معاشرتی رویوں کی تطہیر

  معاشرتی رویوں کی تطہیر
  معاشرتی رویوں کی تطہیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل ہی میں ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہاں مریضوں کے رش سے ایسے لگا جیسے پورا معاشرہ ہی نفسیاتی مسائل سے دو چار ہے ڈاکٹر زاہد قطب سے کچھ باتیں اور بحث و مباحثہ بھی ہوا میں نے ان سے پوچھا کہ آخر پاکستان میں ذہنی امراض میں مسلسل اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے اصل میں خاندانی مساٰئل میں عدم مطابقت اور عدم برداشت نے ہمیں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ ذہنی مسائل سے دوچار کیا ہے قائم شدہ رویوں میں تبدیلی لانا کوئی گوارہ ہی نہیں کرتا معاشرتی رویے اتنے سخت اور نا قابل برداشت ہو چکے ہیں کہ لوگ ماہر نفسیات کی مدد لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ماہر نفسیات بھی ذہنی سکون کی ادوایات دیتے ہیں مریضوں کے ذہنی مسائل کو ذہنوں سے نکالتے نہیں ہیں نہ ان کے برین واش کرتے ہیں یورپی اور ترقی یافتہ ممالک میں معاشرہ کا ہر فرد ایک ماہ میں ایک دفعہ ماہر نفسیات سے ضرور اپنا چیک اپ کرواتا ہے تاکہ اگر جسم میں خلیات کے کام میں کوئی رکاوٹ ہو تو اسے دور کیا جا سکے نفسیاتی معالج سے چیک اپ کو معیوب خیال نہیں کیا جاتا پاکستان میں ماہر نفسیات سے رجوع کرتے وقت مریض سو دفعہ سوچتا ہے کیونکہ پاکستان میں ماہر نفسیات سے چیک اپ کو معیوب اور پاگل پن خیال کیا جاتا ہے معاشرہ ایسے رجحانات کا خاتمہ کرنا بھی پاکستان میں ضروری ہے پاکستان میں فاؤنٹین ہاؤس واحد ادارہ ہے جو ڈاکٹر امجد ثاقب کی فہم و فراست اور بہتر گورنینس کے سبب ہزاروں ذہنی مریضوں کو معاشرہ کا کار آمد اور مفید فرد بنا چکا ہے سرکاری ہسپتالوں کے برعکس فاؤنٹین ہاؤس میں مریضوں کی تشخیص و علاج ومعالجہ پر توجہ دی جاتی ہے فاؤنٹین ہاؤس کے ڈاکٹر عمران مرتضی اور عائشہ کا ذہنی مریضوں کی سمت درست کرنے میں کردار بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اگر آپ پاکستان کے نظام صحت اور سرکاری ہسپتالوں کی طرف جائیں تو وہاں مریض کی تشخیص ہی نہیں کرپاتے، لہٰذا ہمارے ملک میں شعبہ صحت پر بجٹ کے انبار لگا دیں لیکن وہ صحت مند معاشرہ مہیا کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ جب تک ڈاکٹر مریض کی تشخیص نہیں کر پائے گا وہ علاج اور مریض کو صحت کیسے دے سکتا ہے اصل میں ذہنی امراض کے سبب ہی آہستہ آہستہ جسمانی امراض بلڈ پریشر 'ذیابیطس 'جگر کی خرابی 'کارڈیک امراض میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہ تو مریضوں کو صحت مند کرنے میں دلچسپی لیتا ہے اور نہ اس کے فالو اپ کی اس کو پروا ہ ہوتی ہے ہسپتالوں کی عمارتوں پر آپ اربوں روپے خرچ کر لیں لیکن جب تک ڈاکٹروں کے مریضوں کے ساتھ رویوں کو درست اور تشخیص کے نظام کو درست نہیں کرتے مریضوں کی تعداد میں نہ کمی آئے گی اور نہ مرض ٹھیک ہو گا پھر ہماری صحت پالیسی اور ہسپتالوں کی انتظامیہ کی پالیسیوں کا المیہ یہ ہے کہ ایمرجینسی وارڈز میں جہاں وہ مریض