اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 179
میں سرنگ میں اتر گیا۔ زمین گیلی گیلی تھی۔ کہیں سے سرنگ کے اندر پانی رس رس کر ٹپک رہا تھا۔ میں جھک کر دیوار کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ میں جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا سرنگ کشادہ ہوتی جارہی تھی۔ چھت بھی بلند ہورہی تھی۔ آگے ایک رومن طرز کا دروازہ آگیا۔ جس کے دونوں جانب اونچے گول ستون کھڑے تھے۔ دروازے کے پٹ غائب تھے ان کی جگہ چھت میں سے جھاڑیاں نکل کر نیچے لٹک رہی تھیں۔ میں نے جھاڑیوں کو ہٹایا۔ اندر ایک دالان سا نظر آیا۔ جہاں دھیمی دھیمی روشنی تھی۔ دالان میں پہنچا تو ایسے مصالحہ جات کی خوشبو آئی جو عام طور پر مردوں کے سرہانے جلائے جاتے تھے۔ کچھ اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ طاق میں ایک پرانی گرد آلود شمع جل رہی ہے۔ فرش پر قالین بچھا ہوا ہے جو گرد آلود ہے۔ کونے میں ایک مسہری لگی ہے۔ جس کے سرہانے، دونوں طرف قدیم یونانی دور کے عریاںم جسمے نصب ہیں۔مسہری پر تکئے لگے تھے۔ مگرمکڑیوں نے جالے بن رکھے تھے۔ میں نے سرہانے کے قریب نصب عورت کے مجسمے کو جھک کر دیکھا۔ اس کے نیچے یونانی زبان میں یہ الفاظ کنددہ تھے۔
”امیلیا۔ یونانی شاعرہ سیفو کی چھوٹی بہن۔“
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 178 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ معمہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مشہور یونانی شاعرہ سیفوکی چھوٹی بہن امیلیا کا یہ مجسمہ یہاں کیسے آگیا؟ اور یہ پراسرار قدیم خواب گاہ کس نے تعمیر کی تھی۔ مجھے اب بھی یہ شبہ ہورہا تھا کہ اندلس کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے گروہ کے باقی ماندہ لوگ اس کمین گاہ میں چھپے ہوئے ہیں۔
میرے اس نظریے کو اس حقیقت سے تقویت ملی کہ گرد آلود قالین پر بھی کسی انسانی پاﺅں کے نشان موجود تھے۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ نشان ان قدموں کے نشانوں کے مشابہ ہیں جو میں نے سرنگ کے باہر ریکھے تھے۔ میں مسہری کی دوسری جانب آگیا۔ یہاں پلنگ پر بچھی چادر پر ایک سیاہ رنگ کا باسی پھول پڑا تھا۔ میں نے اسے اٹھایا تو میرے ہاتھ کے ساتھ مکڑی کے جالے کے تار پلٹ گئے۔ پھول گلاب کا تھا جو کبھی تروتازہ اور شگفتہ ہوا کرتا ہوگا مگر اب سوکھ کر سیاہ پڑچکا تھا۔ مسہری کے عقب کی دیوار پر ریشمی پردہ پڑا تھا۔ اس پردے میں سرسراہٹ سی پیدا ہوئی۔ ضرور سازشی گروہ کا کوئی آدمی یہاں چھپا ہوا ہے۔ یہ سوچ کر میں تیزی سے ایک ستون کی اوٹ میں چھپ گیا۔ گرد آلود شمع دان میں موم بتی جل رہی تھی اس کی کمزور پھیکی زرد روشنی شمع دان کے فانوس میں سے جیسے سسک سسک کر باہر نکل رہی تھی۔ ایک بار پھر مجھے انسانی سانس کی آواز سنائی دی۔ یہ ایک گہری اداس ملال آمیز سرگوشی سی تھی۔ میں ہمہ تن گوش ہوکر مسہری کے عقبی پردے کی طرف تکنے لگا۔ پردہ ذرا سا لزا۔ پھر ایک طرف کوہٹ گیااور اس کے پیچھے سے ایک سفید پوش انسانی ہیولا نکل کر عورت کے مجسمے کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ یہ ایک عورت تھی۔ جس کے سنہری گھنگھریالے بال اس کی پیٹھ پر لٹک رہے تھے۔ اس کے سر پر گلاب کی ٹہنی کا تاج تھا۔ جس پر گلاب کے سیاہ باسی پھول صاف نظر آرہے تھے۔ میں نے تھوڑی دیر کے لئے اپنا سانس روک لیا۔ یا خدا! یہ عورت کون ہے؟ کیا یہ کسی مردے کی روح ہے؟ عورت نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اپنے ہاتھ مجسمے کے پاﺅں پر رکھ دئیے۔ پھر اپنا سر بھی مجسمے کے پاﺅں کے ساتھ لگادیا۔ اب اس کی سسکیوں کی آواز آنے لگی۔ ماحول پر ایک کرب انگیز سناٹا چھاگیا تھا۔ میں کسی طلسمی یا آسیب زدہماحول میں آگیا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کہیں طرسومہ تونہیں ہے۔
