”اقتدار کی مجبوریاں“: چند تاثرات
مجھے یاد ہے کہ مَیں اس وقت دسویں جماعت کا طالب علم تھا،جب صدر جنرل محمد ایوب خان کی خود نوشت ”فرینڈز، ناٹ ماسٹرز“ شائع ہوئی تھی۔ اردو ترجمے کا عنوان تھا:”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ مترجم معروف ادیب غلام عباس تھے۔ بعض ظریف طبع لوگ انگریزی عنوان میں کوما اٹھا کر ’ناٹ‘ کے آگے لے جاتے تھے، جس سے مفہوم ہوتا ”ہمیں دوست نہیں، آقا چاہئیں“۔ کتاب کی طباعت سے پہلے دو بڑے واقعات وقوع پذیر ہو چکے تھے:”پہلا، جنوری 65ء کا صدارتی انتخاب اور دوسرا، جنگ ستمبر۔ لیکن ایوب خان نے اپنی خود نوشت میں ان کے ذکر سے گریز کیا تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ وہ الیکشن موصوف نے نوکر شاہی کے کل پرزوں کی مدد سے جیتا تھا اور قوم کی نظروں سے کچھ بھی مخفی نہ رہا تھا۔دوسرا بڑا واقعہ پاک بھارت جنگ کا تھا، لیکن اس کا ذکر اس لئے نہ چھیڑا، کیونکہ اس جنگ نے ان کا کشمیر فتح کرنے کا خواب بے تعبیر کر ڈالا تھا۔انہوں نے آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ زیڈ اے بھٹو اور میجر جنرل ملک اختر حسین کے اس مفروضے کی بنیاد پر بنایا تھا کہ اگر کشمیر میں کمانڈوز سبوتاژ کی کارروائیوں کے لیے بھیجے جائیں تو جنگ،کشمیر کے محاذ تک محدود رہے گی،
کیونکہ وہ متنازع بارڈر تھا۔ بھارت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بارڈر کو کسی صورت بھی کراس نہیں کرے گا۔بھارت نے”مجاہدین“ کے روپ میں آنے والی پاک آرمی سے کشمیر میں مقابلے سے عاجز آ کر بالآخر6ستمبر1965ء کو مغربی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کے پاس اس طویل محاذ پر لڑنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں فوج نہیں تھی، اس لئے اسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان اگر واضح طور پر شکست کے داغ سے بچ گیا تو اس کا بڑا سبب عوام کا بے پناہ تعاون تھا یا سرفراز رفیقی شہید،ایم ایم عالم، میجر شفقت بلوچ، عزیز بھٹی شہید اور بریگیڈیئر شامی شہید جیسے سرفروشوں کی قربانیاں تھیں۔ایوب حکومت نے پروپیگنڈہ کی سطح پر پوری قوم کو باور کرایا کہ ہم نے جنگ جیت لی ہے۔سترہ روز بعد جب حکومت نے اچانک جنگ بندی قبول کر لی تو پوری قوم کو زبردست ذہنی دھچکا لگا کہ اگر ہم فتح کی پوزیشن میں تھے تو پھر جنگ بندی کیوں منظور کی ہے،چنانچہ عوام سڑکوں پر نکلے تو اس وقت تک احتجاج کرتے رہے جب تک کہ ایوب خان مستعفی نہ ہو گئے۔ایوب خان کے ذہن میں ناکامی کی خلش ضرور تھی،اس لئے وہ کتاب میں اس جنگ کا ذکر نہ کر سکے۔ایوب خان کے قریبی لوگ بتاتے تھے کہ وہ جنگ ِ ستمبر کا ذکر کرنے سے خود بھی گریز کرتے اور کسی کو بھی اس پر لب کشائی کی اجازت نہ دیتے تھے۔
کسی پاکستانی حکمران کی یہ پہلی خود نوشت تھی جو میرے مطالعے میں آئی،اسی نے مجھے سیاسی لٹریچر کے مطالعے کا شوق دیا اور مَیں بعد کے حکمرانوں، افسروں،ادیبوں اور سیاست دانوں کی سرگزشتیں بھی بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں۔ان کے ساتھ ساتھ جب مَیں سیاسی تاریخ کا بھی مطالعہ کرتا تو مجھے حقائق تک پہنچتے دیر نہ لگتی۔حال ہی میں سابق آرمی چیف جناب مرزا محمد اسلم بیگ کی یاد داشتیں جناب کرنل اشفاق حسین کی وساطت سے سامنے آئی ہیں۔کرنل صاحب منجھے ہوئے ادیب ہیں، انہی کی ترغیب دینے سے مرزا صاحب لب کشا ہوئے۔کرنل صاحب کی محنت اور سوجھ بوجھ قابل ِ تحسین ہے۔انہوں نے مرزا صاحب ہی کے ایک جملے سے کتاب کا عنوان ”اقتدارکی مجبوریاں“ طے کیا، جو بہرحال بہت موزوں اور معنی خیز ہے۔ کتاب 350 صفحات پر مشتمل ہے اور ادارہ مطبوعات سلیمانی (اردو بازار لاہور) نے پیش کش کو دیدہ زیب بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔قیمت ساڑھے چھ سو روپے ہے،جو آج کی اشاعتی دنیا میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔
جنرل بیگ صاحب نے اپنی عسکری زندگی کے نشیب و فراز بڑی صاف گوئی اور ٹھیک ٹھیک یاد داشت کے ساتھ بیان کیے ہیں،ساتھ ساتھ سیاست کی بھی بڑی نرم گرم جھلکیاں پیش کی ہیں۔ان سے کئی طرح کے سیاسی اتار چڑھاؤ کا پس منظر سمجھنے میں مدد ملتی ہے،لیکن ایک واقعے کو جس طرح انہوں نے ٹریٹ کیا ہے، وہ قاری کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھاتا ہے کہ وہ اس مقام پر صاف گوئی سے کیوں کام نہیں لے سکے۔ان کی سپہ سالاری ہی کے دور میں 1988ء کے الیکشن ہوئے اور پیپلزپارٹی کے مقابلے پر دائیں بازو کی جماعتوں کو اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا۔اب یہ حقیقت قوم کی نظروں سے مخفی نہیں رہ گئی کہ ان جماعتوں کو خفیہ ہاتھوں نے اکٹھا کیا تھا اور اس معاملے میں ملکی خزانے سے کروڑوں کا فنڈ تقسیم کیا گیا۔
حیرت ہوتی ہے کہ جناب مرزا اسلم بیگ کیسے یہ تاثر دینے کی جرأت کرتے ہیں کہ اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا تو قوم پوری دلچسپی اور انہماک کے ساتھ فریقین کے بیانات سنتی اور پڑھتی رہی ہے۔اس حوالے سے جنرل صاحب نے جو مبہم اسلوب اختیار کیا ہے، وہ اس تلخ حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکا کہ ہمارے ملکی انتخابات میں مقتدر قوتیں اپنے مفادات کے لئے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ مداخلت کرتی رہی ہیں اور ملکی خزانہ اس حوالے سے استعمال ہوتا رہا ہے۔یہ بہت افسوسناک عمل ہے جس کو بار بار دہرانے سے انتخابی پراسس سرا سر مشکوک ہوتا رہا ہے اور اس مکروہ عمل کو اب روک دینا چاہئے،اسی میں قوم اور ملک کی بھلائی ہے۔ اگر کسی نے اس معاملے میں غلطیاں کی ہیں تو اسے کھل کر اعتراف کرنا چاہئے۔اس صاف گوئی سے ممکن ہے ہمارا مستقبل محفوظ ہو جائے!