تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے ہراسگی کے واقعات کے ذمہ دار……والدین یا مالکان؟
لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی،پنجاب کالج میں طالبات سے مبینہ ہراسگی کے واقعات، پنجاب یونیورسٹی میں طالبہ کی خود کشی، کیا تمام واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا سازش ہے یا محض اتفاق۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی بے حیائی، بے راہ روی،اخلاقی قدروں کے نکلتے جنازے کا ڈراپ سین، گلبرگ کیمپس لاہور میں طالبہ کی توڑ پھوڑ، پولیس کے لاٹھی چارج، طلبہ طالبات کو انتظامیہ کی طرف سے سوشل میڈیا کے حوالے سے دھمکیاں، پولیس کے ذریعے تشدد، کالج کے کیمرے توڑنے سمیت کالج میں صوبائی وزیر کے آنے اور دو تین کالجز کی رجسٹریشن کینسل کرنے اور یو ٹیوبر کی طرف سے پوائنٹ سکورنگ کے لئے پنجاب کالج، پنجاب یونیورسٹی اور لاہور یونیورسٹی کے مبینہ واقعات پرانگلنگ اور پوائنٹ سکورنگ کے مقابلے کو زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے۔پنجاب کالج کا سانحہ ہوا یا نہیں ہوا اِس حوالے سے خبریں لگوانے اور خبریں رکوانے، واقعات ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے دلائل دینے کے مقابلے سے بھی سروکار نہیں ہے۔پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تین بہنوں میں سے ایک کی طرف سے ہوسٹل میں خود کشی اور والد کی طرف سے انتظامیہ کو تحریری طور پر لکھ کر دینے کہ میں ایف آئی آر بھی نہیں کروانا چاہتا، خدارا میری بیٹی کی خبر بھی شائع نہ کی جائے اس کا اثر میری دوسری بیٹیوں پر ہو گا، تین بیٹیوں میں سے ایک کی میت لے کر اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ وہ اپنے گھر رخصت ہو گیا۔بظاہر پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ مطمئن ہو گئی،اگر ایف آئی آر ہوتی؟ فرانزک ہوتا، تحقیقات ہوتی، یونیورسٹی کی بدنامی ہوتی، بیٹیوں کے والد نے پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کا مسئلہ بھی حل کر دیا اور خود بھی قیامت برپا کرنے والے سوشل اور الیکٹرونک میڈیا سے بچ کر خاموشی سے گھر جا کر بیٹی کو آہوں اور سسکیوں میں دفن کر دیا ہے والد کے لئے آزمائش ہے۔پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم دوسری دونوں بیٹیوں کی تعلیم جاری رکھنا ہے یا ان کو بھی گھر بیٹھا لینا ہے اور خاموشی سے ان کی باعزت رخصتی میں لگ جاتا ہے۔ دوسرا سانحہ یا واقعہ لاہور یونیورسٹی کا ہے طالبات سے سول انجینئر پر الزام لگایا ہے اس کے خلاف وائس چانسلر نے ایکشن بھی لے لیا ہے اس کو معطل کیا جا چکا ہے اِس کے باوجود طالبات سڑکوں پر ہیں، چار دن کے مسلسل احتجاج اور گورنر ہاؤس اور پنجاب اسمبلی کے سامنے طالبات کے احتجاج کے بعد لاہور کالج کی انتظامیہ نے لاہور یونیورسٹی کو بند کر دیا ہے اور طالبات کے یونیورسٹی آنے پر پابندی لگا دی ہے اور تاحکم ثانی آن لائن کلاسز کا آغاز کر دیا گیا ہے۔