اس خیال کا میرے دل میں آنا تھا کہ کانوں میں کسی عورت کی غمگین سرگوشی سنائی دی۔
”میں طرسومہ نہیں ہوں عاطون!“
حیرت کے مارے ایک بار تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میری پھٹی ہوئی آنکھیں اس عورت کے ہیولے پر لگی ہوئی تھیں جس کی پشت میری جانب تھی۔ یقینا یہ آواز اسی عورت کی تھی۔ میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ملا۔ میں نے کوئی آواز بھی نہ نکالی۔بس ستون کے پیچھے ساکت کھڑا اس پراسرار عورت کو ٹکٹکی باندھتے تکتا رہا۔ اچانک وہ عورت مڑی۔ اب شمع کی دھندلی روشنی میں مجھے اس کا چہرہ نظر آیا۔ وہ ایک خوبصورت عورت تھی۔ چہرہ کہر آلود تھا۔ آنکھوں میں ایک دھندلی سی چمک باقی تھی۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میرے کانوں میں ایک بار پھر اس کی آواز ٹکرائی۔
”ستون کے پیچھے سے نکل کر مسہری کی پائنتی کی جانب آجاﺅ عاطون۔“ جیسے کسی طلسمی قوت نے مجھے مسہری کی پائنتی کے پاس لاکر کھڑ اکردیا۔ وہ پراسرار حسین عورت جس مجسمے کے پاس کھڑی تھی اب میں نے دیکھا کہ وہ اس کا ہم شکل تھا۔ یقینا یہ اس کا اپنا مجسمہ تھا۔ تو کیا یہ سیفو کی بہن امیلیا کی روح تھی؟ ضرور یہ اس کی روح ہی تھی۔ ورنہ اسے میر انام کیسے معلوم ہوجاتا۔ اس کو تو یہ بھی علم تھا کہ میں طرسومہ کی تلاش میں وہاں آیا ہوں۔ اب میرا خوف بھی دور ہوچکا تھا۔ میں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر سوال کیا
”تم.... تم کون ہو؟ تم میرا نام کیسے جانتی ہو؟“
عورت کے ہونٹ نہیں ہل رہے تھے۔ اس کے چہرے پر سنگین خاموشی تھی لیکن اس کی سرگوشی نما آواز مجھے صاف سنائی دے رہی تھی۔
”مجھ سے کوئی راز چھپا ہو انہیں عاطون۔“
میں نے اس سے پوچھا کہ اگر یہ بات ہے تو کیا وہ مجھے طرسومہ کے بارے میں بتاسکتی ہے کہ وہ مجھے کہاںملے گی؟ اس پر امیلیا کی روح نے ایک لمحے کے لئے توقف کیا پھر اس کی شکستہ آواز آئی۔
”عاطون! میں سینکڑوں برسوں سے ایک ناقابل برداشت عذاب میں مبتلا ہوں۔ تمہیں یہاں دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ دیوتاﺅں نے مجھے معاف کردیا ہے۔ اور طویل عذاب کی مدمت ختم ہوگئی ہے۔“
میں اپنی جگہ پر ساکت کھڑا تھا۔ شمع دان کی دھندلی روشنی اس حسین عورت کے کہر آلود چہرے پر پڑ رہی تھی۔ میں حیران تھا کہ یہ روح کس قسم کے عذاب میں مبتلا ہے۔ اس کی آواز آئی
”ابھی تک تم میےر عذاب کی اذیت سے واقف نہیں ہوئے ہو۔ چونکہ تمہیں دیوتاﺅں نے میرا نجات دہندہ بنا کر یہاں بھیجا ہے۔ اس لئے میں تمہیں اپنے عذاب کی جھلک ضرور دکھاﺅں گی۔“
امیلیا نے اس کے ساتھ ہی چادر ہٹادی۔ میں یہ دیکھ کر ششد رہ گیا کہ اس کے سینے میں ایک خنجر کھبا ہوا تھا۔ جس میں سے خون کے قطرے نیچے ٹپک رہے تھے۔ اس کی کرب آلود آواز ایک بار پھر بلند ہوئی۔
”یہ خنجر میرے سینے میں سینکڑوں برسوں سے گڑا ہوا ہے۔ میں اسے باہر نہیں کھینچ سکتی۔ میرے ہاتھ اس خنجر تک نہیں پہنچ سکے۔ اس کے قریب پہنچتے ہی میرے ہاتھ مفلوج ہوجاتے ہیں اور انگلیوں کی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔ میں اس گہرے زخم کا درد برس ہا برس سے برداشت کرتی چلی آرہی ہوں۔“(جاری ہے)