اور میرے ”ہاسے“ نکل گئے!

   اور میرے ”ہاسے“ نکل گئے!
   اور میرے ”ہاسے“ نکل گئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ دنوں محترم غلام جیلانی خان نے جو ریٹارڈ فوجی تو ہیں لیکن ان کی روح ادیبوں سی ہے انہوں نے نسٹلجیا کے معنی فرمائے اور پھر باقی عام لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ بہرحال میں ان کی بصیرت سے استفادہ کرتا ہوں تاہم نسٹلجیا کویادماضی ہی تصور کرتا ہوں جس کے بارے میں شاعر نے کہا ”یاد ماضی عذاب ہے یا رب“ یہ بالکل درست ہے لیکن آج ماضی کا جو رشتہ حال سے جڑا اس نے مجھے خود بخود خوشگوار موڈ میں مبتلا کر دیا اور گزشتہ روز سے میرا ”ہاسا“ نہیں رک پا رہا لیکن گھر میں کھل کر ہنس بھی نہیں سکتے کہ بچے آج کے ماحول اور حالات کے باعث کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ والد یا دادا جی کا دماغ الٹ گیا ہے کیونکہ آج کل ہنسی یا قہقہوں کی بہار رک گئی اور یاس کی کیفیت رہتی ہے۔ ہمارا اپنے پاکستان کے بارے میں جو تصور تھا وہ گہنا گیا ہے بلکہ 1958ء سے قبل ہمارے اور ہمارے اہل خانہ کے جو حالات تھے، ان کی بدولت بڑھاپے اور عمر کی آخری گھڑیوں میں بھی اللہ نے ہڈی مضبوط ہی رکھی ہے، تکلیفیں اور امراض یلغار کرتے ہیں تاہم اللہ جو شافی ہے وہ جلد ہی سنبھال لیتا ہے۔

قارئین! آپ خیال نہ کریں، الحمدللہ ذہنی طور پر بالکل صحت مند اور مکمل ہوش و حواس سے لکھ رہاہوں کہ گزشتہ روز سے بار بار ہنسی آتی اور سا تھ کے ساتھ ہی ماضی بھی سامنے آ جاتا ہے، وجہ اس کی ایک نہیں دو ہیں، جن کا تعلق حزب اختلاف اور حزب اقتدار سے ہے، ایک معاملہ وفاق اور صوبے کا مشترکہ اور دوسرا خالص صوبائی اور اچھی راہنماؤں سے متعلق ہے۔ پہلا واقع تو اڈیالہ جیل سے شروع ہو کر چکری انٹرچینج پر ختم ہوا اور وجہ وہی تھی جس کے بغیر حزب اختلاف کے پیٹ میں گڑ بڑ ہوتی ہے۔ہمارے تحریک انصاف کے مرکزی راہنما پوری تیاری کے ساتھ اڈیالہ جیل پہنچے کہ مرشد سے ملاقات کرکے نئی ہدایات لیں گے اور کچھ ان کے کان بھریں گے، ان کے علاوہ خان صاحب کی محترم ہمشیرگان بھی تھیں اور بہنوں کو بھائی کا درد اور اس سے جوانسیت ہوتی ہے اس بارے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال انتظامیہ کا معلوم نہیں کیا مسئلہ ہے کہ وہ ملاقاتوں سے گریز کررہی ہے۔ میں ان کی صفائی کے بارے کچھ نہیں کہتا کہ جیل مینوئل کے حوالے سے یہ گھر والوں اور ان وکلاء کا حق ہے جن کے پاس قید ی یا حوالاتی کی وکالت کا استحقاق اور وکالت نامہ ہوتا ہے، لیکن یہاں ایک اور اہم مسئلہ بھی ہے کہ ایسے وکالت ناموں والے وکلاء کی فوج ظفر موج ہے جو ہر روز ملنے کی کوشش کرتی ہے ان کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی لیڈرشپ بھی مشاورت لازم جانتی ہے لیکن جیل تو بہرحال جیل ہے یہ کوئی جماعتی دفتر تو نہیں، جہاں باقاعدہ میٹنگ منعقد کی جایا کرے اور پھر جماعت کی لیڈرشپ بھی کیسی جو الگ الگ ملنے کی خواہش مند ہو اور جو مل لے وہ میڈیا سے بات کرے اور جونہ ملے وہ ملنے والوں کے بارے میں خوش فہم ہو کر وہ اندر سے………… ہیں۔

بات کچھ کرنا تھی نکل کسی او رطرف گئی کہ خیالات کا مجتمع ہونا مشکل ہے بہرحال گزشتہ روز راولپنڈی پولیس نے باقاعدہ وارنٹ دکھا کر سات راہنماؤں کو گرفتار کیا، ان میں قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی عمر ایوب اور قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی بھی جبکہ سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا بھی پانچوں سواروں میں تھے، ان کے ساتھ خان صاحب کی تینوں ہمشیرگان کو بھی تسلی کے ساتھ گاڑی میں سوار کرالیا گیا۔

قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں ”ہاسے“ اور ماضی والی کون سی بات ہے تو پہلے صرف ”ہاسے“والی عرض کرلوں بعد میں دونوں کے مجموعے یعنی ہاسے اور یاد ماضی والی بات کروں گا، یہاں ہاسا تو مجھے اپنے عمر ایوب صاحب کی گرجدار آواز میں میڈیا کو بتانے پر آیا، انہوں نے کہا دیکھ لو! یہ قائدحزب اختلاف کو گرفتار کر رہے اور پھر گاڑی میں سوار ہوتے وقت یہ بڑا دعویٰ کیا ”ہمارے آباء اجداد نے اس ملک کی بڑی خدمت کی ہے“ اب آپ ہی بتائیں کہ اس پر ”ہاسا“ نہ آئے تو کیا ہو۔ محترم عمر ایوب کے آباء اجداد میں میری یادداشت کے مطابق فیلڈ مارشل (خود بنے) جنرل ایوب خان، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے جنہوں نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا۔ سکندر مرزا کو آگے رکھا اور پھر ان کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر ملک بدر کر دیا، ابتدا ایبڈو کے تحت تحریک پاکستان کے متحرک رہنماؤں کو بددیانت قرار د کر جیل بھیجا، حالانکہ مالی کرپشن کا ذکر اس سے پہلے کبھی نہ سنا گیا اور پھر انہی دادا جی نے اپنا خود ساختہ آئین نافذ کیا۔ دھاندلی سے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ مادر ملت فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب ہرایا اور جاتے وقت بھی اپنے بنائے آئین پر عمل نہ کیا، اقتدار سپیکر کے سپرد کرنے کی بجائے یحییٰ خان کو دیا جنہوں نے ایک اور مارشل لاء لگایا نتیجہ ایک کے دو ملکوں کی صورت میں نکلا، بتایا تو اور بھی بہت کچھ جا سکتا ہے تاہم اتنا ہی کافی ہے آج بھی دادا جان کے پوتے آئین، آئین پکار کر گلا خشک کرتے رہتے ہیں اور ان کو ہم صحافیوں سے بھی بڑی محبت ہے اور آزادی صحافت کے لئے بھی ہمارے ساتھ ہیں لیکن بھول گئے کہ 1963ء کا بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈی ننس ان کے دادا جان ہی کا تحفہ تھا اور آزادی صحافت کی مانگ کرنے کی پاداش ہی میں ہم جیسے فقیروں کو حوالاتوں اور جیل کی بھی سیر کرنا پڑی۔ ان کی جماعت مسلم لیگ کنونشن کے اخبار کو بند کرکے کارکنوں کی تنخواہیں نہ دیں اور ہمیں کوہستان کے سامنے سڑک پر پکوڑے بیچنا پڑے۔

بات طویل ہوگئی یاد ماضی اور ہاسا اکٹھا ہونے کی بات کی نوبت نہیں آ رہی۔ پولیس نے ستم ظریفی کی کہ ان ساتوں حضرات کو چکری انٹرچینج آ کر رہا کرکے چھوڑ دیا اور موقع دیا کہ سب مل کر ہوٹل میں کھانا کھالیں، ہوئی نہ بات ہاسے والی کہ یہ پولیس کی پرانی تربیت ہے۔ مجھے بچپن میں تحریک پاکستان کے وہ جلوس یاد ہیں جو موچی دروازہ سے جاتے اور ریگل چوک سے اسمبلی (فیصل چوک) تک پہنچتے پہنچتے گرفتار کرلئے جاتے، ابتدا تو حوالات اور جیل سے ہوئی اور پھر گرفتار کارکنوں کو دور لے جا کر چھوڑ دیا جاتا اور یہ طریقہ بعد میں بھی چلتا رہا، حتیٰ کہ جب ہماری باری آئی اور ہم نے مساوات سے برطرف کارکنوں کی بحالی کے لئے تحریک شروع، پہلے ہمیں جیل یاترا کرائی گئی اور جب ہم بالکل نہ مانے تو تربیتی واردات شروع ہو گئی، مجھے یاد ہے کہ دوسری گرفتاری کے بعد مجھے اور میرے ساتھیوں کو رات کے اندھیرے میں کاہنا کاچھا لے جا کر چھوڑ دیا گیا۔ ہماری واپسی کیسے ہوئی یہ بھی ہاسے والی بات ہے کہ تھوڑی لفٹ بیل گاڑی سے بھی لی۔ تو جناب حیران نہ ہوں، یہ دادا جان کا تحفہ ہے جو پوتے کے حصے میں آیا اور ہمارا دور تو وہ تھا جب محمد حنیف رامے وزیراعلیٰ اور جناب بھٹو وزیراعظم تھے۔

بات بڑھتی جا رہی ہے، اب دوسرے ہاسے والی بات سن لیں، پنجاب کی صوبائی حکومت نے دیکھا دیکھی پنجابی ثقافت کا علم بھی بلند کر دیا اور جمعرات کو ایک بڑی تقریب کا انعقاد کرکے سہ روزہ رنگارنگ پروگرام شروع کر ا دیا، ساری محنت عظمیٰ بخاری کی تھی۔ الحمراء والی افتتاحی تقریب میں وزیراعلیٰ مریم نوازمہمان خصوصی تھیں اور ان سب نے خطاب کیا۔ وزیراعلیٰ نے ماں بولی سے محبت کا بہت اظہار کیا اور نوجوانوں کو پنجابی بولنے اور پنجابی پڑھنے کی نصیحت کی۔ قارئین! آپ پوچھیں گے کہ اس میں ہاسے والی بات کون سی ہے تو دل تھا م لیجئے۔ یہ سب تقریریں اردو زبان میں کی گئیں۔

مزید :

رائے -کالم -