طالبات کے لئے مجبوری میں بھی یونیورسٹی آنے کے لئے قوائد جاری کیے ہیں۔لاہور کالج یونیورسٹی کے واقعات سے انکار نہیں کیا گیا۔ البتہ گورنر پنجاب سلیم حیدر کی ہدایت پر لاہور کالج یونیورسٹی کے واقعات کی تحقیقات کی لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس نے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اب تک تصدیق ہوئی ہے انجنیئرنگ سٹاف کی طرف سے طالبات کو ہراساں کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں،جنہیں انتظامیہ یا عملے نے دبا دیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ طالبات اکٹھے پڑھتے ہیں، جبکہ لاہور کالج یونیورسٹی میں صرف طالبات زیر تعلیم ہیں۔پنجاب کالج کا جو مبینہ واقعہ جو ہوا ہے وہاں بھی صرف طالبات زیر تعلیم ہیں۔ لاہور یونیورسٹی اور پنجاب کالج کے ہراسگی کے واقعات کو ملازمین سے جوڑا گیا ہے پنجاب کالج میں طالبات کو ہراساں کرنے کا ذمہ دار گارڈ کو قرار دیا گیا ہے جس طالبہ کے حوالے سے خبر یا مبینہ واقعہ سامنے آیا تھا اس کی اپنی اور والدین کی تحریر مختلف اخبارات اور یونیورسٹیز نے نشر اور شائع کر دی ہے اور اس کے والدین نے سرے سے ہی اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے بچی کے ہسپتال میں داخلے،آئی سی یو میں رہنے کو گھر میں گرنے اور معمولی چوٹ آنے سے جوڑا ہے۔پنجاب گروپ نے اس سارے واقعے کو تحریک انصاف کے طلبہ ونگ کی شرارت یا سازش قرار دیا ہے اور اس واقعہ کی آڑ میں طلبہ کو تعلیمی اداروں سے نکال کر سڑکوں پر لانے کی مذموم سازش قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے بھی پنجاب کالج کے واقعہ کو سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے ایسا واقعہ ہوا ہی نہیں ہے،طے شدہ پروگرام کے تحت سارے امور انجام دیئے گئے سرغنہ کو پکڑ لیا گیا ہے باقی افراد بھی جلد کٹہرے میں ہوں گے۔
لاہور یونیورسٹی کے انجینئر کی طرف سے طالبہ سے ہراستگی کے واقعہ اور پنجاب یونیورسٹی میں طالبہ کی خود کشی سے تو کسی نے انکار نہیں کیا،تسلسل کے ساتھ ہونے والے واقعات پر سیاست کرنا سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ واقعات کا سرے سے نہ ہونے کا ثبوت دینا سب پر بات ہو سکتی ہے؟مگر آج کی نشست میں اس حوالے سے کچھ زیر بحث لانا نہیں چاہتا۔میں ان واقعات کا ذمہ دار کسی ایک فرد یا تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو قرار نہیں دیتا، میں تعلیمی اداروں میں جو کچھ آج کل ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار دورِ حاضر کے فتنہ موبائل اور والدین کو قرار دیتا ہوں، تعلیمی ادارے تو تجارتی منڈیاں بن چکے ہیں،تجارتی تاجروں کو صرف پیسہ چاہئے اِس کے لئے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے بچے بچیاں کون سا لباس پہن کر آتے ہیں ان کی کلاسز کتنی ہوتی ہیں، کالج یونیورسٹی کا ماحول کیسا ہے؟ کالجز، یونیورسٹی کے کیفے اور کینٹین پر کیا گُل کھلائے جا رہے ہیں؟