آتے ہیں جو موت و حیات کی کشمکش میں ہوتے ہیں ایمرجینسی میں ہاؤس جاب ڈاکڑز ان کا علاج کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر ایک گھنٹہ کے بعد ایمرجنسی سے ڈیڈ باڈی نکلتی ہے ایمرجنسی میں تو پروفیسر 'اسٹنٹ پروفیسر تعینات ہونا چاہئیں تاکہ وہ ایمرجنسی مریضوں کی درست تشخیص کرکے ان کی زندگی بچا سکیں اسی لیے ایلوپیتھی علاج ناکام ہو گیا ہے اور پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں دائمی طریقہ علاج نہیں اپنایا جاتا اب تو حکمت کے شعبہ میں بھی بڑے بڑے ادارے علاج و تشخیص کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور معاشرہ صحت مند نہیں پاکستان کے ہر خاندان میں تین مریض ہیں جو مر جاتے ہیں لیکن ان کا درست اور بروقت علاج نہیں ہوتا وزیر اعلی کو ہسپتالوں کے دورے کرنے کی بجائے ان اصل مسائل کی طرف توجہ دینا چاہیے تاکہ معاشرہ کے ذہنی اور جسمانی مریضوں کو حقیقی صحت یابی مل سکے اور معاشرہ میں مریضوں کی تعداد میں کمی سے مزید ہسپتالوں کے قیام کی بھی ضرورت نہ رہے نفسیاتی مسائل اور ذہنی امراض کے مریضوں میں بھی اضافہ پاکستان میں تشویش ناک صورت اختیار کر چکا ہے جس کی بہت سی معاشرتی و سماجی وجوہات ہیں حکومت ذہنی امراض کے اداروں کے قیام میں اضافے کے لیے اقدامات کرے اور ذہنی امراض کی وجوہات بے روزگاری، نا انصافی،نظاموں میں کرپشن،گڈ گورننس، خاندانی مسائل اور فیملی کورٹس پر بھی توجہ دینا ضروری ہے اب قوم جن کی وجہ سے نفسیات مریض بنتی جا رہی ہے جس سے لڑائی جھگڑے ”قتل و غارت“ معاشرتی ناہمواریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے عوام معاشی مسائل اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے بھی نفسیاتی مسائل میں جکڑے جا رہے ہیں خاندانوں کی تباہی کی وجہ سے اور نفسیاتی مسائل کے اثرات براہ راست نوجوان نسل پر پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نشہ 'بری سوسائٹی اور غلط سوچ کی طرف جا رہے ہیں والدین کو ان کی تربیت میں مسائل ہیں کتاب پڑھنے اور علم حاصل کرنے کی سوچ نوجوان نسل میں کم ہوتی جا رہی ہے کتاب میلوں میں والدین دلچسپی نہیں لیتے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابیں خرید کر دیں کتاب میلوں میں ان کو ساتھ لیکر جائیں تاکہ ان کو کتاب پڑھنے کی دلچسپی میں اضافہ ہو، ان کی ذہنی سوچ میں تبدیلی آئے اور وہ معاشرہ اور ملک و قوم کے لیے مثبت عمل کریں سوشل میڈیا میں غلط پروپیگنڈہ کی طرف ان کا رجحان کم ہو نوجوان نسل پروالدین ”معاشرہ“ اساتذہ اور حکومت توجہ نہیں دیتی تو پھر ملک کی سوچ نہیں بدل سکتی ہمارے احساسات اور رویے تبدیلی کے متقا ضی ہیں معاشرہ میں ایک دوسرے سے ہمددری ”احساس“کام آنے کا جذبہ اسی وجہ سے ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ نوجوان نسل بگڑ گئی ہے ان کی تربیت میں بے شمار رخنے پیدا ہو چکے ہیں ہر انسان کی زندگی میں مادیت نے جنم لے لیا ہے کوئی دوسروں کے مسائل پر توجہ دینے کا نہیں سوچتا، اجتماعی سوچ اور قومی سوچ کا فقدان ہوچکا۔

مزید :

رائے -کالم -