھے۔ میں سوچنے لگا۔ میں ابھی غور ہی کررہا تھا کہ مجھے کسی کے سانس لینے کی آواز سنائی دی۔ یوں لگا جیسے کوئی گہرا سانس لے کر میرے قریب سے گزرگیا ہے۔ میں ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑاہوگیا۔ وہاں میرے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ باہر قبرستان میں شام کے پھیلتے اندھیرے میں بارش ہورہی تھی۔ بجلی چمک رہی تھی۔ ماحول کو اس بارش اور شام کے لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے اندھیرے نے مزید پراسرار اور آسیبی بنادیا تھا۔ خیال آیا کہ یہ کسی انسانی سانس کی نہیں بلکہ ہوا کے جھونکے کی آواز تھی لیکن وہی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ یہ آواز آہ بھرنے سے ملتی جلتی تھی۔ میں نے اس مقام پر نظریں جمادیں جہاں پہنچ کر قدموں کے نشان ختم ہوگئے تھے۔ یہاں اینٹوں اور پتھروں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر دیوار کے ساتھ لگا تھا۔ میں نے پتھروں کو پیچھے ہٹایا تو وہاں ایک شگاف نمودار ہوگیا۔ اسی شگاف میں سے نم دار ٹھنڈی ہوا باہر نکل رہی تھی۔ میں نے شگاف میں جھانک کر دیکھا۔ یہ ایک تنگ و تاریک سرنگ تھی۔ مجھے شبہ ہوا کہ ہوسکتا ہے یہاں اندر کسی جگہ باقی ماندہ سازشی گروہ کا کوئی خفیہ ٹھکانہ ہو اور طرسومہ کو انہوں نے اسی جگہ اغوا کرکے چھپارکھا ہو۔(جاری ہے)