ایمانداری سے کہتا ہوں ہوں میاں عامر محمود کا پنجاب کالجز کا نیٹ ورک بہت بہتر ہے۔ لاہور کی بڑی اور بین الاقوامی تصور کی جانے والی یو ایم ٹی، یونیورسٹی آف لاہور، بیکن یونیورسٹی،ایل جی ایس اور دیگر کالجز اور یونیورسٹیوں کے کیمپس ہمارے وطن عزیز کے مستقبل نوجوان بچے بچیوں کے ساتھ کیا ستم ڈھا رہے ہیں اس کا جائزہ میں بقلم خود لے سکتا ہوں،جس معاشرے میں بچیوں کے والد بچیوں کے بھائی، بچیوں کے چاچا جب یونیورسٹی اپنی بیٹی، بہن، بھتیجی کو لینے موٹر سائیکل یا کار پر جائے گا تو نیکر پہنی ہو، اسے کریز ہو وہ امیر گھرانے،جدید معاشرے کا لگے،مارڈن سمجھا جائے گا؟ والدین، بہن بھائیوں کو یہ توفیق نہیں ہو گی ان کی بیٹی، بہن کیسا لباس پہن کر یونیورسٹی کالج جا رہی ہے یا گئی ہے ان کو یہ بھی علم نہ ہو ان کی بیٹی،بہن کب گھر سے نکلتی ہے، کس کے ساتھ جاتی ہے، ویگن، رکشہ میں اس کے ساتھ کون جاتا ہے ان کے لئے بچی کی اخلاقی تربیت کا کرائی ٹیریا یہ ہو۔ بڑھی یونیورسٹی،بڑے میڈیکل کالج سے پڑھانا ہے، پیسے کی فکر نہیں ہے، جو بچی بچہ ساری رات موبائل پر رہے دن بھر دوستوں کے ساتھ ٹک ٹاک بناتی رہے،شیشہ پینا مذاق اور شغل ہو، سگریٹ پینا جرم نہ ہو، ان کی آنکھیں بند کرنے والے والدین پر رویا جائے یا طلبہ کو ہراسگی کے واقعات پر نوحہ پڑھا جائے، گارڈ ہراسگی کرے یا رکشہ ڈرائیور یا پھر کالج یونیورسٹی کا انجینئر یا استاد، ہم کسی کو اُس وقت تک نہیں روک سکتے جب تک ہماری بچیاں ایسا لباس پہن کر خود دعوتِ گناہ بن کر یونیورسٹی اور کالج جاتی رہیں گی۔
میں 2006ء سے اپنی بیٹیوں کو کریسنٹ سکول سے کوئین میری، یو ایم ٹی اور کنیرڈ کالج اب ارفع کریم اور ہوم اکنامکس یونیورسٹی چھوڑنے اور لانے کی ذمہ داری ادا کرتا رہا ہوں۔ یونیورسٹیوں،کالجز کا ماحول دیکھ کر گاڑی میں بیٹھ کر اکیلے رونے اور اللہ کی بارگاہ میں اپنی اور دیگر بچیوں کی عزت کی حفاظت کرنے کے لئے سرسجود رہتا ہوں۔ فتنہ پرور دور میں بہت بڑی آزمائش ہے اس میں کسی کی بچیوں کو بھی قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔میرے سمیت تمام والدین ذمہ دار ہیں، جو گھر سے جاتی بچیوں کے لباس پہننے سے لے کر گھر سے کالج اور یونیورسٹی پہنچنے کے عمل کو مانیٹر نہیں کرتے اور اساتذہ اور کالج یونیورسٹیوں کے ذمہ داران سے کوآرڈنیشن نہیں اور پھر واپسی پراپنے بچوں کے روز و شب نہیں دیکھتے؟یہ واقعات تو ہونے ہیں، سیاست کرنے کا وقت نہیں بیدار ہونے کا وقت ہے، تعلیم کا جنازہ تو اُس وقت ہی نکلنا شروع ہو گیا تھا جب حکومتوں نے ٹھیکہ پر دینے کو مشن بنا لیا تھا اب رہی سہی کسر کالجز یونیورسٹیوں کے بعد سکولوں کو بے رحم این جی اوز کے رحم و کرم پر دینے سے نئی قیامت کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔اخلاقی قدروں کا جنازہ نکالنے میں سارا قصور تعلیمی اداروں کا نہیں ہم بھی برابر کے جرم دار ہیں، سوئے رہیں گے تو سمجھ لیں۔
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
٭٭٭٭٭