اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 175
طرسومہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی میری طرف آئی او رپلنگ کی پٹی پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر تفکرات کے سائے تھے۔ اس نے آہستہ سے کہا
”تم نے میری جان بچائی تھی اب میں تمہاری جان بچا کر اپنا قرض چکانا چاہتی ہوں۔“
”یہ تم کیا کہہ رہی ہو طرسومہ؟ میری جان کو کیا ہوگیا ہے؟ میں تو بالکل اچھا بھلا ہوں۔“ اس نے میر اہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور خبردار کرنے والے لہجے میں بولی
”آج رات تم یہاں سے کہیں چلے جاﺅ۔ وہ لوگ تمہیں ہلاک کرنے آئیں گے۔“
میں نے انجان بنتے ہوئے سوال کیا ”وہ کون لوگ؟“
طرسومہ جلدی جلدی کہنے لگی
”میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ میں نے اپنے آقا کو تمہارے قتل کے بارے میں ہدایت دیتے خود سنا ہے۔ غلام مشروط زہر میں بجھا ہوا خنجر لے کر آج رات تمہیں قتل کرنے آرہا ہے۔ تم میرے محسن ہو۔ اسی لئے میں بڑی مشکل سے وقت نکال کر تمہیں خبردار کرنے آگئی ہوں۔ خدا کے لئے آج کی رات یہاں مت رہنا .... میں جاتی ہوں۔“
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 174 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
طرسومہ تیزی سے قدم اٹھاتی دروازے کی طرف بڑھی اور پردہ اٹھا کر باہر نکل گئی۔ تو گویا سلیمان شاہ اب میرے قتل کا منصوبہ تیار کررہا تھا۔ اگر میں وہیں رہتا ہوں اور مشروط غلام مجھ پر خنجر کا بھرپور وار کرتا ہے تو ظاہر ہے میں مروں گا نہیں۔ غلام مشروط پر میری ناقابل شکست طاقت کا راز فاش ہوجائے گا۔ یہ بات وہ سلیمان شاہ کو بھی جاکر بتادے گا اور اس بات کا امکان تھا کہ وہم یری فوق الفطرت قوت سے مرعوب ہوکر خلیفہ اندلس کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بھی ترک کردے۔ یہ بات میرے حق میں نہیں جاتی تھی کیونکہ میں اس اسلام دشمن غدار وطن کو رنگے ہاتھوں پکڑوانا چاہتا تھا۔ بہتر یہی تھا کہ میں پانی قیام گاہ سے رات بھر کے لئے غائب ہوجاﺅں گااور صبح اگر سلیمان شاہ پوچھے تو کوئی بہانہ گھڑدوں۔
چنانچہ یہ فیصلہ کرکے میں بستر سے اٹھا۔ سر پر سیاہ عمامہ رکھ کر فرعل اوڑھا۔ اصطبل میں آکر گھوڑا نکالا اور اسے رات کے اندھیرے میں دوڑاتا، سیدھا لیوپارڈی کی درگاہ میں پہنچ گیا۔ اسے میں نے جاتے ہی بتادیا کہ سلیمان شاہ آج رات مجھ پر قاتلانہ حملہ کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لئے میں اپنی قیام گاہ سے فرار ہوکر اس کے پاس آگیا ہوں۔ اس نے ہونٹ سکیڑ کر کہا
”یہ شخص ہم سے دشمنی مول لے کر قرطبہ میں زندہ نہیں رہ سکے گا۔ بہرحال تم اندر جاکر آرام کرو۔ میں شارلیان کو یہاں کے حالات سے باخبر کرنے کے لئے صبح آدمی دوڑادوں گا۔“
وہ رات میں نے لیوپارڈی کی درگاہ میں بسر کی۔
دوسرے روز سلیمان شاہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے متفکرانہ انداز میں کہا ”لیوگی! رات تم کہاں چلے گئے تھے؟ مجھے تم سے ایک ضروری مشورہ لینے کی ضرور پڑگئی تھی۔ میں نے آدمی بھیجا تو پتہ چلا کہ تم مہمان خانے سے غائب ہو۔“ میں نے ایک فرضی کہانی سناتے ہوئے کہا
”حضور رات میرے ساتھ عجیب واقعہ ہوگیا۔ لیٹے لیٹے طبیعت کچھ بے چین سی ہوگئی۔ سوچا چاندنی رات میں دریا کی سیر کرنی چاہیے۔ میں گھوڑے پر بیٹھ کر دریا ے ساتھ ساتھ سیر کرتا پہاڑیوں کی جانب نکل گیا۔ جب واپس ہونے لگا تو معلوم ہوا کہ راستہ بھول گیا ہوں۔ حضور والا۔ یہاں اجنبی ہوں۔ جنگل پہاڑیوں کے راستوں سے بے خبر ہوں۔ بس ساری رات بھٹکتا پھرتا رہا۔ سورج نکلا تو اس کی روشنی میں راستہ ٹٹولتا بڑی مشکل سے دریا کا سراغ ملا اور پھر اپنے محل تک واپس آیا۔ میری توبہ حضور! اب میں کبھی ان پہاڑیوں کا رخ نہیں کروں گا۔“
میں نے اس فرضی قصے کو کچھ اس طریقے سے سنایا کہ سلیمان شاہ کو یقین آگیا۔ مگر دوسری رات اس نے پھر قاتل مشروط کو میری خواب گاہ کی طرف بھیج دیا۔ اب میں ہوشیار ہوچکا تھا۔ میں نے خواب گاہ کی ساری شمعیں روشن کررکھی تھیں اور پلنگ پر لیٹنے کی بجائے دیوان پر بیٹھا پرانی کتابیں نکال کر ان کا مطالعہ کرتا رہا۔ مجھے دو تین بار باہر راہ داری میں قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ایک بار دروازے کے قریب بھی آہٹ ہوئی مگر میں جاگ رہا تھا۔ خبردار تھا اور میں نے اپنے قریب ہی ایک تلوار بھی رکھی ہوئی تھی۔ قاتل کو خواب گاہ میں کسی خفیہ دروازے سے بھی اندر آنے کی جرا¿ت نہ ہوئی۔ وہ مجھے نیند میں قتل کرنا چاہتا تھا یا غافل پاکر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ظاہر تھا کہ جاگتے میں اگر وہ مجھ پر حملہ آور ہوتا تو لڑائی شروع ہوجاتی اور میں قاتل کا چہرہ دیکھ لیتا۔ میں اس پر غالب بھی آسکتا تھا۔ اس اعتبار سے سلیمان شاہ کی سازش نہ صرف ناکام ہوسکتی تھی۔ بلکہ الٹا اسے یہ وضاحت بھی کرنی پڑتی کہ اس کا خاص غلام مجھے کس لئے قتل کرنے آیا تھا۔
اس طرح کچھ دن گزرگئے۔ اس دوران میں سلیمان شاہ مجھے ایک یا دو بار ہی سررا ہے ملا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اب اس کی ساری توجہ خلیفہ مسترشد کے قتل کی سازش کی طرف ہے۔ اب وہ اپنے رازوں میں بھلا مجھے کیوں شامل کرنے لگا تھا۔ لیکن میں ہر قیمت پر اس کے دل کا حال معلوم کرنا چاہتا تھا۔ میری نگاہ انتخاب رقاصہ طرسومہ پر پڑی جو سلیمان شاہ کی جلوت و خلوت میں شریک تھی۔ ہر چند کہ سلیمان شاہ اسے سلطان کے خلاف ساز ش میں کسی حالت میں شریک نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن طرسومہ کی زبانی مجھے اس عیار شخص کی نقل و حرکت سے آگاہی مل سکتی تھی۔ رقاصہ طرسومہ کا جھکاﺅ پہلے ہی کچھ میری طرف کو تھا۔ میں نے دو چار ملاقاتوں میں اس اپنا مزید گرویدہ کرلیا۔ میں نے اسے بتایا کہ سوڈان میں میری زمینیں ہیں اور یہاں سے واپس اپنے وطن میں جاکر سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں۔ طرسومہ نے پوچھا کہ اس کا آقا سلیمان شاہ میری جان کا کیوں دشمن بن گیا ہے؟ میں نے ایک فرضی کہانی گھڑ کر اسے سنادی کہ میں قرطبہ میں ایک خفیہ شاہی خزانے کی تلاش میں آیا تھا۔ آقا کو اس خفیہ خزانے کا علم ہوگیا ہے اور اب وہ مجھے اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ مگر میں اسے یہ خزانہ اکیلے ہضم نہیں کرنے دوں گا۔ طرسومہ نے تعجب سے کہا کہ اس کا آقا تو سلطان معظم کا چچا ہے اسے خزانے کی کیا حاجت ہے۔ میں نے کہا کہ بادشاہوں کو خزانے کا لالچ ہم سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس قسم کی باتوں سے میں نے طرسومہ سے اظہار محبت بھی کردیا اور کہا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے تو وہ شرماگئی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوسری بار کی ملاقات میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بولی ”میں خود اس زندگی سے تنگ آچکی ہوں او رکسی کے ساتھ شاید کرکے باقی زندگی شرافت کے ساتھ بسر کرنا چاہتی ہوں۔“ میں نے اسے حوصلہ دیا اور کہا کہ خزانہ ملتے ہی اس سے شادی کرکے اسے اپنے ساتھ سوڈان لے جاﺅں گا۔ جہاں ہم عیش و آرام کی زندگی بسر کریں گے۔ اب اس کی ساری ہمدردیاں میرے ساتھ ہو گئیں۔ میں نے اسے یہ تو نہ بتایا کہ سلیمان شاہ سلطان معظم کو ہلاک کرنے کا منصوبہ تیار کرنے میں لگا ہے۔ صرف اتنا ہی کہا کہ وہ میرے خزانے پر قبضہ کرنے کی فکر میں ہے اور مجھے اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ اس لئے مجھے اس کی نقل و حرکت سے آگاہ کردیا۔ طرسومہ نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ”میں تمہیں ایک ایک بات کی خبر کردیا کروں گی، تم مطمئن رہو۔“(جاری ہے)